گزشتہ دنوں آرٹس کونسل کراچی میں معروف تاریخ دان ڈاکٹر مبارک علی کی شعبہ تاریخ میں تاریخی خدمات پر جشن منایا گیا۔ جس میں دیگر مقررین کے علاوہ تاریخی مادیت پر روزنامہ ڈان کی صحافی ڈاکٹر طاہرہ خان اور لمز کے استاد علی رضا نے طبقاتی کشمکش پر مقالے پڑھے۔
ڈاکٹر مبارک علی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تاریخ کے حقائق کو سامراجیوں اور حملہ آوروں نے چھپانے اور غائب کرنے کی صدیوں سے کوشش کرتے آ رہے ہیں، لیکن اب چھپائے نہیں چھپ رہا ہے۔
انھوں نے کہا کہ مادیت کے فلسفے کے بانیوں جو کہ ہندوستان میں چھٹی صدی سے قبل تحقیق کر رہے تھے کو مغربی سامراج نے دبا دیا تھا، جو کہ "چارواک" کے نام سے جانے جاتے تھے، ان کی تحقیق تھی کہ دنیا چار چیزوں سے تشکیل پائی ہے۔ یعنی مٹی، پانی، آگ اور ہوا۔ اب مغربی سائنسدان بھی ان چار واکوں پر تبصرہ کرنے لگے ہیں اور ان پرکتابیں بھی لکھی جا رہی ہیں۔
ہندوستان کے لکھاری ہریش " لوکیات" کے نام سے ایک تفصیلی کتاب شایع بھی کر چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حملہ آور جہاں بھی گئے وہاں کی تہذیب، تمدن، روایات اور مذہب کو بدل دیا۔ مثال کے طور پہ برطانوی سامراج جہاں بھی گیا، وہاں ان کی زبان بدل دی اور مذہب بھی۔ انھیں عیسائی بنایا یا بن گئے، گرجا گھروں کی تعمیر کی۔ اسی طرح جب عربوں اور ترکوں نے جنوبی اور مشرقی یورپ پر قبضہ کیا تو وہاں کے لوگ مسلمان بن گئے یا بنائے گئے اور مساجد تعمیر کی گئیں۔ اسپین نے جنوبی امریکا کی "مایا" تہذیب اور پیرو کی "انکا" تہذیب اور میکسیکو کی "ایزٹیک" تہذیب کو نیست و نابود کر دیا۔
جنوبی امریکا کی تہذیبوں میں ان کے اپنے رسم الخط تھے وہ ترقی یافتہ تھے، انھیں جبراً عیسائی بنایا گیا اور انھیں اسپینش زبان بولنے پر مجبور کیا گیا۔ موجودہ ریاست ہائے متحدہ امریکا کے شمال اور جنوب پر برطانیہ، فرانس اور دیگر یورپی سامراج نے جب حملہ کیا تو وہاں کے لوگوں کا قتل عام کیا۔
شمالی امریکا اور لاطینی امریکا کے قدیم باشندے ریڈ انڈین اب دو چار فیصد ہی رہ گئے ہیں۔ فرانس اور بیلجیم نے نومیبیا اور ڈومینیکن ری پبلک پر قبضہ کر کے وہاں کے لوگوں کا قتل عام کیا اور ان کی دولت کو لوٹا۔
مقررین نے کہا کہ پہلی عالمی جنگ کے دوران ہندوستان کے پندرہ لاکھ فوجی فرانس میں جمع کیے گئے اور انھیں جرمنی اور ترکی کے خلاف لڑایا گیا۔ مقررین نے کہا کہ سماج کی تاریخ طبقاتی کشمکش کی تاریخ ہے۔ تاریخی مادیت ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ سماجی تاریخ میں ہمیشہ ایک طبقہ دوسرے پر مسلط رہا، استحصال کرتا رہا اور اب بھی کر رہا ہے۔
