"ٹرمپ کے موقف نے دنیا کو حیران کردیا ہے" یہ جملہ ہارورڈ یونیورسٹی امریکا کے پروفیسر اور انقلابی دانشور پروفیسر نوم چومسکی کا ہے۔
حبیب یونیورسٹی پاکستان کے ذریعے ان کا لیکچر نشرکیا گیا۔ 77 ہزار لوگوں نے ان کا خطاب سنا۔ پروفیسر نوم چومسکی 100 سے زیادہ کتابوں کے مصنف ہیں، وہ ہارورڈ یونیورسٹی میں تحقیق کے اور ایری زونا یونیورسٹی کے پروفیسر ہیں۔
انھوں نے ویت نام پر امریکی بمباری، سامراج مخالف جلوسوں اور مزدوروں کے متعدد احتجاجوں میں عملی طورپر شرکت کی۔ ان کا انارکزم اور کمیونزم کا گہرا مطالعہ ہے۔ ان کی دوکتابیں بہت زیادہ مشہورہوئیں جن میں لسانیت کی تاریخی پس منظر اور دنیا بھر میں امریکاکی مداخلت۔
پروفیسر نوم چومسکی نے کہا کہ ٹرمپ کا جارحانہ موقف دنیا کو تباہی کی جانب لے جا رہا ہے۔ موجودہ صدارتی انتخابات میں ٹرمپ کا موقف اس کی تصدیق کرتا ہے۔ شام کا بحران حقیقتاً انسانیت کا تذلیل آمیز بحران ہے۔ امریکا نے 1945 میں جاپان پر جو بم گرائے جس کے نتیجے میں لاکھوں انسان جان سے جاتے رہے۔
انھوں نے کہا کہ ویت نام پر امریکی سامراج بمباری کرتا رہا اور بے شمار انسانوں کا قتل کیا۔ انسانوں کو ازسرنو سماج کی تشکیل دینے میں برسوں لگ گئے۔ پروفیسر صاحب نے کہا کہ بنگلہ دیش میں سائیکلون میں لاکھوں لوگ مارے گئے، پھر جنگ میں لاکھوں لوگوں کا قتل کیا گیا۔ نوم چومسکی کا کہنا ہے کہ یہ کام جمہوریت کی نفی ہے۔ برصغیرکی 2 ارب کی آبادی انتہائی کسمپرسی کی حالت میں دن گزار رہی ہے۔ سوڈان میں انسانیت کی تباہی اور بربادی کی گئی۔
امریکی حکمرانوں کے چار بنیادی مسائل ہیں۔ ایک ایٹمی جنگ کو روکنا، ہندوستان، پاکستان جن کے پاس ایٹم بم ہیں انھیں جنگ سے روکنا، پھرکورونا کو روکنا، کرپشن اورجمہوری حقوق کی خلاف ورزی کو روکنا۔ ری پبلکن نے تو جمہوریت اور انسانیت کی دھجیاں بکھیری ہیں۔ وائرس کا بحران چین میں شروع ہوا لیکن چین اور جنوبی کوریا نے اس پر قابو پایا۔ یورپ نے کوشش کی مگر یہ تباہی اب بھی جاری ہے۔ اب برازیل، فرانس، امریکا، بھارت اور یورپ کے کچھ ممالک انتہائی بری حالت کا شکار ہیں۔
چین نے ویکسین دریافت کی ہے جو پہلے ہی استعمال ہونا شروع ہوگئی تھی۔ آکسفورڈ اور ہارورڈ نے ویکسین دریافت کی لیکن استعمال میں دیر کردی۔ ٹرمپ نے انتخابات کو تسلیم نہ کرکے جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ہم انتخابات کے نتائج کو تسلیم نہیں کرتے، جب کہ انتخابات شفاف ہوئے ہیں۔ اب حقیقی حکومت قائم ہونی چاہیے نہ کہ جعلی۔ ٹرمپ کوکانگریس اور سینیٹ میں جانا چاہیے۔ وہاں مزدوروں اور نوجوانوں کے مسائلپرآئین اور قانون پاس کروانے کی ضرورت ہے۔ جہاں تک جمہوریت کی بات ہے تو برازیل میں جمہوریت قائم ہونی چاہیے جب کہ وہاں ایسا نہیں ہے۔
