Saturday, 02 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Kya Hum Besabre Hain?

Kya Hum Besabre Hain?

ہمارے حکمران کہتے ہیں کہ لوگ بڑے بے صبرے ہیں۔ کچھ انتظارکریں، کم ازکم ایک سال اورانتظار کریں۔ دیکھیے گا اچھے نتائج آنے لگیں گے، مہنگائی میں بھی کمی ہوگی۔ ابھی کچھ معاشی اہداف ہم نے حاصل کرنا شروع کر دیے ہیں۔ صبر نہیں کریں توکیا کریں؟ کہاوت ہے کہ "ماں باپ کی بات مان لے ورنہ ہمت ہو تو بغاوت کر دے " دنیا میں آج تک احتجاج، بغاوت، ہڑتال یا انقلاب کے بغیرکم ہی مسائل حل ہوئے۔

آمریت، بادشاہت، جبر و استحصال سب کچھ ردعمل کی وجہ سے ہی ختم ہوئے۔ کس کو نہیں معلوم کہ ہلاکو، تیمور، غزنوی، کولمبس، التمش اور سکندر سے لے کر پاکستان کے آمر ایوب خان کی آمریت ہو یا ضیا الحق کی، ان کے خلاف احتجا ج کیے بغیرآمریتوں کا خاتمہ نہیں ہوا۔ جہاں تک صبر کر نے کی بات ہے توسب کچھ ہوسکتا ہے لیکن بھوک صبر نہیں کرتی۔ باقی چیزیں چھوڑ دیں زندہ رہنے کے لیے کم ازکم دال، چاول، آٹا، تیل، چینی، دودھ، پیاز، لہسن، ادرک، مرچ مصالحہ اور نمک کی ہر صورت میں ضرورت ہے ورنہ لوگ فاقہ کشی یا لوٹ مارکی جانب راغب ہونگے۔

جہاں دالیں دو سوروپے کلو، چاول ایک سو پچاس روپے، آٹا ساٹھ رو پے کلو، تیل دوسوپچاس روپے، چینی نوے روپے، دودھ ایک سو روپے کلو، پیاز نوے روپے، لہسن اور ادرک تین سو بیس روپے کلو، مرچ مصالحے چارسو روپے سے ایک ہزار رو پے کلواور نمک تیس روپے اور مرغی کا گوشت تین سو روپے کلوہو تو صبرکہاں سے ہوگا؟ کم ازکم اور نہ سہی ان اشیائے ضرورت خوردنی کی قیمتوں میں حکومت کوکمی کرنی چاہیے یا پھر سبسڈی یعنی رعایتی قیمتوں میں عوام کو فراہم کرنی چاہیے۔ بے روزگاری اور مہنگائی کرائم کو جنم دیتی ہے اورکرائم مہنگائی اور بے روزگاری کو فروغ دیتی ہے۔ مثال کے طور پر ہم بجٹ کا بیشتر حصہ غیر پیداواری اخراجات پر لگا دیتے ہیں اور پیداواری عمل میں بجٹ کا حصہ بہت کم ہوتا ہے۔

پھر ستم ظریفی یہ ہے کہ اربوں کی کرپشن حکمران طبقات خود کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں ایک جانب دولت کا انبار اور دوسری جانب افلاس زدہ اور بھوکے عوام کی فوج تیار ہوجاتی ہے۔ جرائم کا ایک اور رخ یہ ہے کہ جب عوام مہنگائی سے دوچار ہوتے ہیں اور قوت خرید کے ہاتھوں مجبور ہوجاتے ہیں تو پھر جرائم کے راستے ہی رہ جاتے ہیں۔ مایوس ہوکر منشیات نوشی شروع کر دیتے ہیں یا پھرگدا گری کی راہ اختیار کر لیتے ہیں یا پھر خودکشی کی جانب راغب ہوتے ہیں یا پھر لوٹ مار یعنی چوری ڈکیتی کرتے ہیں۔ گٹکا، کثرت سگریٹ نوشی، پان، نسوار یہ سارے عمل مصنوعی ذہنی تسلی دیتے ہیں اور وقتی طور پہ بے گانگی ذات کی جا نب دھکیلتے ہیں۔

ہم قیمتی گاڑیاں، کاسمیٹک، جنگی جہاز تو درآمد کرتے ہیں لیکن ملیریا، نیگلیریا اور ڈنگی کو مارنے کے لیے اسپرے یا اورکوئی عملی اقدام نہیں کر پاتے۔ دیواروں پر نقش ونگاری، پرائیوٹ اسپتالوں اور او لیبل اسکولوں پر خصوصی توجہ تو دیتے ہیں مگر سر کاری اسکولوں جن کے احاطے سب سے وسیع ہیں، انھیں ترقی نہیں دیتے۔ برطانیہ کے شاہی جوڑے نے جب پاکستان کا دورہ کیا تو ہم ایس او ایس، اسلام آباد کے پوش علاقوں اور جہاں جہاں لے گئے وہ سب قبل از آمد صفائی ستھرائی کرا کے رکھی گئی تھی، اس کا نظارہ کروایا گیا۔