تاریخ کے مختلف شعبے اور پرتیں ہیں۔ جیسا کہ موئن جو دڑو اور ہڑپہ کی تاریخ۔ برطانوی انقلابی تاریخ دان گولڈن چائلڈ نے تاریخ کی طبقاتی نوعیت اور طبقاتی استحصال پر " تاریخ میں کیا ہوا " کے نام سے کتاب لکھی جس کا ترجمہ کراچی یونیورسٹی کے شعبہ فلسفہ کے سربراہ ڈاکٹر ظفر عارف (مرحوم) نے کیا ہے۔
پاکستان کے مایہ ناز لکھاری یوسف شاہین نے تاریخ پر انگریزی، اردو اور سندھی میں درجنوں کتابیں لکھی ہیں۔ ان کی تین کتابیں معرکۃ الآرا ہیں جن میں "دنیا کی مصنوعی سرحدیں "، "برطانوی بادشاہت کے ماتحت غلام قومیں " اور تیسری "موئن جو دڑ" پر۔ ان ساری کتابوں میں یوسف شاہین رقم طراز ہیں کہ دنیا ایک تھی، ان کی سرحدیں مصنوعی طور پہ تشکیل دی گئیں۔ وہ موئن جو دڑوکی تاریخ پر بنیادی نکات اٹھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ موئن جو دڑو میں سات ہزار سال قبل نہ کوئی ریاست تھی، کھدائی میں کوئی اسلحہ، مندر، محل، عبادت گاہ یا فوجی بیرکس نہیں ملے۔
ڈاکٹر مبارک کی سو سے زیادہ تاریخ کی کتابوں میں محکوم طبقات، گروہوں، عام اور پیداواری قوتوں کے بارے میں الگ الگ موضوعات پرکتابیں لکھی ہیں۔ مجھ پر خاص طور سے دو کتابیں زیادہ اثر انداز ہوئیں۔"اچھوتوں کا ادب" اور دوسری "ڈاکوؤں کی کہانی"۔ اچھوتوں کے بارے میں لکھی گئی کتاب میں ایک اچھوت کے ذریعے ڈاکٹر مبارک کہلواتے ہیں کہ "ہم پر بہت سارے انقلابی آنسو بہاتے ہیں، ہمدردی کرتے ہیں، نظمیں اور کہانیاں لکھتے ہیں، فلم بناتے ہیں۔ مگر یہ سب عمل ایسا لگتا ہے کہ وہ دوزخ کا نظارہ کرنے آئے ہیں۔
انھیں ہمارے دکھوں کا پتہ تب چلے گا جب دن کے تین بجے کے بعد ہم بانس کا پھرٹھا لے کر ممبئی کے پل پر سے گزرتے ہیں اور بانس کو زمین پر مارتے ہوئے چلتے ہیں کہ دور رہنا، ہمارا سایہ تم پر نہ پڑے۔" ڈاکوؤں کی کہانی میں ڈاکٹر مبارک لکھتے ہیں بلکہ ایک حقیقت بیان کرتے ہیں کہ " احمد شاہ ابدالی کی حکومت میں عبدالقادر ڈاکو جو کہ امیروں کو لوٹتا اور غریبوں میں بانٹتا تھا۔
اس کے گھر میں کھانا نہیں پکتا تھا۔ محلے والے کھانا کھلاتے تھے۔ اس کے ایک سکھ دوست کو احمد شاہ ابدالی کے اہلکاروں نے قتل کر دیا تھا۔ اس کے بعد عبدالقادر کی ماں نے قادر کو کہا کہ جب تک تم اس کا بدلہ نہیں لو گے ہم تمہارا دودھ نہیں بخشیں گے، پھر عبدالقادر نے اس سکھ دوست کے قاتل کو مار ڈالا۔ بعد ازاں اہلکاروں سے ایک جھڑپ میں عبدالقادر ڈاکو بھی مارا گیا۔ قصور ضلع کے عوام نے اس وقت کا رائج الوقت سکہ ایک کروڑ دے کر حکومت سے عبدالقادر ڈاکو کی میت وصول کی اور اس میت کے جنازے کی امامت عظیم انقلابی شاعر بلھے شاہ نے کی۔