کشمیریوں کی جنگ آزادی کو بھارتی حکومت دبا رہی ہے، کشمیریوں کا قتل ہو رہا ہے۔ امریکا میں ڈیموکریٹ نیولبرل پروگرام لانا چاہتے ہیں جب کہ ٹرمپ ایسا نہیں چاہتے۔ وہ نسل پرستی، رجعتی اور مہاجرین کے خلاف موقف رکھتا ہے۔ ڈیموکریٹک پارٹی میں برنی سینڈرز جیسے ریڈیکل خیالات کے لوگ ہیں۔ جنوبی امریکا اور یورپ کے عوام تعلیم اور صحت پر زیادہ خرچ کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اسلحے کی دوڑ جمہوریت اور انسانی ترقی اور بھلائی کوکسی بھی وقت مکمل تباہ کرسکتی ہے۔
انھوں نے کہا کہ ایران کے خلاف جنگ ممکن ہے۔ ویسے بھی ایران کے خلاف پابندی لگائی جا رہی ہے، اس سے عوام کو دہشت زدہ کیا جا رہا ہے، ملک کے اندر معاشی صورتحال کو خراب ترکیا جا چکا ہے۔ اس علاقے میں خوف کی فضا اور بھوک کو پروان چڑھایا جا رہا ہے۔
اسرائیل کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے، امریکا اورکچھ ممالک اسے سراہتے ہیں لیکن اقوام متحدہ اسرائیل کے جارحانہ رویوں کی حمایت نہیں کرتا۔ اسرائیل نے ایسا میزائل بنا رکھا ہے کہ جو سعودی عرب اور مشرق وسطیٰ کے ممالک تک پہنچ سکتا ہے۔ ویسے بھی اسرائیل، فلسطین، شام، عراق اور ایران پر میزائل داغتا رہتا ہے۔
1980 میں عالمی معیشت میں بہتری آئی تھی، کچھ لوگوں کو روزگار بھی دیا گیا تھا لیکن 2008 سے نیا بحران شروع ہو چکا ہے۔ یہ بحران تجارت کے نام پر مختلف اداروں جیساکہ نافٹا کی تشکیل سے پیدا ہوا۔ ان تجارتی معاہدات کوآزاد تجارت کا نام دیا گیا جب کہ یہ آزاد تجارت نہیں ہے۔ یہ استحصال کرنے کے ادارے ہیں۔ امریکا کبھی بھی بھارت ہو یا کوئی اور ملک کو جدید ٹیکنالوجی کبھی بھی فراہم نہیں کرے گا۔
انھیں درآمدات پر مجبور رکھے گا۔ دنیا بھرکے مزدوروں کو تحفظ دینے کی بجائے استحصال کرے گا۔ شکاگو ہو یا کوئی اور صنعتی شہر، محنت کشوں کا استحصال کرے گا۔ امریکا مینوفیکچرنگ اور اسمبلنگ کرنے کا موقعہ نہیں دے گا۔ اپنا سامان خود مکمل کرکے بیچے گاجب کہ چین مینوفیکچرنگ اور اسمبلنگ کرنے کا موقعہ دیتا ہے۔
بنیادی طور پر سرمایہ دارانہ جمہوریت عوام کی بھلائی کے لیے نہیں یہ محنت کش طبقے پر کنٹرول رکھتی ہے اور سرمایہ داروں کو فائدہ پہنچاتی ہے۔ یہ اپنے فائدے کے لیے ہزاروں پولٹری فارم کو تباہ کردیتی ہے اس لیے کہ قیمتیں بڑھ نہیں رہیں۔
ایک سوال کے جواب میں پروفیسر صاحب نے کہا کہ جی ہاں سوشل ڈیموکریسی (سوشل ازم) امریکا میں ممکن ہے۔ جس میں مزدوروں کی نمایندگی ہو، کسانوں کی نمایندگی ہو، مزدوروں کے کنٹرول کے ذریعے امریکا میں سوشل ازم لایا جاسکتا ہے اور یہ بات امریکا میں برنی سینڈرز اور جرمنی کے عوام کوکہتے ہوئے سنا جاسکتا ہے۔
پاکستان پرکیے جانے والے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے نوم چومسکی نے کہا کہ رجعتی اور طبقاتی نظام تعلیم اب بھی پاکستان میں رائج ہے۔ بہتر سماج اور تعلیم کی کوششوں میں حکومت اورعوام برسر پیکار ہے۔ جوہری ہتھیار، ماحولیاتی آلودگی اور علاقائی سانحات سے لاکھوں انسان مارے جاتے ہیں۔ پاکستان اور انڈیا کے مابین ایٹمی جنگ کے خطرات عالمی ایٹمی جنگ کے خطرات اور اس کی تباہ کاری جو آبادی کو بری طرح متاثرکرسکتی ہے۔