پاکستان ان چند ملکوں میں سے ہے جہاں انتہا درجے کا استحصال اور ناانصافی مسلسل رونما ہوتی آ رہی ہے۔ ایسے ویڈیوز، ثبوت، گواہان میڈیا کے پاس آن پہنچے ہیں اور بہت سے مقدمات میں عدالتیں سزائیں بھی دے چکی ہیں۔
اس کے باوجود متاثرہ خاندان کے سرپرستوں پر دباؤ، لالچ اور دھمکانے کی وجہ سے اکثر مقدمات میں لٹیرے قاتل، ریپسٹ اور بدقماش سزا سے بچ جاتے ہیں یا پھر سزا کے بعد بھی رہائی مل جاتی ہے یا خون بہا دے کر بچ جاتے ہیں یا پھر والدین قاتل کو لے دے کر معاف کردیتے ہیں۔
اس سال 369 مقدمات درج ہوئے جن میں 12 مقدمات آگے بڑھے اور صرف ساہیوال موٹرویز مقدمے میں ریپسٹ کو سزا ہوئی۔ ڈاکٹر ماہا، مشعل خان، نور مقدم، عائشہ ملک، نقیب اللہ محسود، شاہ زیب، کفایت علی، عائشہ اکرم، بلدیہ ٹاؤن کے 268 اور مہران ٹاؤن کے 17 مزدوروں کے قاتل آزاد دندناتے پھر رہے ہیں، بلدیہ اور مہران ٹاؤن فیکٹریوں کے مالکان اور دیگر کو سزائیں ہوں گی یا نہیں اس کا کوئی یقین نہیں۔ افغانستان کی عبوری حکومت میں کسی بھی خاتون کو مقرر نہ کرنے پر جب دنیا بھر سے تنقید ہوئی تو ملاؤں کی حکومت نے یہ اعلان کیا کہ آیندہ خواتین کو انتظامیہ میں نمایندگی دی جائے گی۔
افغان حکومت نے خواتین کرکٹ ٹیم کو آئی سی سی میں کھیلنے سے روک دیا ہے۔ جس پر آئی سی سی نے کہا ہے کہ اگر افغان حکومت افغان خواتین ٹیم کو آئی سی سی میں کھیلنے کی اجازت نہیں دیتی تو آئی سی سی بھی افغانستان میں کرکٹ کھیلنے نہیں جائے گی اور نہ افغانستان کی میزبانی قبول کرے گی۔
مینار پاکستان کی مظلوم خاتون عائشہ اکرم پر 400 درندے نما انسانوں نے حملہ کیا مگر ابھی تک کسی کو قابل ذکر سزا نہیں ہوئی۔ نورمقدم کا مقدمہ سب کے سامنے ہے، ڈاکٹر ماہا کے قاتل کی ابھی تک نشاندہی بھی نہیں ہوئی۔ رکشہ میں سوار ماں بیٹی کے ساتھ زیادتی کرنے والوں کو کوئی سخت سزا نہیں ہوئی۔
9 ستمبر بروز جمعرات وہاڑی میں درندہ صفت نے اپنی بیوی اور تین بچوں کو کلہاڑی سے قتل کردیا، دو بیٹیاں 3 اور 6سال کی جب کہ ایک سال کا بیٹا تھا، انھیں سوتے ہوئے قتل کیا۔ ملزم تیسری شادی کرنے پر بضد تھا جب کہ اس کی بیوی ایسا نہیں چاہتی تھی۔ ملزم نے ماں، بہن اور بہنوئی کی معاونت سے قتل کیا۔ اسی روز ہائی کورٹ نے دو بھائیوں دانش رشید اور جنید رشید سمیت اور دیگر لاپتہ افراد کی بازیابی سے متعلق درخواست پر متعلقہ حکام کو کارکردگی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کردی۔
لاپتہ دانش رشید اور جنید رشید کی والدہ نے عدالت کو بتایا کہ اس کے بیٹے دانش رشید اور جنید رشید ستمبر 2017 سے لاپتہ ہیں اور گزشتہ سماعت پر تفتیشی افسر نے بتایا تھا کہ سراغ لگالیا اور معاملہ حل ہونے کے قریب ہے۔ جسٹس صلاح الدین پنہور نے استفسار کیا کہ تفتیشی افسر کہاں ہیں؟ اب تک گم شدہ شہریوں کی بازیابی کے لیے کیا کیا؟ جس پر سرکاری وکیل نے موقف دیا کہ تفتیشی افسر اسی کیس کے سلسلے میں چمن بارڈر گیا ہوا ہے۔
حال ہی میں مظفر گڑھ کے علاقے کندائی میں پنچایت نے غریب مزدور کو کالا قرار دے کر چاقو سے اس کی ناک اور کان کاٹ دیے۔ انتہائی تشویش ناک حالت میں انھیں اسپتال منتقل کیا گیا۔ دو ملزمان کو کچے کے علاقے میں گرفتار بھی کرلیا گیا۔ اب دیکھیے اس کے ساتھ کیا انصاف ہوتا ہے۔ جب نقیب اللہ محسود اور مشعال خان کے ساتھ انصاف نہیں ہوا تو اس کے ساتھ بھی انصاف کی توقع نہیں کی جاسکتی ہے۔ چند دن قبل گجرات کے نواحی گاؤں بوکن موڑ میں شوہر نے اپنی بیوی پر پٹرول چھڑک کر آگ لگا دی۔ بیوی کی حالت تشویش ناک ہے۔
کراچی میں ملیر تھانے کی حدود گلشن آمنہ میں جواری شوہر نے رقم کا تقاضا کرنے والی بیوی کو قتل کردیا۔ خواتین کو حوا کی بیٹی کہنے والے مذہبی جماعتوں کے رہنما ان گھناؤنے اور درد ناک واقعات پر کوئی مظاہرہ، کوئی جلوس یا کوئی قابل ذکر احتجاج نہیں کرتے اور نہ ان کی خواتین نے کیا۔ ہاں ترقی پسند خواتین نے ایک آدھ بار مظاہرہ کرکے اپنا احتجاج ریکارڈ کروا لیا ہے۔