کامریڈ نذیر عباسی شہید نے موئن جو داڑو میں قائم کمیون یا امداد باہمی جیسے آزاد معاشرے کے قیام کا بیڑہ اٹھایا تھا۔ موہن جو دڑو کی 40 ہزار کی آبادی کے لیے ساڑھے سات سو شفاف پانی کے کنویں تھے۔ 1920میں موئن جو داڑو کی کھدائی کے بعد جان مارشل نے جو کتاب لکھی اس میں انھوں نے واضع کیا کہ یہاں پر نہ کوئی اسلحہ، محل، مندر اور نہ ہی مقبرے ملے ہیں۔
دو ہزار سال تک نہ تو ان پر کسی نے حملہ کیا اور نہ ہی یہ کسی پر حملہ آور ہوئے۔ ایسے ہی برابری، خود انحصاری اور آزاد سماج کے شہید نذیر عباسی بھی خواہاں تھے۔ وہ ٹنڈواللہیار کے ایک کسان گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد مرحوم اسکول ٹیچر تھے۔ شہید نذیر عباسی اپنی پڑھائی کے اخراجات پورے کرنے کے لیے چھٹی کے بعد چنے بیچتے تھے۔ اس طرح وہ نہ صرف پڑھائی کا خرچہ نکالتے تھے بلکہ کچھ رقم بچاکر گھر والوں کی بھی مدد کرتے تھے۔ وہ منشی کی نوکری بھی کرتے تھے اور سندھ یونیورسٹی جامشورو میں ایم اے سیاسیات کے آخری سال کے طالبعلم بھی تھے۔ ان کا سندھ نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن سے تعلق تھا اور وہ اس کے صوبائی جنرل سیکریٹری بھی تھے۔
میرے ان سے قریبی تعلقات اس وجہ سے بھی تھے کہ جب وہ کمیونسٹ پارٹی سندھ کے سیکریٹری تھے تو اس وقت میں (راقم) کراچی کا سیکریٹری تھا۔ کامریڈ نذیر عباسی سے قبل 1960میں حسن ناصر اور 1983 میں کامریڈ ڈاکٹر تاج کو بھی بے دردی سے شہید کیا گیا تھا۔ یہ دونوں ادوار ایوبی اور ضیائی مارشل لا کے تھے۔ نذیر عباسی جب 1980میں گرفتار ہوئے، بعدازاں رہائی ہوگئی۔
ان کی شہادت سے چند ماہ قبل کراچی میں ناظم آباد گول مارکیٹ میں ایک اجلاس ہوا تھا جس میں جمال نقوی، جاوید شکور، عزیزالرحمٰن، ڈاکٹر جبار خٹک اور راقم شریک تھے۔ اس کے چند ماہ بعد وہ گرفتار کرلیے گئے اور پھر ان کی شہادت کی خبر ملی۔ 9 اگست 1980کو صبح 9بجے کامریڈ نذیر عباسی کے مقدمے کی تاریخ تھی راقم نے جب پہلی منزل سے دوسری منزل پر قدم رکھا تو بیرسٹر ودود نے " اسٹار، ، اخبار پیش کرتے ہوئے کہا کہ "نذیر، ، کو ماردیا گیا۔ اسی روز ڈاؤ میڈیکل کالج کراچی میں ایس این ایف نے ایک زبردست احتجاجی جلسہ کیا اور مزدور، طلبہ، کسان کراچی رابطہ کمیٹی کی جانب سے ریگل صدر کراچی میں احتجاجی مظاہرہ ہوا۔ چند روز بعد نشتر پارک میں نماز عید کے بعد جلوس نکلا۔ پھر عدالت میں مقدمہ چلتا رہااور آخر کار عدالت نے یہ فیصلہ سنایا کہ حرکت قلب بند ہونے سے نذیر عباسی کی موت واقع ہوئی۔
آج نیویارک سے ہانگ کانگ تک اور پیرس سے نیپال تک پوری دنیا میں محنت کش پیداواری قوتیں اور شہری اپنے حقوق کے لیے بر سر پیکار ہیں۔ آج کولمبس سمیت غلامی کے حامی تمام شخصیات کے مجسمے امریکا اور یورپ میں گرائے جا رہے ہیں۔ فرانس میں گزشتہ ڈیڑہ سال سے اپنے حقوق کے لیے "پیلی جیکٹ" تحریک چل رہی ہے۔ انھوں نے اپنے بہت سارے مطالبات بھی منوا لیے ہیں۔ امریکا میں سیاہ فام تحریک نے بھی اپنے مطالبات منوا لیے ہیں۔ چین کو ہانگ کانگ منعقد ہونے والے انتخابات کو عوامی تحریک کے خوف سے ملتوی کرنا پڑا۔ جنوبی امریکا عوامی تحریک کی لپیٹ میں ہے۔
