دو ہزار انیس کے اکتوبر سے درجن بھر ملکوں بلکہ دو ہزار اٹھارہ سے فرانس کی پیلی جیکٹ تحریک نے عالمی سرمایہ داری کی چولیں ہلا دی ہیں۔ پیلی جیکٹ تحریک نے کوئی درجن بھر مطالبات منوائے۔ اس تحریک کی خصوصیت یہ تھی کہ اس سب کے پیچھے کوئی پارٹی تھی اور نہ کوئی لیڈر۔
کارنامہ یہ تھا کہ سعودی عرب کا پانی کا جہاز اسلحہ لیے بغیر خالی واپس گیا جس کی تصدیق فرانس کی کمیونسٹ پارٹی کے ایک منتخب پارلیمنٹیرین نے کی۔ ادھر سوڈان، الجزائر، مالی اور مصر میں عوامی تحریکوں کے بعد اکتوبر دو ہزار انیس میں امریکا، ایکواڈور، چلی، لبنان، عراق، کولمبیا، ایران اور ہانگ کانگ میں اب بھی تحریک جاری ہے۔
امریکا میں جنرل موٹرز کے پچاس ہزار مزدوروں نے چھ ہفتے ہڑتال کر کے تنخواہوں میں اضافے سمیت بیشتر مطالبات منوائے۔ ایکواڈور کے عوام کے سیلاب نے حکومت کو چار اعشاریہ دو بلین ڈالر کا آئی ایم ایف کے معاہدے کو منسوخ کروایا۔ چلی کے دارالحکومت سنتیاگو میں دس لاکھ کا جلوس اور میٹرو بس کے اضافی کرایہ کو واپس لینے پر حکومت کو مجبور کیا اور اب وہ صدر کے استعفے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ لبنان کے سعد حریری کے مستعفیٰ ہونے کے باوجود وہاں کے عوام اپنے مطالبات کے لیے لڑ رہے ہیں۔
عراق میں لاکھوں عوام مہنگائی، کرپشن اور بے روزگاری کے خلاف اور عراق میں ایرانی مداخلت کے خلاف وزرا کے گھروں پہ حملے اور ایرانی سفارت خانے پر حملے اور ایرانی پرچم کو نذر آتش کیا جب کہ ہانگ کانگ میں سرکاری اداروں، ریلوے اسٹیشنوں اور املاک کو نقصان پہنچایا۔ ایران میں پٹرول کی قیمت فی لیٹر دس ہزار ریال سے بڑھا کر پندرہ ہزار ریال کرنے پر عوام سڑکوں پہ امڈ آئے۔ کولمبیا میں بھی عوام نے اپنے مسائل اور مطالبات کے لیے سڑکوں پر مارچ کیا۔ اب تک متعدد مظاہرین ہلاک ہوئے، زخمی ہوئے اور گرفتاریاں ہوئیں۔ عالمی سرمایہ داری چونکہ اب عوام کو کچھ دے نہیں پا رہی ہے تو عوام مہنگائی، بیروزگاری اور غربت سے تنگ آ کر سڑکوں کا رخ کیا ہے۔
جو ممالک عالمی سرمایہ داری کی سامراجی رہنمائی کر رہے ہیں، خاص کر امریکا، جرمنی، چین اور جاپان کی بھی معاشی، سماجی اور سیاسی حالت دگرگوں ہو گئی ہے۔ امریکا میں بے روزگاری نو فیصد اور جی ڈی پی کی شرح نمو تین فیصد، جرمنی میں بے روزگاری ساٹھ لاکھ اور شرح نمو دو اعشاریہ پانچ فیصد، چین میں بے روزگاری بیس کروڑ اور شرح نمو گیارہ فیصد سے گھٹ کر چھ فیصد پر آ گئی ہے جب کہ جاپان میں بے روزگاری پانچ فیصد اور شرح نمو منفی ہو گئی ہے۔ دنیا کی ساڑھے سات ارب کی آبادی میں پانچ ارب غربت کی لکیر کے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے اور ڈیڑھ ارب بے روزگار۔
اس صورتحال میں پاکستان عالمی سرمایہ داری کی آخری لکیر کے پاس کھڑا ہے۔ بے روزگاری، غربت، بھوک، افلاس، جہالت، جرائم، ماحولیات، بیماریاں، ملاوٹ اور مہنگائی دنیا کے چار ملکوں میں سے ایک پاکستان ہے۔ خراب ماحولیات میں کراچی دنیا کا اول نمبر شہر ہے۔ ملاوٹ میں نائیجیریا، پاکستان اور ہندوستان سر فہرست ہیں۔ لاکھوں خواتین زچگی اور بریسٹ کینسر میں ہر سال مر جاتی ہیں، قتل و غارت گری میں عراق، شام اور افغانستان کے بعد پاکستان کا نمبر آتا ہے، مہنگائی، بے روزگاری اور جہالت میں ایران، نیپال، بنگلہ دیش، ہندوستان اور سری لنکا سے آگے ہے۔