ہم نے انھیں کراچی کی گندی نالیاں، کوڑوں کے انبار، بھگوان پورہ اور شیخوپورہ کی حالات، چیچہ وطنی، پاک پتن، چاغی، تربت، دیر، کرک اور فٹ پا تھوں پہ رات گذارنے والے لا کھوں گداگروں، منشیات نوشوں اور غیر صحت مند اکثریتی علا قوں کا دورہ نہیں کروایا۔ کسی شخص کو میک اپ کرکے خوبصورت بنا دیا جائے اور پھیپھڑے ٹی بی زدہ ہوں تو اسے صحت مند شخص نہیں کہا جاسکتا ہے۔ یہ صرف پانچ دس فیصد لوگوں کی نمائش ہے۔

آج پاکستان میں ہزاروں استاد، ڈاکٹرز، بلوچستان یونیورسٹی کے طلبہ اور تاجر سراپا احتجاج ہیں۔ اس بد ترین اور ناگفتہ حالات میں ہماری معیشت دیوالیہ کے حد تک جانے والی ہے اور ہم کس ڈھٹائی سے کہہ رہے ہیں کہ سب کچھ ٹھیک ہونے والا ہے، اگر حکومت لا کھوں ایکڑ زمین بے زمین کسانوں میں بانٹ دے، کارخانوں کا جال بچھا دے اور مل کارخانوں کو مزدوروں کے حوالے کر دے تو پھر وہ خود پیداوار زیادہ کریں گے اور پیداوارکی تقسیم بھی منصفانہ کریں گے۔ ہم کرائم کو روکنے کے لیے اربوں روپے خرچ کرتے ہیں مگر مہنگائی اور بے روزگاری کی وجہ سے جرائم میں کمی نہیں آئی۔ اس لیے اگرکرائم کی روک تھام کے اخراجات کو مل کارخانے تعمیرکرنے پر لگا دیں تو جرائم میں صرف کمی نہیں بلکہ جرائم کو ختم بھی کیا جاسکتا ہے۔

سی پی ایل سی کی رپورٹ کے مطابق صرف گزشتہ ماہ ستمبر میں کراچی میں ایک سو نواسی گاڑیاں، دو ہزار نو سو ترپن موٹرسائیکلیں، چار ہزار دوسو ستترموبائل فونز چھینے گئے۔ یہ عوامل مہنگائی اور بے روزگاری سے جنم لیتے ہیں۔ ابھی حال ہی میں سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے وفاقی وزیر نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ سر کاری نوکری ہم کہاں سے دیں گے، یہ پرائیوٹ اداروں کا کام ہے۔

اب جب حکمران سارے ادارے مل فیکٹری کی نجکاری کریں گے تو پھر سرکاری نوکری کہاں سے ملیں گی۔ اس کا سادہ سا حل یہ ہے کہ تمام بڑی، قو می اور غیر ملکی اداروں، فیکٹریوں، کارخانوں، پروجیکٹز اورمنصوبوں کو براہ راست حکومت اپنی تحویل(یعنی قومی ملکیت)میں لے لے تو پھر لا کھوں کروڑوں لوگوں کو سر کاری نوکریاں میسر ہو نگی ا ور غیر ملکی قرضوں پر انحصار بھی ختم ہوجائے گا۔ ابھی مولانا فضل الرحمن لانگ مارچ کرنے جا رہے ہیں۔

انھوں نے اپنے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ ہم" انقلا بی لوگ ہیں "۔ جب ہمارے پڑوسی ملک افغانستان میں سوشلسٹ انقلاب آیا تھا تو اسے نا کام بنانے کے لیے امریکی سی آئی اے کی سرپرستی میں انھی لوگوں نے طالبان سے مل کر ڈاکٹر نجیب کی انقلابی حکو مت کو گرانے کے لیے ڈالر جہاد کیا تھا۔

یعنی امریکی سامراج کے آلہ کارکے طور پہ کام کیا۔ انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ہم نے ریاست کے کہنے پر یہ سب کچھ کیا، جب کہ عمران خان نے اپنے پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ ہمارے لوگوں کو تربیت دیکر افغانستان بھیجا اورہمارے ہزاروں لوگ مارے گئے،۔ لانگ مارچ کرنا اچھی بات ہے اس لیے کہ حکمران طبقات کے مابین جتنی مڈ بھیڑ ہوگی حکمران طبقہ کمزور ہوگا۔ منطقی طور پر عوام مضبوط ہونگے۔ مولانا یا کسی اور جماعت نے یہ نہیں کہا کہ ہم اقتدار میں آکر اشیاء خورونوش کی قیمتوں میں کمی کریں گے۔ اس لیے وعدہ نہیں کرتے کہ جب خود اسی ریاست اور اسی نظام میں رہتے ہوئے سب کچھ کرنا چاہتے ہیں تو کیونکرعوام کی بھلائی ہوسکتی ہے۔

سرمایہ داری کا تو اولین ہدف ہے کہ کسی بھی صورت میں صرف منافع کو بڑھایا جائے خواہ لوگ بھوک سے ہی کیوں نہ مریں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس سرمایہ دارانہ نظام کو یکسر انقلاب کے ذریعے بدلا جائے۔ جائیداد، ملکیت، طبقات، موروثیت، خاندان، سرحدیں ختم کرکے اسٹیٹ لیس سوسائٹی قائم کی جائے۔ جہاں سب مل کرکام کریں اور مل کر بانٹ لیں۔ فی الحال غیر پیدا واری اخراجات کو روک کر اشیاء خورونوش کی پیداوار پر زیادہ میں زیادہ رقم مختص کیا جائے توایک حد تک مہنگائی اوربے روزگاری سے نجات مل سکتی ہے اورغیر ملکی قرضوں اور سود سے بھی چھٹکارا پایا جا سکتا ہے۔