سیاست معیشت کا مجتمع ہوتا ہے۔ ہمارا موجودہ عالمی اور داخلی سماجی ڈھانچہ سرمایہ دارانہ معیشت ہے۔ سرمایہ داری کا بنیادی ہدف منافع میں اضافے کے سوا اورکچھ نہیں۔ دنیا کی ساڑھے سات ارب کی آبادی کی ضرورت کی غذا نہ صرف موجود ہے بلکہ دس ارب آبادی کو کھلا کر بھی بچ سکتی ہے۔
تو پھر غربت، افلاس اور بھوک سے ہزاروں لوگ کیوں مر رہے ہیں؟ اس لیے کہ سرمایہ دار اپنے منافع میں اضافے کے لیے بڑے پیمانے پر اجناس کی ذخیرہ اندوزی کرتا ہے۔ جب بازار میں اجناس کی کمی کی وجہ سے طلب بڑھتی ہے تو سرمایہ دار قیمتوں میں اضافہ کردیتا ہے، جس کے نتیجے میں اسے زیادہ منافع ملتا ہے۔ سرمایہ دار فی منٹ کھربوں ڈالر صرف اشتہار بازی پر خرچ کرتا ہے۔
جب دس کھرب ڈالر اشتہار پر خرچ کرتا ہے تو یقینا سو ارب ڈالرکماتا بھی (لوٹتا) ہے، جس میں صارفین کو انسانیت کی معراج بتایا جاتا ہے اور صارفین کی نفسیات کے ساتھ اس طرح کھیلا جاتا ہے کہ وہ چیز اسے اپنی زندگی کی سب سے بڑی ضرورت لگنے لگ جاتی ہے۔ بار بار چیزیں خریدنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے سے موجود چیزکو بیکار اور دقیانوسی بتایا جائے۔ سو روپے کی خریداری پر ایک روپیہ کی خیرات وغیرہ کے فلاحی کام دکھا کر ایک انسان کو دوسرے انسان کی مدد کرنے کی ارتقائی خوبی اور جذبے کا استحصال کیا جاتا ہے۔ مذہبی تہواروں پر بھی روحانیت کی بجائے صارفیت ہی زیادہ نظر آتی ہے۔
جانوروں کی قربانی کر کے گوشت تقسیم کرنے کا درس دینے والے تہوار میں لوگوں کو ڈیپ فریزر خرید کر گوشت ذخیرہ کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ لوگوں میں صارفیت کو بڑھاوا دینے کے لیے بڑے بڑے اداکاروں کو بلا کر ان کے ہاتھوں سے گوشت میں خیرات ( اپنے پروڈکٹ) تقسیم کروائی جاتی ہے۔ جو ایک طرف خیرات کی تہذیب کو فروغ دیتے ہیں تو دوسری طرف ان اداکاروں کے لباس اور انداز کو لوگوں کے سامنے بڑھا کر پیش کیا جاتا ہے تا کہ لوگوں میں ویسے ہی دکھنے میں جنون پیدا کیا جا سکے۔
اشیا کو ایک بار استعمال کر کے کچرے کے ڈبے میں پھینک دیا جاتا ہے اور یہی چیز پھر خرید لی جاتی ہے۔ سرمایہ دارانہ سماج جتنے بھی ترقی یافتہ ہیں یہ مسئلہ اسی قدر سنگین ہے۔ تلف پذیر اشیا کی پیداوار کی جاتی ہے تا کہ منڈی میں دوبارہ مانگ بتائی جا سکے۔ اگر یہ ہیرا پھیری معیشت میں ہے تو سیاست میں بھی ایسا ہی ہونا لازم و ملزوم ہوتا ہے۔
چونکہ عوام کے پاس مسلم لیگ(ن) اور پی پی پی کے علاوہ کوئی متبادل نہیں ہے اگر ہے بھی تو وہ ناقابل دید ہے۔ اس لیے لوگوں نے مجبوراً تحریک انصاف کو متبادل کے طور پر ووٹ دیا۔ اس کے سبز باغ دکھانے اور جھوٹے وعدوں پر یقین کر کے ووٹ بھی دیا۔ اب صورتحال مہنگائی کے اضافے سے بے نقاب ہو گئی ہے۔ حکومت آئی ایم ایف کی غلامی سے کھسکنے کی بجائے مزید الجھتی جا رہی ہے۔
حکومت مہنگائی پر سرسری بات کر کے گزر جاتی ہے اور کشمیر، کرتار پور راہداری، ٹرمپ اور چین کے سربرابوں سے ملاقات، نواز شریف، آصف زرداری اور اداروں کو ایک پیج پر رہنے کی باتوں کی تفصیل میں ہر وقت اور ہر موقع پر زیر بحث لائی جاتی ہے جس میں لوگ اپنے اصلی مسائل پر ردعمل کرنے سے دور رہیں۔ درحقیقت مودی، عمران، ٹرمپ، بورس اور میکرون کی وجہ سے عالمی معیشت یا سیاست میں تبدیلی نہیں آ رہی ہے بلکہ عالمی سرمایہ داری کی انحطاط پذیر معاشی اور سیاسی نظام کے یہ بدنما گھاؤ ہیں۔ اگر کشمیر میں ہزاروں لوگوں کا قتل عام ہو رہا ہے تو شام، عراق، یمن، افغانستان اور پاکستان میں بلوچستان اور وزیرستان میں لاکھوں لوگوں کا قتل عام ہو رہا ہے۔
