کوئی 35 برس قبل پرویز ملک سے میری ملاقات اورنگی ٹاؤن، کراچی میں ہوئی۔ کل جنت حسین نے بتایا کہ انھیں برین ہیمبرج ہوگیا ہے اور ان کے ناک میں نلکی لگی ہوئی ہے، مجھے فوراً 35 برس پہلے ان سے ملاقات کی یاد آگئی۔ ہمارے اورنگی ٹاؤن کے ہی ایک ساتھی مجھے ان کے پاس لے کر گئے، مجھے دیکھ کر اٹھ بیٹھے۔ پھر علیک سلیک ہوئی۔
پتا چلا کہ وہ اسٹودنٹس لائف میں این ایس ایف (چین نواز) گروپ میں بہت سرگرم تھے اور اچھے مقرر بھی۔ مجھے انتہائی خوشی ہوئی اور میں تقریباً ہر ہفتہ ملاقات کرتا رہا۔ میں نے سب سے پہلے انھیں بلھے شاہ کی ایک کتاب دی۔
وہ بہت خوش ہوئے اور دوسروں سے کہنے لگے کہ دیکھو یہ اردو بولنے والا جسے پنجابی آتی بھی نہیں، مجھے بلھے شاہ کی کتاب دی۔ پھر میں نے ان سے ایک روز کہا کہ یہاں ہمارے ایک ساتھی تجمل حسین رہتے ہیں، وہ کمیونسٹ پارٹی کے جھنڈے کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ بہت ہی مخلص ہیں، آپ کو ان کے گھر پر رہنے کا انتظام کردیتے ہیں، جس پر وہ خاموش رہے اور کہنے لگے کہ زبیر بھائی یہی ٹھیک ہے۔ بہرحال بعدازاں وہ تجمل حسین کے گھر منتقل ہوگئے۔ ان کے گھر والے ان سے مل کر بہت خوش ہوئے۔ ہاتھوں ہاتھ ان کا کھانا، رہائش اور ان کے کپڑے دھو کر بھی دیتے تھے۔
پرویز ملک کا تعلق اٹک سے ہے، ان کے بڑے بھائی کراچی میں ٹھیکیداری کرتے تھے۔ ان کے بھائی نے انھیں اپنے ساتھ کام پر لگایا مگر انھیں یہ کام نہ بھایا۔ پھر وہ سیاسی سرگرمی میں لگے رہے۔ اسی دوران انھوں نے این ایس ایف کی ایک لڑکی غزالہ سے شادی کرلی۔ ان کی بیوی کا اونچے طبقے سے تعلق تھا۔ ایک بچی پیدا ہوگئی۔ پرویز ملک اور بیوی غزالہ کی ان بن ہوگئی اور وہ دونوں الگ الگ رہنے لگے۔
غزالہ نے بچی کی پرورش کے لیے روزنامہ حریت کراچی میں ملازمت کرلی بعدازاں وہ اسٹیل مل میں آفیسر کے عہدے پر ملازم ہوگئیں۔ ادھر پرویز ملک کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان میں شامل ہوگئے اور انتہائی جوش و جذبے سے کام کرنے لگے۔ اس وقت راقم کراچی کمیٹی کا سیکریٹری تھا اور پرویز ملک ڈسٹرکٹ ویسٹ کی کمیٹی کے سیکریٹری تھے۔
ایک بار کا واقعہ ہے کہ انھوں نے اکیلے شیر شاہ سے لے کر لالو کھیت تک چاکنگ کر ڈالی۔ تقریر بھی دھڑلے سے کرتے تھے۔ راقم الحروف اور پرویز ملک کئی سال ایک ساتھ مل کر سیاسی سرگرمیاں کرتے رہے۔ ڈسٹرکٹ ویسٹ میں راقم اور پرویز ملک نے ڈسٹرکٹ ویسٹ کے سیل میں چھپر میں مطالعہ (اسٹڈی) کرتے تھے۔ کراچی میں وہ میرے سب سے اچھے کامریڈوں میں سے تھے۔ حدیث کریمی جو اسٹیل مل میں ملازمت کرتے تھے صبح سویرے اچانک ان کا فون آیا کہ لانڈھی مرغی خانہ کے پاس پل پر سے اسٹیل مل کی گاڑی ندی میں گر گئی اور غزالہ یعنی پرویز ملک ملک کی اہلیہ کا انتقال ہوگیا۔
