گزشتہ دنوں صدر پاکستان عارف علوی نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ پاکستان بدل رہا ہے، وزیر اعظم عمران خان کی قیادت میں ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔
انھوں نے یہ بھی کہا کہ مجھے حیرانگی ہوئی کہ خواتین حکومتی فنڈز کے لیے اداروں کا رخ نہیں کر رہی ہیں۔ صدر صاحب نے یہ نہیں بتایا کہ نرسوں کے مطالبات کیوں نہیں مانے جا رہے ہیں، لیڈی ہیلتھ ورکرزکو مہینوں تنخواہیں کیوں ادا نہیں کی جاتیں، پولیوکے قطرے پلانے والی خواتین ورکرز کو تحفظ کیوں نہیں دیا جاتا اور تنخواہیں وقت پر کیوں ادا نہیں کی جاتیں، ہاں مگر پاکستان بدل رہا ہے۔
بجلی کی پیداواری لاگت میں ایک سال کے دوران 60 فیصد اضافہ ہوا ہے، ملک بھر میں 4 لاکھ 11 ہزار سے زائد رجسٹرڈ معذور افراد ہیں، ان کی کتنی دادرسی کی جا رہی ہے، اس کے علاوہ دال، چاول، آٹا، گھی، چینی، چائے، دودھ، گوشت، مسالہ جات اور سبزیوں کی قیمتوں میں صرف بدلاؤ نہیں آیا بلکہ 100 گنا اضافہ ہوا۔ اس لحاظ سے تو ترقی ہو رہی ہے۔ طالبان بھی بدل رہے ہیں۔ طالبان نمایندے نے اعلان کیا ہے کہ طالبان امن کے لیے امریکا کے شراکت دار ہو سکتے ہیں۔ ادھر شمالی کوریا نے جنوبی کوریا سے تعلقات بہتر بنانے پر مشروط عندیہ دیا ہے۔
اس کا کہنا ہے کہ جنوبی کوریا اگر دشمنی کی پالیسی کو ترک کردے تو ہم بات چیت کرنے کو تیار ہیں۔ ادھر مذہبی انتہا پسندی ہر فرقے کے لیے زہر قاتل ہے۔ اگر افغان طالبان افغانستان میں خواتین کی آزادی کو سلب کرتے ہیں تو یمن میں حوثی بھی یہی کام کر رہے ہیں۔
حوثیوں نے صنعاء، یمن میں خواتین کو ٹچ فون استعمال کرنے اور سنگھار (میک اپ) کرنے پر پابندی عائد کردی ہے۔ دوسری جانب افغانستان کے لاکھوں بچے پاکستان اور ایران میں کچرا چننے میں مصروف نظر آتے ہیں۔ یمن میں تو لاکھوں بچے فاقوں اور بھوک سے مر رہے ہیں۔ افغان شہریوں کو عرب ممالک اور پاکستان اشیا خورو نوش پہنچا رہے ہیں جب کہ یمن کو اقوام متحدہ اور دیگر ممالک خورونوش کی اشیا پہنچا رہے ہیں۔
نایاب نسل کے پرندے پینگولین اور فیلکون کے غیر قانونی شکار پر کارروائی کرتے ہوئے 11 افراد گرفتار ہوئے، ان سے سارے پرندے حکومت نے اپنی طویل میں لے لیے اور بھاری جرمانے کیے۔ دوسری جانب جنوبی پنجاب اور بلوچستان میں غیر ملکی شہزادوں کو تلور اور باز کے شکار کرنے کی اجازت دی جاتی ہے۔
ان نایاب پرندوں کی حفاظت ہمارا فریضہ بنتا ہے، مگر یہ غلط کام ہے کہ عام لوگوں پر جرمانے کیے جائیں اور حکمرانوں کو سہولتیں فراہم کی جائیں۔ آج کل ایسا کوئی دن نہیں کہ 8/10 افراد حادثات کے شکار نہ ہوتے ہوں۔ ہر سال ہزاروں افراد حادثات کا شکار ہو کر مر جاتے ہیں، اس سلسلے میں حکومت اس کی روک تھام کے لیے کوئی انتظام نہیں کر پا رہی ہے۔
عالمی مارکیٹ میں روپے کی بے قدری جاری ہے، ڈالر 171 روپے کی بلند سطح پر پہنچ گیا۔ حکومت نے اعلان کیا ہے کہ کراچی سرکلر ریلوے کا بنیادی ڈھانچہ منظور ہو گیا ہے اور دو سال میں کام مکمل ہو جائے گا۔ ایسا ہو تو اچھا ہے۔ ویسے تو ہم 2002 سے سرکلر ریلوے کی بحالی کی بات سنتے آ رہے ہیں۔
حکومتی اعداد و شمار کے مطابق سالانہ شرح مہنگائی 13.88 فیصد رہی جب کہ ہفتہ وار مہنگائی میں 0.07 فیصد کمی آئی ہے۔ چینی اور گھی سمیت 20 اشیا مہنگی ہوئی ہیں، جب کہ دس اشیا سستی ہوئی ہیں۔ جس میں آلو، پیاز، لہسن، آٹا، گندم، دال مسور، دال ماش، دال چنا اور دال مونگ شامل ہیں، جب کہ آلو اور پیاز 60 روپے کلو فروخت ہو رہے ہیں اورکسی بھی دال کی قیمت میں کمی نہیں ہوئی۔ سندھ میں کورونا ویکسین کی 59 ہزار خوراکیں ضایع ہوگئی ہیں۔ کالاشا کاکو میں نجی ہاؤسنگ سوسائٹی میں پولیو ٹیم جب پہنچی تو مالک مکان اورگارڈز نے پولیو ٹیم پر تشدد شروع کردیا، پالتو کتے بھی چھوڑ دیے۔
تین افراد اسی سلسلے میں گرفتار ہوئے۔ فیکٹری اور گودام پر چھاپہ مار کر 6 کروڑ 93 لاکھ کی مضر صحت چھالیہ اور سپاری برآمد۔ اس کے باوجود ہر پان کی دکان پر خفیہ طور پر روزانہ لاکھوں ٹن کا گٹکا، چھالیہ اور پان فروخت ہو رہا ہے۔ یقیناً پولیس، کسٹم اور خفیہ اداروں کی ایجنسیوں کی مدد کے بغیر بڑے پیمانے پر گٹکے کی فروخت ناممکن ہے۔ محنت کشوں کے ان تمام مسائل کا حل ایک غیر طبقاتی امداد باہمی کے سماج میں ہی ممکن ہے۔