نواز شریف، مریم نواز کے لب و لہجے میں جو تبدیلی آئی ہے یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ عمران خان کی طرح سب ہی یوٹرن لیتے رہتے ہیں۔ زیادہ عرصے کی بات نہیں پہلے سینیٹ کے الیکشن میں پی پی پی نے رضا ربانی کو رد کیا تو دوسرے میں حاصل بزنجو کو مسلم لیگ (ن) نے رد کیا۔ دونوں عوامل میں فرق اتنا ہے کہ پہلے میں پی پی پی نے پی ٹی آئی کا ساتھ دیا اور بعد میں ایم ایل این کے سولہ افراد نے درپردہ پی ٹی آئی کا ساتھ دیا۔ وزیر اعظم اور صدر کے انتخابات کے وقت پی پی پی نے ایم ایل این کا ساتھ نہیں دیا اور اب جے یو آئی کے دھرنے میں ایم ایل این اور پی پی پی نے تقریر کے علاوہ جے یو آئی کا ساتھ نہیں دیا۔ ادھر پی ایم ایل (این) نے ایک حد تک فائدہ حاصل کیا جب کہ پی پی پی فائدہ لے جانے کے لیے جلسے کرتی پھر رہی ہے۔
مولانا فضل الرحمن کے پشت پہ لگتا ہے کہ اندرون اور بیرون ملک کی کچھ طاقتیں موجود ہیں۔ اسی لیے ان کے مظاہرین پر لاٹھی چارج کی بجائے نگہداشت کی جا رہی ہے۔ مولانا بھی آزادی، استعفیٰ اور الیکشن کے علاوہ عمران خان کی طرح مہنگائی پر سرسری بات کرتے جا رہے ہیں۔ اگر وہ آٹا، دال، تیل، چاول، گھی، دودھ، چینی اشیا خورونوش کی قیمتوں میں کمی کے مسئلے پر ایکواڈور، چلی، لبنان، عراق اور انڈیا کی طرح اڑ جائیں اور اسی مسئلے کو درجہ اول کا مسئلہ بنا کر تحریک چلائیں اور ملک گیر ہڑتال کی کال دیں تو پورے ملک کے عوام سڑکوں پہ امڈ آئیں گے، مگر وہ ایسا کر نہیں سکتے۔
اس لیے کہ انھیں یہ پتہ ہے کہ یہ مہنگائی سرمایہ داری کی برائی نہیں بلکہ یہ اس نظام کا ناگزیر نتیجہ ہے۔ کون سا ایسا دور ہے کہ اس دور کے بعد کے آنے والے دور میں مہنگائی نہ بڑھی ہو۔ اس نظام میں رہتے ہوئے اگر مہنگائی میں کمی کی جانب قدم اٹھانا ہے تو ہمیں نجکاری کو روک کر اداروں اور مل کارخانوں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کو قومی ملکیت میں لینا ہو گا۔ دفاعی اور دیگر غیر پیداواری اخراجات میں کمی لانی ہو گی۔ انقلابی جرأت ہو تو آئی ایم ایف کے قرضوں کو بحق سرکار ضبط کرنا ہو گا۔ مولانا چونکہ یہ سب کچھ نہیں کر سکتے اور نہ کریں گے اس لیے ناموس رسال، کرتار پور راہداری اور حج پر باتیں کر کے اپنے کارکنان کو مظاہرے میں روک رکھا ہے۔
بہر حال یہ سب کچھ سرمایہ دارانہ نظام کی اٹکھیلیاں ہیں۔ کچھ عرصے بعد فریقین میں سمجھوتا ہو جاتا ہے یا پھر معمولی جھڑپ کے بعد قصہ تمام ہو جاتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کو جھٹکا تو پہنچتا ہے مگر پھر سے وہ کمر سیدھی کر کے کھڑا ہو جاتا ہے۔ عوام کے مسائل کا واحد حل ایک غیر طبقاتی اور امداد باہمی کے آزاد سماج میں مضمر ہے۔ اس کے سوا سارے راستے بندگلی میں جاتے ہیں۔ یورپ، امریکا، جنوبی کوریا، چین اور جاپان کی مثالیں تو دی جاتی ہیں لیکن وہاں کے مزدوروں سے اتنا کام لیا جاتا ہے کہ جیسے خون نچوڑا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فرانس، جنوبی کوریا اور ہانگ کانگ کے محنت کش سراپا احتجاج ہیں۔