مشرق وسطیٰ میں گاہے بگاہے عوامی بغاوتیں سر اٹھا رہی ہیں۔ پاکستان میں حزب اقتدار ہو یا حزب اختلاف شدید دھڑے بندی اور خلفشار کا شکار ہیں۔ پاکستان میں مہنگائی، بھوک، افلاس اور بے روزگاری کی وجہ سے غریب عوام تڑپ رہے ہیں۔ جب کہ اپوزیشن ہڑتالوں اور احتجاج کے بجائے ٹیلیویژن کے ٹاک شوز پر گزارہ کر رہی ہے۔ ہاں مگر مزدور، کسان، طلباء اور نوجوان احتجاج کر رہے ہیں۔ لیکن ابھی یہ اتنے منظم نہیں ہیں، ان میں جرات بھی نہیں ہے۔ مگر پھر بھی ان کا ردعمل سامنے آرہا ہے۔ کل یہ چنگاری شعلہ بھی بن سکتی ہے۔
یہاں طلبہ یونینز کی بحالی کے لیے ملک بھر میں درجنوں شہروں میں طلبہ ایکشن کمیٹی کی جانب سے احتجاجی مظاہرے ہوئے، حکومت سندھ نے تو سندھ اسمبلی میں طلباء یونینز کی بحالی کے لیے بل پاس کیا۔ دوسرے صوبوں نے بھی طلباء یونینز کی بحالی کا دعویٰ کیا۔ مگر تاحال کوئی عملی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ طلباء یونینز پر پابندی کے خلاف نذیر عباسی نے بڑی جرات مندانہ آواز بلند کی تھی۔ ویسے ہماری قربت کی بنیاد پر بارہا ان کی تقاریر اور تجزیے سننے کا موقع ملا مگر "بے روزگاری مٹاؤ تحریک، ، کی جانب سے بسنت ہال حیدرآباد میں ان کی تقریر بے مثال اور تاریخی تقریر تھی جس میں انقلابی شاعر حبیب جالب نے بھی شرکت کی تھی۔
نذیر عباسی کا وہ جملہ آج بھی مجھے یاد ہے جس میں انھوں نے کہا تھا کہ اسمبلی ممبران کے بچے بے روزگار کیوں نہیں ہوتے، صرف ہم محنت کش ہی بے روزگار کیوں ہوتے ہیں؟ اب تو حالات ہی بدل چکے ہیں۔ رہنماؤں اور پارٹیوں سے عوام تنگ اور عاجز آچکے ہیں، اس لیے مشرق وسطیٰ ہو مشرق بعید ہو، جنوبی امریکا ہو، یورپ اور افریقہ یا برصغیر، عوام اپنے مطالبات منوانے کے لیے پارٹیوں اور لیڈروں کا سہارا لیے بغیر اور ان کا انتظار کیے بغیر میدان عمل میں عالمی نوعیت کی تحریک چلا رہے ہیں۔
بلوچوں کے بارے میں اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ ان کی محرومیوں کو ختم کرنے کی ضرورت ہے مگر حقیقت میں مسئلہ محرومیوں کا نہیں ہے مسئلہ ہے شدید استحصال کا۔ اور یہ استحصال معاشی ہے، سیاسی اور سماجی ہے۔ بلوچستان کے عوام بھوک اور افلاس، غربت اور بیروزگاری، بیماری اور بدحالی جیسے مسائل سے دوچار ہیں۔ گوادر میں بندرگاہ تو بن گئی مگر قدیمی ماہی گیروں کو مچھلی پکڑنے کا حق نہیں ہے۔ سونا نکلتا ہے مگر اس کا مالک کوئی اور ہے۔
زمین گیس اگلتی ہے مگر اس کا استعمال کوئی اور کرتا ہے۔ مگر اب پنجاب کے مزدور، سندھ کے مزدور اور بلوچ مزدور، چرواہے اور ماہی گیر یکجا ہو ہے ہیں۔ حال ہی میں پاک پتن، مردان اور پشاور سمیت بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے خلاف ہزاروں عوام سڑکوں پر نکل آئے اور روڈ بلاک کر دیے۔ یہ چھوٹی چھوٹی چنگاریاں بھڑک کر ایک بڑے شعلے کی صورت میں حکمرانوں کو اپنی لپیٹ میں لے کر سارے سماج کو بدل دیں گی۔ شہید نذیر عباسی نے اس جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام کو بدل کر امداد باہمی کے ایک آزاد معاشرے کے قیام کے لیے جدوجہد شروع کی تھی اور یہ جدوجہد آج بھی جاری ہے۔