معروف روسی فلسفی اور دانشور لیوٹالسٹائی نے 1906 میں کہا تھا کہ "سائنس اور ٹیکنیکل ترقی کو روکے بغیر انسانوں کو برابری پر نہیں لایا جاسکتا" اس کے علاوہ یہ بھی کہا تھا کہ " روسی عوام اب اتنے باشعور ہو چکے ہیں کہ ریاست کے بغیر بھی کارہائے زندگی کو رواں رکھ سکتے ہیں " انھوں نے 1917 کے انقلاب روس سے قبل ہی ماسکو سے 72 میل مغرب میں کمیون نظام قائم کیا تھا، جسے بعد کے حکمرانوں نے بزور قوت ختم کیا۔
آئیے! آج کی دنیا کی ترقی کا جائزہ لیتے ہیں، ہزار منزلہ عمارت تعمیر ہوئی ہیں۔ چند کھرب پتی آدھی دنیا کے وسائل پر قابض ہیں۔ چند سامراجی قوتوں نے ہتھیاروں کے بل بوتے پر ساری دنیا کو یرغمال بنایا ہوا ہے۔ ایک جانب روزانہ ارب پتیوں میں اضافہ ہو رہا ہے تو دوسری جانب روزانہ صرف بھوک سے ڈیڑھ لاکھ انسان لقمہ اجل ہو رہے ہیں۔
ایک اخباری رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں صرف ایک روز میں 1019 افراد انھیں سائنسی ترقی کے دوران جان سے جاتے رہے، جب کہ دنیا کے 10 بڑے جنگلوں سمیت تمام جنگلوں میں کوئی قدیم انسان نہیں مرا۔ اگر کوئی کہتا ہے کہ اسکینڈینیوین ممالک میں تو ایسا نہیں ہے۔ یکم صدی میں لوٹ مار کو دیکھنا ہوگا۔ جب ناروے کے بحری قذاق خانہ بدوش نے بریٹون (موجودہ برطانیہ) پر حملہ کیا اور وہاں کے لاکھوں مقامی آبادی کا قتل عام اور نسل کشی کی، ان کے وسائل کو لوٹا۔ اب اس لوٹ کے مال سے وہ مہذب اور ترقی یافتہ بن گئے ہیں۔
یہی صورتحال سوئٹزرلینڈ کی ہے جہاں سوئٹزرلینڈ کی 50 فیصد دولت کے مالک 1فیصد لوگ ہیں وہیں باقی 50 فیصد دولت کے مالک 99 فیصد لوگ ہیں۔ دنیا کے تمام لٹیروں کی دولت یہیں جمع ہوتی ہے اور انھیں یہ قانونی حق حاصل ہے۔ یہاں خواتین کو ووٹ ڈالنے کا حق 1973 میں حاصل ہوا۔ یہ ترقی نہیں بلکہ ڈکیتی اور بدمعاشی ہے۔
اس طبقاتی نظام کو ختم کرنے کے لیے سائنسی اور تکنیکی ترقی کو روکنا ہوگا۔ ورنہ ایک جانب کھرب پتی بنتے جائیں گے اور دوسری جانب گداگروں کی فوج۔ ایک لمحہ کے لیے اگر جائزہ لیں کہ ہوائی جہاز کے سفر سے کتنا وقت بچتا ہے معدنیات سے عوام کی زندگی میں کتنی سہولیات حاصل ہوتی ہیں۔ یا میڈیکل سائنس کی ترقی سے کتنی جان بچائی جاتی ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہوائی جہاز وقت تو بچاتا ہے لیکن ایک مزدور اور کسان جس کی تنخواہ بقول سرکار کے 25 ہزار ہے (جب کہ ایسا عملاً نہیں ہے) تو کیا وہ ہوائی جہاز کا سفر کرلے گا؟ قطعی نہیں۔
دوسری جانب آج دنیا میں ہوائی جہاز بھی آلودگی پھیلاتے ہیں۔ اس سے خلا کی اوزون کا سراخ بڑھ رہا ہے۔ یہ انسانی، حیاتیات اور نباتیات کے لیے خطرے کی علامت ہے۔ معدنیات سے انسانوں کو سہولتیں تو ہوئی ہیں لیکن نقصانات زیادہ ہوئے ہیں۔ معدنیات کی کان کنی، اسے پگھلانے اور مینوفیکچرنگ سے طرح طرح کی نئی نئی بیماریاں پھیل رہی ہیں۔
