کون سا ایسا دور ہے کہ مزدور بے روزگار نہ ہوئے ہوں اور مہنگائی کا شکار نہ ہوئے ہوں؟ مگر موجودہ حکومت کے دور میں بے روزگاری کا توکمال ہی ہوگیا ہے۔ زراعت، صنعت، آبی وسائل، جنگلات اور معدنیات غرض یہ کہ ہر شعبے میں مزدور بے روزگار ہوتے جارہے ہیں۔
زراعت میں اجارہ داری اور جاگیرداری کی وجہ سے کسانوں سے کام زیادہ لیا جا رہا ہے۔ جاگیردار توکروڑوں کماتا ہے جب کہ کسانوں کو روزکی دیہاڑی چار یا پانچ سو سے زیادہ نہیں ملتی۔ جنگلات تباہی کے دھانے پرکھڑے ہیں۔ یو این او کا کہنا ہے کہ کسی بھی ملک کے کل رقبے کا 25 فیصد جنگلات ہونے چاہئیں جب کہ پاکستان میں صرف 2.5فیصد جنگلات ہیں۔
مستقل بنیادوں پر جنگلات کی آبیاری نہ ہونے کی وجہ سے جنگلات میں کام کرنے والے مزدوروں کی نفری کم ہوکر بے روزگاری کا شکار ہوتی جا رہی ہے۔ غیر ملکی لمبے ٹرالروں سے ڈیپ سی فشنگ کی جہ سے چھوٹے مقامی فشرمین اور چھوٹی کشتیوں سے ماہی گیری کرنے والے بے روزگاری کا شکار ہو رہے ہیں، اس لیے کہ ان کے لیے پورٹ کے اندر شکارکرنے کی ممانعت ہے۔
یہی حال معدنیات کے شعبے کا ہے۔ ہم اپنی معدنیات کو مصنوعات میں تبدیل کرنے کے بجائے خام مال کے طور پر برآمد کر دیتے ہیں، جس کی جہ سے ملٹی نیشنل کمپنیوں کی چاندی ہو رہی ہے تو دوسری طرف بڑے پیمانے پرکانکنی کرنے والے مزدور تباہ حال ہونے کے ساتھ ساتھ ان معدنیات کو مصنوعات میں بدلنے میٹولوجیکل اورکیمیکل کی فیکٹریاں نہیں ہیں، جس سے اس شعبے میں مزدوروں کو ملازمت ملنے کے بجائے بے روزگاری کا سامنا ہے۔
جہاں تک صنعت کا تعلق ہے تو عمران خان کی حکومت کے ان دو سالوں میں لاکھوں صنعتی مزدور بے روزگار ہوئے ہیں اور مسلسل ہو رہے ہیں۔ خاص کر گارمنٹس کے مزدور بے روزگاری اور فاقہ کشی کا شکار ہو رہے ہیں۔ امراء کے تحفظ کے لیے حکومت کی جانب سے بیل آؤٹ پیکیج کا اعلان کیا گیا ہے جب کہ عوامی اداروں کے محنت کشوں پر آئی ایم ایف کی پالیسیوں کی تلوار چلائی جا رہی ہے، رائٹ سائزنگ اور ڈاؤن سائزنگ کے نام پر تمام وفاقی اور صوبائی اداروں کی نام نہاد تنظیم نوکی جارہی ہے۔ اس کے خلاف ملازمین احتجاج کر رہے ہیں۔
13جون کو ریل مزدور اتحاد کی قیادت نے حکومت کے اقدامات کے خلاف ردعمل کا اظہارکیا اور مزدوروں کے احتجاجی مظاہروں کا آغاز ہوا۔ ایپکا نے بھی احتجاج کیا۔ اسی دوران سول ایوی ایشن اتھارٹی کی ممکنہ تقسیم کے خلاف ملازمین اور آفیسرز نے کراچی میں مظاہرہ کیا۔ 22جولائی 2020 میں 47کے قریب ایسوسی ایشنوں اور ٹریڈ یونینوں کا مشاورتی اجلاس ہوا۔ جس میں 20نکاتی ایک قرارداد پیش کی گئی جسے سب نے اتفاق رائے سے منظورکرلیا۔ اس اتحاد کا نام " آل پاکستان ایمپلائز لیبر تحریک " رکھا گیا۔
