اکثر ہمارے نا عاقبت اندیش لبرل حضرات یا سرمایہ داری کے حامی دانشور، سرمایہ داری کی ترقی کے طرۂ امتیاز کو اسکینڈے نیوین ممالک سے تشبیہ دیتے ہیں۔
انھیں شاید نہیں معلوم کہ اسکینڈے نیوین ممالک سمیت تقریباً سارے یورپی ممالک امریکا، افریقہ اور ایشیا پر حملہ آور ہوئے۔ وہاں کی مقامی آبادیوں کا قتل عام کیا، ان کے مذہب، عقیدہ، تہذیب اور زبان کو جبراً تبدیل کرنے پر مجبورکیا اور ان کے وسائل، معدنیات اور دولت کو لوٹ کر آج مہذب، تعلیم یافتہ اور مثالی ریاستیں بن گئی ہیں۔ اس سلسلے میں جنھیں اکثر زیادہ مہذب اور مثالی کہا جاتا ہے، آئیے! پہلے ان پر ایک نظر ڈالیں۔
سب سے پہلے اسکینڈے نیویا سے بحری قزاق نو گورود کا اولیگ جوکہ ناروے سے آٹھ سو بیاسی میں آیا اور روسی ریاست کی پہلی بار سرحدی لکیریں ڈالی، وہ ازمنہ وسطیٰ نو سو بارہ میں انتقال کرگیا۔ اس نے سب سے پہلے کیرین رس پر حکمرانی شروع کی، جسے بعد میں روس، یوکرائن اور بیلاروس کہا گیا جس کا دارالحکومت اٹھارہ سو بیاسی سے انیس سو اکیس تک ’کیو، تھا۔ یہ سرزمین مشرقی یورپ کے غلاموں اور فینو اوگرک لوگوں پر مشتمل تھی (فینو یعنی فن لینڈ اوگرک یعنی ترکی)۔ نو سو سات میں اولیگ نے سلطنت بیز نٹائن کا دارالحکومت ’ زارگراد، (کانسٹانٹینی پول) میں مداخلت کے لیے اپنی فوج جمع کی۔ کچھ تاریخی دستاویزات کے مطابق اولیگ نے دو ہزار لمبی ٹرانسپورٹ کشتیاں جمع کیں۔
جس میں اسی ہزار لوگ سوار ہو کر کانسٹانٹینی پول جا سکیں۔ ان کے پہنچنے سے قبل بیزن ٹائن کا بادشاہ لیو ششم نے شہرکا مرکزی دروازہ بند کرنے کا حکم دیا۔ آخرکار اولیگ قبضے سے دست برداری اختیارکی اور بیزن ٹائن کے بادشاہ سے فی کشتی بارہ گراوس (سکہ رائج الوقت) کے حساب سے بیڑے کے لیے رقم دینے کا اور مزید برآں کیورس کے تمام شہروں کے لیے الگ سے رقوم دینے کے عوض دست بردار ہوئے۔ آج کے حساب سے یہ رقم تین ہزار ایک سو بیس تا چار ہزار آٹھ سوکلوگرام کی چاندی کے برا بر ہے۔
معاہدے کا یہ بھی حصہ تھا کہ بیزن ٹائن کے بادشاہ کیورس کو ہمیشہ خراج دیا کرے گا جس کے عوض اولیگ اسے فوجی مدد فراہم کرے گا۔ کامیابی کے اظہارکے طور پر شہرکے مرکزی دروازے پر تمغہ لٹکائے رکھے گا۔ اولیگ نو سو بارہ میں سانپ کے کاٹنے سے ہلاک ہوا۔ اسے ایک پہاڑی کی چوٹی پر دفنایا گیا جسے ’ شیکوٹزا، کہا جاتا ہے۔ یہ آج بھی موجود ہے، اس کا ترجمہ "اولیگ کا مزار" کے نام سے مشہور ہوا۔
اولیگ کے مرنے کے بعد ایگور اول نے کیون رس پر نو سو بارہ تا نو سو پینتالیس حکمرانی کی۔ نو سوپینتالیس میں جب ایگور اول کو مشرقی غلاموں نے قتل کیا تو اسے مارنے سے قبل چیڑکے درخت کے ساتھ دونوں ٹانگوں کو الگ الگ کر کے باندھا اور درخت کو کاٹ گرایا۔
پھر اولگا کا بیٹا سیسویاٹا سلیپ جس نے نو سو بیالیس تا نو سو بہتر یورپ کے ایک بڑے حصے پر حکمرانی کی۔ اس نے نو سو انہتر میں روس کا دارالحکومت کیو سے پیرے ایسلویٹس (دورجدیدکا رومانیہ ) منتقل کیا۔ سیسویا ٹوسیلیوکا بڑا بیٹا یاروپوک جو جانشین بھی تھا اسے اس کا ایک بھائی ولادیمیر مد مقابل آگیا۔ اس نے ناروے کی ریاست کی مدد سے کرایے کی فوج حاصل کی۔ ولا دیمیر نے اپنے بھائی یاروپوک کو اپنے مرکزی محل میں مذاکرات کے لیے بلا بھیجا اور اس کے پہنچنے پر یاروپوک کو قتل کر دیا۔ پھر ولادیمیر نے نو سو اٹھاون سے ایک ہزار پندرہ تک کیوین رس کی حکمرانی کی۔
