صرف ایک کورونا وائرس نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا اور ایک بھی کر دیا ہے۔ اس وقت یورپ، امریکا، اس کی شدید لپیٹ میں ہیں جب کہ جنوبی امریکا، کیریبین ممالک، روس، جنوبی افریقہ، وسطی افریقہ اور ایشیا کی حالت اس حد تک بدتر نہیں یا پھر کنٹرول میں ہے یا پھر تعداد گھٹ رہی ہے۔ ہرچندکہ ان ملکوں کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں اور ان میں بیش تر ممالک پسماندہ ملکوں میں شامل ہوتے ہیں۔
امریکا کے پاس ہزاروں ایٹم بم ہیں جب کہ ضرورت کے لحاظ سے وینٹی لیٹر میسر نہیں ہیں، یہی حال پاکستان کا ہے اسلحہ کی پیداوار میں دنیا کے ٹاپ ٹین میں شامل ہے لیکن وینٹی لیٹر صرف دو سو ہیں۔ کیوبا ایک کروڑ کی آبادی والا ملک ہے۔ اس کے اپنے ہاں تقریبا ڈیڑھ سو افراد متاثر ہیں چار کی اموات بھی ہو چکی ہے، اس کے باوجود اس کے ہزاروں ڈاکٹرز اسپین، اٹلی، ایران، پرتگال سمیت متعدد ممالک میں کوروناوائرس کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں۔
اس کے علاوہ اس کی حکومت نے یہ اعلان کیا ہے کہ کوئی بھی حکومت ہم سے درخواست کرے تو ہمارے ڈاکٹرز خدمات کے لیے جانے کو تیار ہیں۔ اس وقت پہلے سے نوے ملکوں میں پینتیس ہزار کیوبن ڈاکٹرز خدمات انجام دے رہے ہیں۔
روس اور چین میں ہرچندکہ سوشل ازم کا انہدام ہوچکا ہے، اس کے باوجود وہاں کا سماجی ڈھانچہ سوشلسٹ باقیات سے منسلک ہے، اس لیے وہ اس مرض کا مقابلہ کر رہے ہیں اور اسے خاصی حد تک محدود کر دیا ہے۔ چین کا میڈیکل عملہ بیاسی ملکوں میں بشمول اٹلی، ایران میں خدمات انجام دے رہا ہے۔ سوشلسٹ کوریا نے کورونا فری ہونے کا اعلان کر دیا ہے۔ نیپال میں کمیونسٹ پارٹی کی حکومت ہے وہاں بھی احتیاط کے ذریعے حکومت نے قابو پالیا ہے۔
ان کے علاوہ سابق سوشلسٹ ممالک منگولیا، ویت نام، کمبوڈیا، لائوس، زمبابوے، موزمبیق، نومیبیا، گمبیا، زمبیا میں دو چار کیسز آئے ہیں۔ ارجنٹینا، بھارت، جنوبی افریقہ میں مکمل لاک ڈائون کرنے سے مثبت اثرات پڑ رہے ہیں۔ بنگلہ دیش ہماری طرح ہی پسماندہ ہے لیکن وہاں پچاس سے بھی کم لوگ متاثر ہوئے ہیں، ایران نے بھی پہلے کے مقابلے میں کم لوگ متاثر ہو رہے ہیں۔ روس نے اٹلی میں خدمات کے لیے اپنی میڈیکل ٹیم بھیجنے کا اعلان کیا ہے جس پر اٹلی کی حکومت نے خیر مقدم کیا ہے۔
امریکا نے ایران کو مدد کی پیش کش کی ہے جسے ایران نے مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم پر اقتصادی اور تجارتی پابندی کا خاتمہ کیا جائے۔ شام اور لیبیا میں مختصر نقصانات شروع ہوتے ہی انھوں نے مکمل لاک ڈائون کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ بھارت نے صرف پینتالیس افراد کی موت پر تین ہفتے کے لیے مکمل لاک ڈائون کر دیا ہے۔ سارے مندر، مسجد، گردوارے اور گرجا گھروں میں عبادت کرنے پر پابندی لگادی ہے۔
ہمارے وزیراعظم مکمل لاک ڈائون کرنے پر اب تک فیصلہ نہیں لے پائے۔ پہلے سے احتیاطی تدابیر اختیار نہ کرنے پر نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ چین، جاپان، جنوبی کوریا اور ویتنام خاطر خواہ قابو پارہے ہیں۔ ادھر چین نے یہ اعلان کیا ہے کہ اس وائرس سے جتنے لوگ مارے گئے ہیں، فضائی آلودگی کی کمی سے جہاں اس سے زیادہ مر رہے تھے اس میں خاطر خواہ کمی آئی ہے۔ جن سرمایہ دار ممالک نے عطیات دینے کا اعلان کیا ہے وہ اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ہے۔
