Saturday, 02 November 2024
    1.  Home/
    2. Express/
    3. Sarko Rama

    Sarko Rama

    آج سے تقریباً 50 سال قبل ایک چلتا پھرتا ڈبا لیے سڑکوں اور گلیوں میں ایک محنت کش آواز لگاتا پھرتا تھا " آؤ بچو سرکوراما دیکھو"۔ یہ ایک کھوکھا نما ڈبا ہوا کرتا تھا۔ نیچے چار پہیئے اور سامنے چار۔ پانچ گول سوراخ، اندر تصاویراور وہ محنت کش پیچھے سے ایک دستہ گھماتا رہتا تھا اور آوازیں کستا تھا کہ " اب ہائی کورٹ دیکھو، قائداعظم کا مزار دیکھو، یہ بندر روڈ آگیا، یہ چڑیا گھر دیکھو، یہ ٹاور دیکھو اور یہ ریگل چوک آگیا وغیرہ وغیرہ"۔ دو دو پیسے میں بچے یہ تصاویر دیکھنے کے لیے لائن میں لگ جاتے تھے۔ بچوں کی تفریح بھی ہوجاتی تھی اور محنت کش کی کمائی بھی۔ یہی صورتحال آج ہماری سیاسی جماعتوں کی بھی ہے۔

    کھوکھا ٹی وی بن گیا اور تصویر میں ٹاک شوز اورلیڈروں کے انٹرویوز ہیں۔ کھوکھے میں تصویریں بار بار دکھائی جاتی تھیں۔ فرق یہ ہے کہ تصویریں دیکھ کر بچے گھر چلے جاتے تھے، مگر آج ٹی وی پر لیڈرصاحبان فضول باتیں کرکے عوام کو تسلی دینے اور دھوکا دہی کرنے کے سوا کچھ نہیں کرتے، خواہ وہ حزب اقتدار ہوں یا حزب اختلاف کے۔ مثال کے طور پر انتخابات سے قبل تحریک انصاف نے لوگوں کو روزگار دینے اور رہائشیں فراہم کرنے سمیت اور بھی بہت کچھ دینے کا وعدہ کیا تھا۔ مگر عوام کو بے روزگاری ہی ملی ہے۔ بے گھر کیا گیا مگر گھر نہیں ملے۔ کرپشن کے خاتمے کی بات تو کی گئی تھی لیکن اربوں روپے کی کرپشن خود حکومتی رہنماؤں نے چینی، گندم، پیٹرول، دالیں، تیل، دودھ اور مرغیوں میں کی ہے۔

    50روپے فی کلو بکنے والی چینی اب 100روپے اور پشاور میں 110 روپے فی کلوکی ہوگئی، جب کہ چینی کے مل مالکان پی ٹی آئی کے ہوں، مسلم لیگ (ن) کے ہوں، ق کے ہوں یا پی پی پی کے ہوں، سب نے حکومت سے سبسڈی لے کر قیمتیں بڑھا کر ڈالر کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے فائدہ اٹھایااور اربوں روپے لوٹے اور یہ ساری لوٹ کھسوٹ عوام کے خون پسینے کی کمائی کی ہے۔

    آپ ذرا سوچیں تو پتہ لگے گا کہ خوشحال گھرانہ ’غربت، ، پھر ’نیم فاقہ کشی، سے ’فاقہ کشی، کی جانب کیونکر جاتا ہے۔ جب کہ دوسری جانب لکھ پتی سے کروڑ پتی، پھر ارب پتی اور کھرب پتی کس طرح بن جاتے ہیں۔ اس طبقاتی استحصال اور عوام کا خون چوس کر۔ ہمارے حکمران کرپشن کے خلاف ہر تقریر میں "سرکورما"کی طرح بولتے ہوئے سنائی دیتے ہیں۔ لیکن کرپٹ لیڈر صاحبان کے خلاف ابھی تک کوئی کارروائی نہیں کی۔ حزب اختلاف کی پارٹیوں کے رہنماؤں پر جو الزامات ہیں لگتا ہے کہ ان میں بیشتر درست ہیں۔ آصف علی زرداری اور نواز شریف بھی ارب پتی بن گئے۔

    نواز شریف کی ملز اور کارخانوں میں یونین سازی کی کیوں اجازت نہیں ہے۔ اربوں روپے کی کرپشن کے الزامات میں ملوث ڈاکٹر عاصم اور شرجیل میمن کے تمام الزامات اب کس طرح دب گئے۔ آف شور کمپنیوں میں ملوث منی لانڈرنگ کے اشخاص کے مقدمات کا کیا ہوا؟ یہ سرمایہ داری نظام کی برائیاں نہیں ہیں بلکہ سرمایہ دارانہ نظام کا ناگزیر نتیجہ ہے۔ اس لیے کہ سرمایہ داری عوام کی بھلائی کے لیے قائم نہیں ہوئی بلکہ اپنے منافع میں اضافے کے لیے ہوتی ہے۔