یہ عجیب بات ہے کہ بس میں سارے لوگ جاگ رہے تھے اور غزالہ سو رہی تھیں۔ جب بس نیچے گری تو سب بچ گئے، لیکن غزالہ جانبر نہ ہوسکیں۔ اب حدیث کریمی کی ہمت نہیں ہو رہی تھی کہ پرویز ملک کو یہ خبر دیں۔ اس لیے انھوں نے میرا سہارا لیا۔ پھر راقم نے پرویز ملک کو فون کیا۔ انھوں نے یہ خبر سنتے ہی لمبی سانس لی اور ہائے کہہ کر خاموش ہوگئے۔
مجھے خوف آیا مگر بعد میں پتا چلا کہ خیریت سے ہیں۔ اب جب بھی پرویز ملک اپنی بیٹی سے ملنے جاتے تو برنس روڈ کراچی سے سب سے عمدہ پھل لے کر جاتے۔ ان کی بیٹی نانا، نانی کے پاس ہوا کرتی تھی۔ پڑھائی میں بہت ذہین تھی۔ اب تو شادی کے بعد ماں بن گئی اور پرویز ملک نانا۔ اب جب وہ کہیں اجتماع میں آتے تو ہم انھیں مذاق میں کہتے کہ لو بھئی نانا آگئے۔ پرویز جواب میں کچھ نہ کہتے، صرف اتنا کہتے، بولو بھئی بولو! کمیونسٹ پارٹی سے راقم کو دوبارہ نکالا گیا اور چارج شیٹ بھی دی گئی۔
ہر بار پرویز ملک میری سچائی کی حمایت کرتے تھے۔ پھر بعد میں پارٹی راقم کو واپس لے لیتی تھی۔ ایک دفعہ راولپنڈی پریس کلب میں مزدوروں کا جلسہ تھا جس میں، میں نہیں تھا۔ تارا گئی تھیں۔ پرویز ملک نے ان سے میرے بارے میں پوچھا تو تارا نے انھیں میرا وزٹنگ کارڈ دیا تو انھوں نے ہنستے ہوئے کہا تھا کہ اب زبیر رحمن کارڈ بھی رکھنے لگے۔ پھر جب راقم نے انارکسزم کا مطالعہ شروع کردیا اور اپنے آپ کو انارکسٹ کے طور پر متعارف کرانے لگا اس وقت بھی پرویز ملک سے بہتر تعلقات اور روابط برقرار تھے۔ وہ جہاں بھی رہے خواہ کمیونسٹ پارٹی یا طبقاتی جدوجہد میں خلوص دل اور لگن سے کام کرتے رہے۔
ان کی سرگرمیاں ہم سب کے لیے مشعل راہ ہیں۔ سی پی ضلع غربی کے سیل میں پرویز ملک، الیاس راؤ اور خورشید ڈومکی ہوا کرتے تھے۔ الیاس راؤ اور خورشید ڈومکی انتہائی جرأت مند اور پرخلوص تھے جو اب جسمانی طور پر ہم سے جدا ہوگئے صرف پرویز ملک رہ گئے۔ پرویز ساری زندگی محنت کش عوام اور عالمی انقلاب کے لیے جدوجہد کرتے آ رہے ہیں۔ سیاست میں ان کا ہدف یا منزل مقصود کمیونسٹ سماج رہا ہے۔ وہ اکثر یہ کہا کرتے تھے یہ ساری جدوجہد تو گزر گاہیں ہیں۔ منزل تو کمیونسٹ سماج ہے
وہ اینگلز کی "خاندان" ذاتی ملکیت اور ریاست کا آغاز کتاب کا اکثر حوالہ دیا کرتے تھے۔ میرے خیال میں پیرس کمیون سے آج تک اور مستقبل کے کمیونسٹ سماج کی تعمیر، تمام انقلابیوں کا اولین فریضہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پرویز ملک دنیا کو ایک خاندان سمجھتے ہیں۔
کراچی کے محنت کش عوام پرویز ملک کی سیاسی اور سماجی جدوجہد کو کبھی بھی فراموش نہیں کرسکتے۔ خاص کرکے شیر شاہ اورنگی ٹاؤن اور فرنٹیئر کالونی کے محنت کش اب بھی انھیں بڑے احترام سے یاد کرتے ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ وہ دن جلد آنے والا ہے جب دنیا ایک ہوجائے گی اور امداد باہمی کا آزاد سماج قائم ہوگا۔ تب پرویز ملک کا دیرینہ خواب پورا ہوگا۔ جب یہ سطور لکھ رہا تھا کہ جنت حسین کا فون آیا کہ پرویز ملک جسمانی طور پر ہم میں نہیں رہے، مگر ان کا نظریہ اور افکار ہمارے لیے مشعل راہ رہے گا۔