اس اتحاد کے احتجاجی اعلان نے اثر دکھایا۔ وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید نے ریل مزدور اتحاد کی قیادت سے مذاکرات کیے اور تین مطالبات میں سے دو مطالبات فوری طور پر تسلیم کرتے ہوئے نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا۔ وزیر ریلوے کی یقین دہانی پر ریل مزدور اتحاد نے پہیہ جام ہڑتال کی کال موخرکردی ہے۔ ایمپلائز لیبر تحریک کا پہلا اجلاس ہوا تو اس میں حاجی اسلم خان کو چیئر مین منتخب کرلیا گیا۔ دیگر لیبر یونینز نے بھی ان کی حمایت کی ہے۔ اسٹیل ملز میں متحرک یونینز پر مشتمل ایمپلائیز جوائنٹ ایکشن کمیٹی کا قیام عمل میں آچکا ہے۔
ایپکا پاکستان کے تینوں دھڑوں کے اتحاد کی کوششیں بھی شروع ہو چکی ہیں۔ ادھر بلوچستان کے مزدوروں کے حالات کچھ زیادہ ہی دگرگوں ہیں۔ نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن کے صدر رفیق بلوچ کی قیادت میں ایک وفد نے بلوچستان کے متعلقہ حکام سے ملے اور صوبے میں صنعتی مزدوروں سے متعلق قوانین پر بات کی۔
وفد نے مطالبہ کیا کہ مزدوروں سے متعلق قوانین سازی مکمل کرکے بلوچستان اسمبلی کو منظوری کے لیے بھیج دی جائے۔ ان قوانین میں بلوچستان فیکٹری ایکٹ، بلوچستان انڈسٹریل ریلیشن ایکٹ، بلوچستان سوشل سیکیورٹی ایکٹ، چائیلڈ لیبر اور کم سے کم اجرت ایکٹ، بلوچستان ورکر زکامپٹیشن ایکٹ اور دیگر قوانین شامل ہیں۔
بلوچستان اسمبلی سے ان قوانین کی منظوری کے بعد عالمی معیار کے محنت کے تقاضوں کے مطابق نافذ کیا جائے تاکہ بلوچستان کے محنت کش طبقوں میں پائی جانے والی بے چینی کا خاتمہ ہو۔ نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن نے لیبر ڈپارٹمنٹ بلوچستان کو مزدوروں کے اہم مسائل سے متعلق ایک یادداشت پیش کی جس میں مطالبہ کیا گیاکہ پچھلے دو سالوں 2017-2018کے دوران صنعتی ورکرز سے متعلق معاوضہ مرگ کی رقم جو تقریباً پانچ لاکھ روپے بنتی ہے اور جہیز فنڈ کی رقم جو تقریباً ایک لاکھ روپے بنتی ہے اور اس کے علاوہ اسکالر شپ کی رقم کی ادئیگی کو یقینی بنایا جائے۔ پاکستان میں سب سے زیادہ استحصال زدہ کانکنی کرنے والے مزدور ہیں جو تمام تر حقوق سے محرم ہیں۔ ابھی حال ہی میں کے پی کے میں ضلع مہمند کی کان بیٹھ جانے سے 25 مزدور شہید ہوگئے۔
اس سے قبل فروری 2020میں ہی ضلع بونیر میں ماربل کے 10محنت کش شہید ہوئے۔ جب کہ اس سے پہلے 1918میں کوئٹہ کے قریب کوئلے کی کان میں کام کرنے والے 30مزدور شہید ہوگئے تھے۔ ان مزدوروں کی حفاظت کے لیے جدید انتظامات کو چھوڑیں، کوئی خاطر خواہ انتظام بھی نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ناگہانی حادثات کا زیادہ شکار ہو رہے ہیں، ریاست کو اس صورتحال کا نوٹس لینا چاہیے۔