اس جدید ترقی کے دور میں جہاں چاند پر پہنچ کر اب مریخ پر جانے کی تگ و دو میں لگے ہوئے ہیں تو دوسری طرف صرف فضائی آلودگی سے اس کرہ ارض میں ہر سال چالیس لاکھ انسان لقمہ اجل بن رہے ہیں۔ جب کہ صنعتی آلودگی، آبی آلودگی، آواز کی آلودگی، ملاوٹوں کی آلودگی، غذائی آلودگی، پلاسٹک کی آلودگی وغیرہ کو اگر ملا لیں تو ہر سال کروڑوں لوگ صرف فطری ماحول کی بگڑتی حالت کی وجہ سے لقمہ اجل بن رہے ہیں۔ بیشتر خطرناک بیماریاں آلودگی کی بالواسطہ وجوہات کی بنا پر ہو رہی ہیں۔ مثال کے طور پر فضائی آلودگی کی وجہ سے شفاف آکسیجن ناپید ہوتی جا رہی ہے۔
جس کے باعث پھیپھڑے، دماغ اور خون کی شریانیں متاثر ہو رہی ہیں۔ صنعتی آلودگی کاربن اور مایع دونوں شکلوں میں انسان کو خطرناک بیماریوں سے دوچارکرتی ہیں۔ ٹوتھ برش سے لے کر تیز رفتار ریل گاڑیاں اور ہوائی جہاز بھی پلاسٹک کے محتاج ہوتے ہیں۔ پلاسٹک سے کینسر کے امراض تیزی سے پھیل رہے ہیں۔ کان کنی سے دھاتوں اور پتھروں کے ذرات فضا کو آلودہ کرتے ہیں، اس سے بھی کینسر پھیل رہا ہے۔ سب سے زیادہ فضا کو آلودہ گاڑیوں کے دھوئیں خاص کر پٹرول کے دھوئیں کرتے ہیں۔ صنعتی آلودگی اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ ریاست ہائے متحدہ امریکا پیدا کر رہا ہے جب کہ پلاسٹک اورکوئلہ کی آلودگی سب سے زیادہ چین پیدا کرتا ہے۔
پلاسٹک کی آلودگی دو ممالک زیادہ خطرناک حد تک پھیلا رہے ہیں اور وہ ہیں چین اور پاکستان جب کہ پلاسٹک کی آلودگی سے پاک ماحول نیدرلینڈز اور ہندوستان ہے۔ نیدرلینڈز نے پلاسٹک کی آلودگی کے خاتمے کا اعلان کردیا ہے اور ہندوستان دو ہزار بائیس میں کرنے جا رہا ہے، جب کہ ہمارے برصغیر کا ایک ملک بھوٹان ہے جوکہ دنیا کا واحد ملک ہے جہاں فضا میں کاربن نہیں ہے۔ جنوبی امریکا کا ملک کوسٹاریکا میں پٹرول اور ڈیزل کا استعمال ممنوع ہے، وہاں اٹھانوے فیصد شمسی توانائی اور دو فیصد فضائی توانائی سے کارہائے زندگی کو رواں دواں رکھا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں درختوں کی کٹائی ہو رہی ہے جب کہ کیوبا دنیا کا واحد ملک ہے جہاں 1959ء میں انقلاب سے قبل ملک کے کل رقبے کا اٹھارہ فیصد جنگلات تھے اور اب اکتیس فیصد جنگلات ہیں۔ یہاں کینسر، ہیپاٹائٹس اور ایڈز ناپید ہیں۔
معروف روسی دانشور لیوٹالسٹائے نے 1906ء میں کہا تھا کہ سائنسی اور تکنیکی ترقی کو روکے بغیر انسانوں کو برابری میں نہیں لایا جاسکتا۔ آج کی ترقی میں تیز رفتار ٹرین، تیز رفتار بڑے ہوائی جہاز، اونچی عمارتیں، قیمتی گاڑیاں، قیمتی جوتے، کپڑے، کاسمیٹک وغیرہ ہیں۔ اس تیز رفتار ترقی کے دور میں دنیا کے جنگلوں میں ساڑھے چارکروڑ انسان ننگ دھڑنگ رہتے ہیں، شکارکرکے کھاتے ہیں، جوتا ہے، کپڑا ہے، ٹوتھ پیسٹ ہے، صابن ہے، بستر ہے اور نہ تکیہ۔ حال ہی میں نیشنل جیوگرافک کی ایک ڈاکیومنٹری ریسرچ میں بتایا اور دکھایا گیا کہ ایک سو لوگوں کے خون ٹیسٹ کیے گئے ان میں سے کسی ایک کے بھی خون میں کینسر، ایڈز، ہیپاٹائٹس، کولیسٹرول اورکوئی خطرناک امراض نہیں پائے گئے۔ آخر کیوں؟ اس لیے کہ ان جنگلات میں آلودہ ماحول نہیں ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق ایک انسان کو سات درختوں کی آکسیجن چاہیے جب کہ گلوبل وارمنگ اور آلودہ ماحول دنیا کو کدھر لے جا رہا ہے اس پر مجھے زیادہ بتانے کی ضرورت نہیں اس لیے کہ اس پر ماہرین ماحولیات لاکھوں اوراق پر مشتمل تحقیق اور تجزیے کرچکے ہیں اور کر رہے ہیں۔ جتنی سائنسی ترقی ہو رہی ہے اتنی ہی بیماریاں اور اموات میں اضافہ بھی ہو رہا ہے۔ عجیب منطق ہے کہ ایک جانب کتے بلیوں پر اربوں ڈالر صرف علاج کے لیے خرچ کیے جا رہے ہیں تو دوسری طرف امریکا، روس، چین، اسرائیل، فرانس، برطانیہ، ہندوستان، پاکستان اور دونوں کوریاؤں کے پاس ہزاروں ایٹم بم موجود ہیں۔ جن کے ذریعے اس دنیا کو کئی سو بار تباہ کیا جاسکتا ہے۔ سات سمندر میں صرف امریکا کے اڑسٹھ اور چین کے بارہ جنگی بحری بیڑے لنگر انداز ہیں۔
