غیر طبقاتی نظام میں ذاتی ملکیت یا جائیداد کا تصور نہیں ہوتا، اس لیے طبقاتی تضادات بھی نہیں ہوتے۔ سرمایہ دارانہ نظام عوام کو ایک حد تک جینے کا سہارا دیتے ہوئے عوام کی فلاح و بہبود نہیں بلکہ منافع میں اضافہ کرنا ہوتا ہے۔ اسی لیے کروڑ پتی، ارب پتی اور کھرب پتی بنتے جاتے ہیں۔ دوسری جانب بھوک، بے روزگار اور افلاس زدہ لوگوں میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ طاقتور ممالک کمزوروں کی دولت، وسائل، زمین اور معدنیات پر قبضہ کرتے رہتے ہیں۔
یہ طاقت اسلحے کے بل بوتے پر دوسروں پر مسلط ہوتی ہے۔ جن کے پاس زیادہ اور جدید اسلحہ ہوتا ہے وہی اکثر فاتحین کہلاتے ہیں۔ فاتحین جب حملہ آور ہوتے ہیں تو قتل عام کرتے ہیں، ریپ کرتے ہیں اور وسائل کو لوٹتے ہیں۔ سرمایہ داری میں جمہوریت اور آزادی کا راگ تو الاپا جاتا ہے لیکن حقیقتً اس کے برعکس ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام میں اگر آزادی ہے تو صرف سرمائے کو آزادی ہے، منافع بٹورنے کی آزادی ہے اور ارب پتیوں کو حکمران بننے کی آزادی ہے، اگر کہیں غریب آدمی اقتدار میں آجائے تو دنیا بھر کے سرمایہ دار اتحاد بنا کر اس کے خلاف سازشیں کرتے ہیں، مزاحمتی قوتوں کو رقوم فراہم کرکے اس کا دھڑن تختہ کردیتے ہیں۔ یہ صورتحال آج ساری دنیا میں سب کے سامنے عیاں ہے۔
امریکا میں اگر سیاہ فام جارج فلوئیڈ کی قتل کی جگہ، کوئی وزیر یا بادشاہ قتل ہوتا تو قیامت برپا ہو جاتی۔ اس لیے کہ جارج ایک معمولی شہری تھا۔ اگر احتجاج ہوا بھی تو ادھورا اور جزوی طور پر ان کے مطالبات مانے گئے۔ جب کہ روس، فرانس یا جرمنی کے شہنشاہ قتل ہوئے تو دنیا بھر میں نہ جانے کیا کچھ تبصرے اور اظہار خیال ہوا۔
معروف انقلابی خاتون دانشور ایماگولڈن مان نے درست کہا تھا کہ "انتخابات سے مسائل حل ہوتے تو حکمران کب کے انتخابات پر پابندی لگا چکے ہوتے۔" امریکا میں بڑی جمہوریت اور آزادی کی بات کی جاتی ہے۔ مگر دو پارٹیوں کے علاوہ کوئی اور پَر نہیں مار سکتا۔ اس پر اتنی حد بندی، قاعدے قوانین اور شرائط درج ہیں کہ ایک معمولی محنت کش صدارتی، سینیٹ یا کانگریس کے انتخابات میں حصہ لینا تو درکنار تصور بھی نہیں کرسکتا ہے۔
امریکا میں کئی صدیوں سے نام نہاد آزادی حاصل کرنے کے بعد آج تک مقامی ریڈ انڈین، سیاہ فام، لاطینی اور مہاجرین کو حقوق نہیں ملے۔ وہ آج بھی در بدر ہیں۔ وہ تعلیم، صحت، رہائش، بجلی، روزگار اور آزادی سے محروم ہیں۔ یہی صورتحال فرانس، جرمنی، جاپان، جنوبی کوریا، چین اور آسٹریلیا کی ہے۔ آج بھی نیوزی لینڈ، کینیڈا سمیت 30 ریاستیں تاج برطانیہ کے ماتحت ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ نیوزی لینڈ، آسٹریلیا اور کینیڈا کی مقامی آبادی کو کسی قسم کی آزادی حاصل نہیں ہے، اس کے برعکس ان سے ان کی ہزاروں سال کی آزادی، اجتماعی زندگی، اجتماعی جائیداد، رہائش اور جنگلات و آبی وسائل کو ان سے چھینا گیا اور دوسرے درجے کا شہری بنا کر رکھا گیا ہے۔ ہندوستان بھی دنیا کا بڑا جمہوریت پسند اور سرمایہ دارانہ نظام رکھنے والا ملک ہے۔