نو سو اسی میں ولادیمیر نے اپنی سرحد کو دور جدید کے یوکرائن سے بحیرہ بالٹک، بلغاریہ اور مشرقی نو مانڈز تک قبضہ کیا اور قتل عام کیا۔ یعنی آٹھ سو بیاسی تا بارہ سو چالیس تک روس پر اسکینڈنیویا کے ناروے بحری قزاق نے حکمرانی کی۔ یہ تقریباً تین سو پچاس سال کا عرصہ ہے۔
یہ ہے اسکینڈے نیویا کی لوٹ مارکی تاریخ۔ انھوں نے بالٹک ریاستوں، یوکرائن، کیورس، رومانیہ اور بلغاریہ پر قبضہ کیا اور وسائل، معدنیات، سونا چاندی اور دیگر دولت کو لوٹا۔ ان لوٹ کے مال کے ذریعے آج اسکینڈے نیویا مہذب، تعلیم یافتہ اور عصر حاضر کا مثالی سرمایہ دار ملک کہلاتا ہے۔ جب کہ لینن کے دورکا روس، ماؤ کے دورکا چین، فیدل کاسترو کا کیوبا، کم ال سنگ کا کوریا اور سوشلسٹ یورپ نے جہاں بھوک، جہالت، بیروزگاری، بیماری، بے گھری اور مہنگائی کا خاتمہ کر کے اسکینڈے نیوین ممالک کو بہت پیچھے چھوڑگئے تھے جب کہ ساری دنیا کے سامراجی ممالک نے سوشلسٹ بلاک کا معاشی بائیکاٹ کر کے ان کا انہدام کیا۔
(ہرچندکہ ریاست کے وجود کو برقرار رکھ کر سوشلسٹوں نے بھی بڑی غلطی کی) انھیں فوری کمیونزم کی جانب پیش قدمی کرنی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ سرمایہ دار ممالک میں بہت آزادی صحافت ہے۔ ابھی حال ہی میں آسٹریلیا کی حکومت نے نیشنل سیکیورٹی کونسل کے نام پر آسٹریلیا کے اخبارات پر کچھ پابندیاں عائد کر دی ہیں، جس کے خلاف آسٹریلیا کے تمام بڑے بڑے اور نامور اخبارات نے خبروں کی بلیک آؤٹ کی ہے یعنی ایسا لگتا ہے کہ چند سطریں چھاپ کر اس پر سیاہی پھیر دی ہے۔ فرانس کے ایک اجتماع میں مسلمان خاتون کے حجاب کو اتار کر داخل ہو نے پر دائیں بازوکی جماعت نے مجبورکیا۔ جس کے خلاف پیرس میں خواتین اور بائیں بازو کے کارکنوں نے مظاہرے کیے۔
ادھر ہانگ کانگ کے مظاہرین نے ریلوے اسٹیشنوں پر پیٹرول بم سے حملے کیے، ٹریفک کا نظام درہم برہم ہوگیا، شاپنگ مالز، سیاحتی مقامات اورکئی اسٹورز بند ہوگئے۔ امریکا اپنی فوج کوکہیں سے نکال کر اپنے ملک میں وا پس لانے کے بجائے دوسرے ملکوں میں منتقل کر دیتا ہے۔
جیسا کہ عراق سے سعودی عرب، فلپائن سے جنوبی کوریا اور اب شام سے سات سو فوجیوں کو عراق منتقل کرنے جارہا ہے۔ لبنان اور عراق میں مہنگائی اور بیروزگاری کے خلاف لاکھوں کی ریلیاں ہوئیں، عراق کے مظاہرے میں ایک سو پانچ لوگ مارے گئے، سوڈان میں فوجی قبضہ گیروں کے خلاف سڑکوں پر عوام کا سمندر امنڈ آیا، چلی میں بائیں بازوکے پُر تشدد مظاہرے، انھوں نے میٹرو ٹرین کے اضافی کرایوں کو واپس کروا لیا۔ اس مظاہرے میں ایک سو چھپن پولیس اہلکار اورگیارہ شہری زخمی ہوئے اور تین سو افراد گرفتار ہوئے۔ لبنان کے مظاہرین نے اپنے مطالبات منوا لیے۔ یعنی وزراء کی تنخواہیں پچاس فیصد کم کروا لیں اور آیندہ دو ہزار بیس کے بجٹ میں مزید ٹیکس نہ لگانے کا معاہدہ کر لیا۔
پاکستان میں پنجاب بھرکے ایک ہزار نابینا ملازمین نے اسلام آباد میں مظاہرہ کرکے اپنے مطالبات دس دن میں منوانے کا عہد کروا لیا۔ ادھر پیرا میڈیکل اسٹاف اور جونیئر ڈاکٹروں کے ملک گیر مظاہرے میں شدت آگئی ہے۔ تاجروں نے اسلام آباد میں مظاہرہ کرنے کے بعد انتیس اکتوبرکو ملک گیر شٹر ڈاؤن ہڑتال کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔
حزب اختلاف کی سرمایہ دارانہ پارٹیوں نے ستائیس اکتوبر کو لانگ مارچ کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ یہ سارے عوامل عالمی سرمایہ دارانہ نظام کی انحطاط پذیری کا اظہارکرتے ہیں۔ ان چھوٹے چھوٹے مظاہروں سے کہیں کہیں ایک حد تک کچھ مسائل حل تو ہوسکتے ہیں لیکن مسائل کا مکمل حل ایک امداد باہمی کے آزاد سماج میں ممکن ہے۔