دنیا کو ان تباہیوں سے بچانے کے لیے ضروری ہے کہ ہتھیاروں، سائنسی اور تکنیکی ترقی (سوائے مڈل سائنس) کو روک کر انسانوں کو برابری پر لایا جائے اور دنیا کو جنگلات سے بھر دیا جائے۔ اگر جنگلات سے دنیا بھر جاتی ہے تو آکسیجن کی کمی دور ہوجائے گی، طوفان، شدید گرمی اور سردی حسب معمول ہوجائے گی، برف کا پگھلنا رک جائے گا، دریاؤں کا پانی شفاف ہو جائے گا، لوگ مچھلیاں پکڑ کر کھانے لگیں گے، جنگلات میں سبزیوں اور پھلوں کی بھرمار ہوگی، جانور اور پرندوں سے جنگلات چہچہانے لگیں گے۔ کرہ ارض کے حیاتیات لوٹ آئیں گی۔ ذرا غور تو کریں کہ موبائل کی دریافت، ہوائی جہاز کی اڑان، تیز رفتار ٹرین کی دوڑ سے زندگی تیز تو ہوگئی لیکن روزانہ اس دنیا میں 75 ہزار انسان صرف بھوک سے مر رہے ہیں۔ آلودگی میں چلنا پھرنا، سونا، کھانا اور سانس لینا بھی دشوار ہوگیا ہے۔ ہندوستان اور چین میں تو شفاف آکسیجن بھی بکنے لگے ہیں۔
روسو کے بقول زمانہ قدیم کے لوگ معصوم وحشی انسان تو کہلاتے تھے لیکن آج کے جدید سائنسی ترقی کے دور میں صرف 2018ء میں فرانس میں تشدد سے ایک سو سولہ خواتین کا قتل ہوا۔ صرف حادثات سے ہر سال چھ لاکھ انسان لقمہ اجل بنتے ہیں، لاکھوں انسان ہر سال جنگوں میں ہلاک ہوتے ہیں، ہر روز نئی بیماریاں دریافت ہو رہی ہیں۔
کیوبا اور ہندوستان کا ایک صوبہ میزورام میں کیمیائی کھاد کے استعمال کو ترک کرکے دیسی کھاد کے استعمال سے وہاں غذائی آلودگی میں خاطر خواہ کمی آئی اور مہلک بیماریاں ختم ہوگئیں۔ ذرا جائزہ لیں تو پتہ چلے گا کہ ماحولیات کی آلودگی کو درست کرنے اور بھوک کے خاتمے پر اگر پانچ فیصد رقم خرچ ہوتی ہے تو پچانوے فیصد اسلحہ، کاسمیٹک، کاروں، موٹرسائیکلوں، موبائل اور الیکٹرانک کے ساز و سامان پر خرچ ہوتے ہیں۔ امریکا میں کیمیکل کھادوں سے پیدا کی جانے والی اجناس اپنے شہریوں کو نہیں دی جاتیں جب کہ کیمیکل کھاد سے پیدا کی جانے والی اجناس کو دیگر ملکوں میں فروخت یا امداد کے طور پر فراہم کی جاتی ہیں۔ اسی طرح جینیٹک بیج کی پیداوار برازیل، نائجیریا، کینیا، ہندوستان، جنوبی افریقہ اور پاکستان جیسے ملکوں کو فراہم کرکے ان کی نسلوں کو تباہ کیا جا رہا ہے۔ معدنیات کی تلاش، نکالنے اور اسے پگھلا کرکموڈیٹی (قابل استعمال جنس) میں تبدیل کرنے کے عمل میں دنیا کا فطری ماحول تباہ ہو رہا ہے۔
دنیا میں ایک ایسا فطری ماحول کی تشکیل کی جائے جہاں ہم بھلے پیدل چلیں، روز شیو نہ بنائیں، میکڈونلڈ کا کھانا نہ کھائیں، معمولی کپڑے پہنیں، معمولی گھروں میں رہیں لیکن ماحولیات کو فطری تقاضے کے مطابق برقرار رکھیں۔ دنیا کی سرحدیں ختم کر دیں، دنیا کو ایک کر دیں، ساری دنیا کی پیداوار کے مالک سارے لوگ ہوں، کہیں بھی آنے جانے کی پابندی نہ ہو۔ سب ہر ایک کا اور ہر ایک سب کا ہو، آگے چل کر عوام خود فیصلہ کریں گے کہ اس دنیا کو مزید کیسے فطرت کے تقاضے پورے کرنے کے لیے آگے بڑھیں۔ ایسا کمیونسٹ نظام یا امداد باہمی کے سماج میں ممکن ہے یا پھر اس سے بہتر کوئی نظام لوگ خود تخلیق کریں گے۔