جہاں کروڑوں اچھوتوں کے ساتھ غلاموں کی طرح برتاؤ کیا جاتا ہے۔ قتل کیا جاتا ہے، اغوا کیا جاتا ہے اور ان سے بے گار لی جاتی ہے۔ چین بھی بہت بڑا سرمایہ دار ملک ہے جہاں کروڑوں لوگ بے روزگار ہیں۔ پاکستان عالمی سرمایہ دارانہ نظام کا ایک مختصر سا حصہ ہے، اس لیے اس پر سرمایہ داری کے اثرات اور تسلط ناگزیر ہے۔ ہماری معیشت نہ ترقی یافتہ، سرمایہ داری ہے اور نہ قدیم جاگیرداری۔ ہم صنعتی اور زرعی پیداوار درآمد کرتے ہیں۔ ہرچندکہ زمین، جنگلات اور آبی وسائل و معدنیات سے مالا مال ہے۔ چونکہ زراعت اور صنعتوں میں جاگیرداروں اور سامراجی آلہ کار سرمایہ داروں کا غلبہ ہے۔
اس لیے ہماری معیشت بھی چوں چوں کا مربہ ہے۔ اس لیے ہماری سیاست بھی چوں چوں کا مربہ ہے۔ پاکستان میں جتنی سیاسی جماعتیں ہیں کوئی بھی مستقل مزاجی اور اپنے اصولوں پر قائم نہیں رہتی۔ کبھی اس شاخ سے اس شاخ پر اور کبھی اس گھونسلے سے اس گھونسلے پر آشیانے بدلتے رہتے ہیں۔ یہ کام پاکستان بننے کے بعد ہی شروع ہو گیا تھا خاص کرکے 1954 کے بعد سے۔ 1954 میں مشرقی پاکستان میں عام انتخابات ہوئے جس میں جگتو فرنٹ یعنی متحدہ محاذ نام سے حزب اختلاف کی پارٹیوں کا اتحاد بنا تھا۔ کل نشستیں 309 تھیں۔ مسلم لیگ کو 9 نشستیں ملی تھیں۔ جب کہ کمیونسٹ پارٹی براہ راست اپنے ٹکٹ سے چار اراکین منتخب ہوئے۔ یہ چاروں ہندو کمیونٹی سے تعلق رکھتے تھے اور مسلم اکثریتی علاقوں سے جیتتے تھے۔
اس کے علاوہ دیگر پارٹیوں میں جو کمیونسٹ کام کرتے تھے وہاں سے 22 امیدوار کامیاب ہوئے۔ اس طرح سے کمیونسٹ پارٹی نے 26 نشستیں حاصل کیں۔ پھر متحدہ محاذ کی حکومت قائم ہوئی۔ چند ماہ بعد اس حکومت کو توڑ دیا گیا۔ وزیر اعلیٰ کو نظربند کردیا گیا۔ اور گورنر راج قائم کردیا گیا۔ 1954 میں ہی کمیونسٹ پارٹی پر بھی پابندی لگا دی گئی اور حکم نامہ جاری کیا گیا کہ ٹریڈ یونین میں صرف غیر کمیونسٹ کام کرسکتے ہیں۔ یہ غیر جمہوری طریقہ کار آج تک جاری ہے۔ جنرل ایوب خان نے مارشل لا نافذ کرکے ساری سیاسی پارٹیوں پر پابندی لگا دی، پھر جنرل ضیا الحق نے منتخب حکومت کا خاتمہ کرکے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل کرایا۔ پھر نواز شریف کی منتخب حکومت کا خاتمہ کیا گیا اور پرویز مشرف ملک کے حکمران بن گئے۔
مسلم لیگ سے نکل کر ذوالفقار علی بھٹو نے پی پی پی بنائی، جنرل ضیا الحق کی مدد سے نواز شریف نے اپنی حکومت بنائی، پھر جنرل پرویز مشرف نے (ق) لیگ کو اپنے ساتھ شامل کرکے حکومت بنائی اور اب تحریک انصاف نے بھی حکومت اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ تحریک انصاف میں پی پی پی، مسلم لیگ اور دیگر بورژوا (سرمایہ دار)جماعتوں کے رہنما اور کارکنان شریک ہوئے ہیں۔ ویسے تو حکومت چلانے کے لیے اہم عہدوں پر فائز اراکین درآمد شدہ ہیں۔ یہ بھی کوئی نئی بات نہیں ماضی میں بھی ایسا ہوتا آیا ہے۔ یہ سب اچھنبے کی بات نہیں بلکہ سرمایہ دارانہ نظام کا ناگزیر حصہ ہے۔ اس لیے سرمایہ داری نظام کو اکھاڑ پھینکے بغیر کوئی مسئلہ حل نہیں ہو سکتا ہے۔