جہاں معدنیات کا استعمال نہیں ہو رہا ہے بلکہ لکڑی، مٹی اور چونا کا استعمال ہو رہا ہے وہاں بیماریاں بھی کم ہو رہی ہیں۔ کیمیائی کھاد اور جراثیم کش کیمیائی ادویات کے استعمال سے پیداوار میں تو اضافہ ہوا ہے مگر اس کے سبب نئی نئی بیماریاں خاص کر کینسر، ایڈز اور ہیپاٹائٹس کی بیماریوں میں اضافہ ہوا ہے اور جہاں دیسی کھاد استعمال ہو رہی ہے جیساکہ کیوبا، میزورام، بولیویا، نیپال اور دیگر علاقوں میں وہاں ان مہلک بیماریوں کا خاتمہ ہو رہا ہے۔ میڈیکل سائنس کی ترقی سے صرف 10 فیصد دولت مند عوام ہی فائدہ اٹھا رہے ہیں باقی لوگ اس سے محروم ہیں۔ پاکستان میں 25000تنخواہ پانے والا مزدور کیا کینسر، ہیپاٹائٹس اور ایڈز کا لاکھوں کروڑوں روپے کا علاج کروا سکتا ہے؟ قطعی نہیں۔ پھر ایسی میڈیکل سائنس کی ترقی سے عوام کو کیا فائدہ؟ اس سے بہتر ہے کہ جڑی بوٹیوں یعنی ہربل کی ادویات جو سستی بھی ہیں ان سے کیوں نہ فائدہ اٹھایا جائے جس سے آفٹر اور سائیڈ افیکٹ سے بھی نجات پائی جاسکتی ہے۔
نیشنل جیوگرافک کی ایک تحقیق کے مطابق جنگلوں میں بسنے والے قدیم لوگوں میں سے 100 افراد کے خون کا ٹیسٹ کیا گیا۔ جس میں سے ایک بھی خون میں کوئی مہلک بیماریاں کولیسٹرو، ذیابیطس، ایڈز، ہیپاٹائٹس یا کینسر کے نمونے نہیں ملے۔ اس لیے کہ وہ ٹیکنیکل اور سائنسی ترقی سے ناآشنا ہیں۔ ملاوٹ کسے کہتے ہیں انھیں نہیں معلوم، آکسیجن شفاف ملتی ہے اور گاڑیوں کے بجائے روزانہ سیکڑوں میل شکار کے لیے پیدل چلنا پڑتا ہے۔ آج سائنس اور ٹیکنیکل ترقی کی وجہ سے طبقاتی خلیج میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے۔
کورونا، سائینیسز، ڈنگی، گلوریا اور کینسر وغیرہ نے ڈیرہ ڈالا ہوا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ سائنسی ترقی اور نئی نئی تکنیک کورس کو روک کر طبقاتی نظام کا خاتمہ کیا جائے۔ دنیا کو جنگل بنا دیا جائے، آلودگی پھیلانے کے تمام اسباب ہوئای جہاز، صنعتیں، پلاسٹک، ملاوٹ، شور اور کاربن سے پاک دنیا قائم کی جائے، دنیا میں ملکوں کی سرحدیں ختم کردی جائیں۔ سب مل کر پیداوار کریں اور مل کر بانٹ لیں۔ ایسے کمیون نظام کو تشکیل دینا ہوگا جہاں ہر ایک سب کا اور سب ہر ایک کا ہوگا۔ سائنسی اور تکنیکی ترقی ایسی ہو جو ماحولیات کو آلودہ نہ کرے۔ رنگ و نسل، قوم، قومیت، مذہب، فرقہ اور رنگ کی تفریق کا خاتمہ ہو جائے گا۔ عوام مسرتوں اور خوشحالی کی زندگی گزاریں گے، چہار طرف محبتوں اور بھائی چارے کے پھول کھلیں گے۔