    دنیا کی معتبر ترین سرمایہ داری جرمنی کی کہلاتی ہے۔ وہاں کا گروتھ ریٹ دو فیصد تک آگیا ہے۔ بیروزگاری 60لاکھ ہے۔ جاپان کا گروتھ ریٹ منفی جا رہا ہے۔ جب کہ امریکا میں بے روزگاری سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 13فیصد سے گھٹ کر 11فیصد ہوئی ہے جب کہ حقیقت میں یہ 20فیصد تک جا پہنچی ہے۔ پاکستان تو ترقی پذیر ملکوں میں صنعتی اور زرعی پیداوار میں دنیا کے پسماندہ ترین چار پانچ ملکوں میں سے ایک ہے۔ تاہم اسلحہ کی پیداوار اور تجارت میں ٹاپ ٹین یعنی اسلحہ کی تجارت کرنے والے دنیا کے دس بڑے ممالک میں شامل ہے۔ جب کہ بھوک، افلاس، فاقہ کشی، غربت، بیماری، جہالت، آلودگی اور مہلک بیماریوں میں بہت آگے ہے۔

    ہیپا ٹائیٹس میں اول نمبر اور چھاتی کے سرطان میں دوسرے نمبر پر ہے۔ ان پریشانیوں، دکھوں، ذلتوں اور اذیتوں کے خلاف حزب اختلاف کی سیاسی جماعتیں دن رات "سرکوراما" میں کیوں بولتے ہوئے نظر آتی ہیں جب کہ اس سے باہر نکلنے کو بھی تیار نہیں۔ ایک دن کی ہڑتال تو درکنار ایک گھنٹے کی علامتی ہڑتال کرنے کو بھی تیار نہیں۔ شاید ایک دوسرے سے کرپشن کے معاملے میں خوفزدہ ہیں۔ علی انٹرپرائیزز کراچی میں 268مزدور جل گئے۔ گڈانی شپ بریکنگ یارڈ میں تقریباً ایک درجن مزدور ہلاک ہوگئے مگر حکمران (حزب اختلاف ہو یا حزب اقتدار) ٹس سے مس نہیں ہوئے۔

    ہمارے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ جاگیرداری ہے۔ اگر لاکھوں، کروڑوں ایکڑ زمین، بے زمین کسانوں میں بانٹ دی جائے تو آدھی غربت کا خاتمہ ممکن ہے اور زرعی پیداوار بھی دگنا ہوجائے گی۔ پاکستان کو قائم ہوئے 73سال ہوگئے مگر ابھی تک جاگیرداری کا خاتمہ نہ ہوسکا ہے۔ جب کہ بنگلہ دیش میں جاگیرداری کب کی ختم کردی گئی ہے۔ وہاں کسی وڈیرے، چوہدری، سردار یا خان کا کوئی وجود نہیں ہے۔ شاید حبیب جالب نے اسی جاگیرداری نظام کے خلاف کہا تھا کہ "ساری زمینیں گھیرے ہوئے ہیں آخر چند گھرانے کیوں؟ "۔ نام نبی کا لینے والے الفت سے بے گانے کیوں؟ ۔ امن کا علم لے کر اٹھو۔ اپنا تو منشور ہے غالب سارے جہاں سے پیار کرو۔

    ہم نے پاکستان کو سائنسی، سماجی اور عوامی فلاح کی راہ پر ڈالنے کے بجائے کبھی جاگیرداری کو مضبوط کیا، کبھی سامراجی آلہ کار کے طور پر استعمال ہوئے اور کبھی مارشل لاء کے ذریعے مذہب کو سیاست سے منسلک کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ جب کہ مغرب اور مشرق بعید نے اس سے چھٹکارہ حاصل کرلیا ہے۔

    ابھی حال ہی میں سوڈان کی حکومت کی کابینہ نے توہین رسالت کا قانون تعلیمی اداروں میں پڑھائی جانے والی کتابوں میں مذہبی نصاب، سیاست میں مذہب کی مداخلت کے خاتمے کے لیے قانون منظور کیا ہے۔ اب اسے منظور کرانے کے لیے اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔ سوڈان میں مارشل لاء ایک دہائی تک مسلط رہا اور اس نے عوام پر اپنا اسلام مسلط کر رکھا تھا۔ اب نئی حکومت نے پرانی باقیات کو اکھاڑ پھینکا ہے۔

    جب کہ ہمارے ہاں ہمیشہ عوام پر اس کی باقیات کو مسلط کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ اب ضرورت آن پڑی ہے کہ ملک کو ایک فلاحی جمہوری مملکت بنانے کی جانب توجہ دی جائے۔ اس لیے بھی یہ ضروری ہے کہ ہماری معیشت دیوالیہ ہونے کی جانب گامزن ہے۔ بھوک، بے روزگاری اور مہنگائی نے عوام کا جینا دو بھر کردیا ہے، مگر یہ سلسلہ زیادہ دیر تو نہیں چل سکتا۔ کرپشن کے معاملے پر کراچی کو وفاق کے حوالے کرنے کی دھمکی دیکر پھر آپس میں حصے بکھرے کرنے پر راضی ہونے والوں کو چاہیے کہ کچھ عوام کی فلاح کی طرف توجہ دیں۔