ہمارے پاکستان کی تاریخ انیس سو سینتالیس سے شروع ہوتی ہے، جب کہ یہ حد انیس سو پینسٹھ تک مقرر نہیں کی گئی تھی۔ انیس سو پینسٹھ میں ہماری تاریخ کو انیس سو سینتالیس سے محدود کیا گیا۔ حقیقتاً غور کریں تو یہ خطہ انیس سو سینتالیس سے نہیں لاکھوں سال سے کرہ ارض پر موجود ہے۔ موئن جو دڑو، ہڑپہ، ٹیکسلا اور مہر گڑھ جس کی جدید تحقیق سات ہزار سال کی تہذیب ہے۔ وادی سندھ کا تذکرہ وید شاستر اور رمائن میں موجود ہے۔ ابن بطوطہ نے جب یہاں کا دورہ کیا تو انھوں نے اپنی کتاب میں لکھا کہ سندھو میں ایک ایسا پھول ہوتا ہے جو چاندی کی طرح چمکتا ہے اور وہ ہے کپاس۔
برصغیر کی آزادی کی جنگ لڑنے والوں کے صف اول کے عظیم انقلابی بھگت سنگھ کا تعلق فیصل آباد سے ہے۔ ان کا خاندان اب بھی فیصل آباد میں رہائش پذیر ہے۔ سماجی تاریخ کسی سرحدی لکیروں کے تابع نہیں ہوتی، وہ تو آفاقی ہے۔ دنیا کی مصنوعی سرحدی تقسیم فطری نہیں بلکہ مفادات کے حصول کے لیے ریاست کے وجود میں آنے کے بعد ہوئی۔ غلامانہ نظام وجود میں آنے کے بعد ریاست تشکیل پائی اور طبقاتی استحصال شروع ہوا، اور پھر تاریخ حکمرانوں کے منشا مرضی پر لکھی جانے لگی۔
رنجیت سنگھ کو سن آف دی سوئل قرار دے کر ان کا مجسمہ بنایا گیا جب کہ ملتان والے کہتے ہیں کہ اس نے تو ہم پر حملہ کیا تھا۔ فیصل آباد والے کہتے ہیں کہ مجسمہ بھگت سنگھ کا بننا چاہیے، سندھیوں کا مطالبہ ہے کہ ہمارا ہیرو محمد بن قاسم نہیں راجہ داہر ہے۔ محمد بن قاسم نے تو مراٹھی مسلمانوں کا قتل کیا تھا وغیرہ وغیرہ۔ بعد میں تاریخ لکھنے والوں نے اس جھوٹی تاریخ سے بغاوت کی اور پاکستان میں سب سے زیادہ موثر بغاوت ڈاکٹر مبارک علی نے کی اور کر رہے ہیں۔ ہمیں جناح، اقبال اور کشمیر تک محدود کیا گیا ہے۔
ہماری تاریخ میں بہت سے سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ جیسا کہ پاکستان بننے میں اٹھائیس لاکھ انسان کیوں مارے گئے؟ لیاقت علی خان، بھٹو، بینظیر، حسن ناصر، نذیر عباسی اور ڈاکٹر تاج کا کس نے اور کیوں قتل کیا؟ انیس سو اکہتر میں مغربی پاکستان ٹوٹ کر بنگلہ دیش کیوں بنا؟ چھتیس سال تک ملک میں مارشل لا کیوں رہا؟ بنگال میں تیس لاکھ بنگالی، پانچ لاکھ بہاری اور پچاس ہزار فوجی کیوں مارے گئے؟ تین لاکھ بنگالی لڑکیاں کیوں بے آبرو ہوئیں؟
اگر ان سوالوں کے جوابات پبلک کر دیے جائے اور غلطیوں کو تسلیم کیا جائے تو ہماری سیاست، معیشت اور سماج میں بہتری اور خوشحالی آ سکتی ہے۔ ہرچند کہ مسائل کا مکمل حل ایک انارکی کو کمیونزم یا امداد باہمی کا سماج یا پنچایتی نظام میں ممکن ہے یا پھر عوام خود تلاش کریں گے کہ کوئی اور اس سے بہتر طریقہ کار نکل سکتا ہے۔