اس بدترین صورتحال سے نکلنے کی بجائے اسلحہ اور غیر پیداواری اخراجات میں ہم ٹاپ ٹین میں سے ایک ہیں۔ اس کا عکس سیاسی جماعتوں، معاشی حالات اور سماجی ڈھانچے پر پڑنا ناگزیر ہے۔ ہماری بورژوا (سرمایہ دار) جماعتیں میڈیا میں ایک دوسرے پر الزامات اور لن ترانی کے سوا کچھ نہیں کرتیں۔ عمران خان پاکستان کے سارے حقائق تو بیان کر جاتے ہیں لیکن آٹے کی قیمت میں ایک روپے کی بھی کمی کی بات نہیں کرتے ہیں۔
مولانا فضل الرحمن آزادی مارچ اور استعفیٰ اور کی بات تو کرتے ہیں لیکن اشیا خور و نوش کی قیمتوں میں کمی پر روڈ بلاک کرتے اور نہ ہڑتال کرتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ زرداری، نواز شریف اور شہباز شریف عوام کا خون نچوڑ کر ہی ارب پتی بنے ہیں مگر شاہ محمد قریشی، جہانگیر ترین اور ہمایوں اختر بھی عوام کا خون نچوڑ کر ہی ارب پتی بنے ہیں۔ موجودہ حکومت میں شریک بیشتر حکمران سابقہ بورژوا پارٹیوں، آئی ایم ایف کے ملازمین اور سرمایہ دار و جاگیردار ہیں۔ پھر عمران خان کس قسم کی تبدیلی چاہتے ہیں؟
عوام مہنگائی کے سیلاب میں ڈوب رہے ہیں، وہ نیم فاقہ کشی کی ذلت آمیز زندگی گزار رہے ہیں جب کہ غریب عوام کی بات کرنے والے وزیر اعظم عمران خان بنی گالا کے محل سے نکلنے کو تیار نہیں۔ ماؤزے تنگ، کاسترو، چی گویرا اور ہوچی منہ ایک عام مزدوروں کے جیسے مکانوں میں رہتے تھے اور مزدوروں کی طرح کام بھی کرتے تھے۔ ماؤزے تنگ اور ان کی اہلیہ دھان کے کھیتوں میں کام کرتے تھے۔ اب عوام کو ان چیزوں کو بتانے کی ضرورت نہیں۔ حکمران طبقات خود اپنے آپ کو بے نقاب کر رہے ہیں۔ عمران خان پی پی پی، ایم ایل این اور جے یو آئی کو جب کہ حزب اختلاف کی جماعتیں پی ٹی آئی کو بے نقاب کر رہی ہیں۔
اب کہاں سے کس وقت لاوا پھوٹے گا کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ یہ فطری قانون ہے کہ "تنگ آمد، بہ جنگ آمد"۔ حکمران طبقات نان ایشوز پر ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالتے ہیں اور پھر کٹھ پتلیوں کا کوئی خفیہ ہاتھ ڈور ہلاتا ہے تو یہ پھر رک جاتی ہیں۔ مگر انھیں یہ نہیں معلوم کہ جب عوام کا حقیقی لاوا پھوٹ نکلتا ہے تو اسے کوئی روک نہیں پاتا۔ ایوبی فوجی آمریت کو اس لاوے نے بہا دیا تھا، اسی لاوے نے ہلاکو، ہٹلر اور سلطان التمش کو بھی مار بھگایا تھا۔ دنیا میں آج تک ایسا نہیں ہوا کہ ظلم وستم کے خلاف کہیں سے عوام طوفان بن کر نہ نکلے ہوں۔ اسی عوام نے غلامی اور جاگیرداری کا خاتمہ کیا اور اب سرمایہ داری کا خاتمہ کر کے امداد باہمی کا آزاد سماج یا اشتمالی سماج قائم کریں گے۔ شاید اس کی ابتدا اب ہو رہی ہے۔
تیئس نومبر کو لی مارکیٹ، لیاری، کراچی میں "لیاری عوامی محاذ" نے مہنگائی اور بے روزگاری کے خلاف ایک پرعزم اور ولولہ انگیز مظاہرہ کیا۔ اس مظاہرے کی خصوصیت یہ تھی کہ اس مظاہرے کی قیادت کوئی سیاسی جماعت کر رہی تھی اور نہ کسی جماعت کا لیڈر تھا۔ ہاں مگر مختلف سیاسی جماعتوں کے کارکنوں نے ضرور شرکت کی۔ اس مظاہرے میں پیش پیش نظر آنے والوں میں خالق زدران، واحد بلوچ اور دیگر کارکنان تھے۔ مظاہرین فلک شگاف نعرے لگا رہے تھے کہ "مہنگائی کم کرو ورنہ کرسی چھوڑ دو، روزگار دو یا بے روزگاری الاؤنس دو، آئی ایم ایف کا معاہدہ منسوخ کرو، امریکی سامراج مردہ باد" وغیرہ وغیرہ۔ مظاہرین میں عام شہری اور پیداواری قوتوں کے کارکنان اور بے روزگاروں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