یہ ممالک روزانہ اربوں روپے خرچ کر کے اسلحہ کی پیداوار کرتے ہیں اور پھر انھیں کام میں لینے کے لیے میدان جنگ تیار کرتے ہیں۔ ایسے میدان آج بھی یمن، عراق، شام، لیبیا، افغانستان اور پاکستان کو بنا رکھا گیا ہے۔ کورونا وائرس کے سلسلے میں اس وقت ٹرمپ اور عمران کا یوٹرن والا طریقہ کار ملتا جلتا ہے۔ ٹرمپ کبھی چینی وائرس کہتے ہیں تو اسی طرح عمران خان کبھی لاک ڈائون کی حمایت کرتے ہیں تو کبھی انتظار کرنے کو کہتے ہیں۔ فضا میں کاربن کی مقدار کم ہونے سے ماحولیاتی آلودگی کم ہوئی ہے۔ اوزون کی تہوں میں بہتری آرہی ہے۔ جس سے چرند، پرند اور آبی حیات میں خوشی کی لہر آ گئی ہے۔
اوڑسہ سمیت دنیا بھر میں لاکھوں کچھوے ساحل سمندر پہ آنے لگے ہیں۔ پرندے چہچہانے اور چرندے اچھل کود کرنے لگے ہیں۔ اپنے فوجیوں کو بچانے کے لیے واپس بلایا جارہا ہے۔ امریکا نے تو عراق میں موجود قیارہ کے فوجی اڈے سے فوج کو واپس بلانا شروع کر دیا ہے۔ آنے والے دنوں میں دنیا بھر سے سامراجیوں کو اپنے فوجی اڈے ختم کرکے تمام فوج کو واپس بلانا ہوگا۔
دنیا بھر سے قیدیوں کی رہائی عمل میں آرہی ہے۔ اب تک سوڈان، ایتھوپیا، ایران، مصر، پاکستان سمیت متعدد ممالک نے لاکھوں قیدیوں کو رہا کر دیا ہے اور مزید قیدیوں کو رہا کرنا ہوگا۔ اسی طرح سے مزدوروں کی قوت محنت کو ایک حد تک برقرار رکھنے کے لیے جس میں پیداوار ٹھپ نہ ہو جائے اس لیے انھیں زندہ رکھنا ہوگا اور زندہ رکھنے کے لیے کھانا بھی دینا ہوگا۔
یہ کام برطانیہ نے شروع کر دیا ہے، برطانیہ کی حکومت نے لاک ڈائون کی وجہ سے جو مزدور بے روزگار ہو رہے ہیں انھیں تنخواہ کی اسی فیصد رقم ادا کی جائے گی۔ اب دنیا میں لگژری، فالتو، غیر ضروری اور عیاشی والے ساز و سامان کی پیداوار بند کر دیں گے۔ فضائی آلودگی میں کمی آنے سے دنیا میں در آنے والی مہلک بیماریاں ختم ہونے کی جانب جائیں گی اور دنیا اپنی فطری ماحول کی جانب واپس جائے گی۔
اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ اموات ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے ہو رہی ہے۔ دوسری مہلک بیماریوں کا علاج دولت والے کر وا لیتے ہیں مگر غریب نہیں کروا پاتے۔ جگر، گردے کی پیوند کاری اور کینسر کا علاج بیرون ملک میں ہو جاتا ہے مگر غریب آدمی اس کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتا۔ جب کہ کورونا وائرس کا چونکہ کوئی علاج نہیں ہے اس لیے سب کو یکساں احتیاط پر ہی گزارا کرنا ہوتا ہے اور اس کے حملے سے صدر، وزیر اعظم، بادشاہ، امیر سب متاثر ہو سکتا ہے اس لیے یو این او، ورلڈ بینک اور حکمرانوں میں بھی کھل بلی مچی ہوئی ہے۔
دفاع پر بے تحاشہ اخراجات کرنے والوں کے پاس احتیاط کرنے کے لیے رقوم نہیں ہیں۔ کھربوں ڈالر روزانہ اسلحے کی پیدوار پر خرچ کیے جاتے ہیں مگر انسان کو بچانے کے لیے دفاعی اخراجات کو ختم نہیں کیا جاتا۔ عمران خان کہتے ہیں کہ امریکا اور یورپ جیسے ممالک اگر اس مرض پر قابو نہیں پارہے ہیں تو پاکستان ایک پسماندہ ملک کیوں کر قابو پاسکتا ہے۔ وہ ان پسماندہ ملکوں کی مثال نہیں د یتے جن کے پاس وسائل نہ ہونے کے باوجود وہ صرف احتیاط کے ذریعے قابو پا رہے ہیں۔ جن میں نیپال، بھوٹان، کمبوڈیا، لائوس شمالی کوریا، کیوبا، منگولیہ وغیرہ شامل ہیں۔
ہم بھی اگر سختی سے احتیاطی تدابیر اختیار کریں اور دفاعی اخراجات کو صحت اور تعلیم پر لگا دیں تو سارا مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔ ماحولیات کے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اگر اسی طرح ماحولیات میں بہتری آتی رہی تو دنیا کی ماحولیات سو فیصد درست ہو سکتی ہے۔