Saturday, 02 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Talaba Ki Tabnak Jad O Jehad

Talaba Ki Tabnak Jad O Jehad

آج سے تقریبا سات ہزار سال قبل جب باقاعدہ درس گاہیں اور یونیورسیٹیاں نہیں تھیں تو نوجوان طلبہ اپنے بزرگ دا نشوروں، تجربہ کاروں، سائنسدانوں اور تخلیق کاروں کی رہنمائی میں سیکھتے اور تجربہ کرتے تھے۔

بقراط، سقراط، ارسطو، چار واک، ایپی کیورس، طوسی، ابن رشد اور عمر خیام وغیرہ کون سے اداروں، درس گاہوں یا یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کی تھی؟ وہ اپنے استادوں کی حویلیوں، درختوں کے سائے، پہاڑوں کے غاروں میں، بعد ازاں چار دیواری میں استادوں کی شاگردی میں سیکھنا سمجھنا شروع کیا۔

جب کاغذکی دریافت ہوئی تو اپنے خیالات اور مشاہدات کو لکھ کر محفوظ کرنا شروع کیا۔ اس تاریخی تناظر میں نہ جانے کتنے طلبہ کو نذر آتش کیا گیا، قتل کیا گیا، قید کیا گیا، اور الزام تراشی کی گئی کہ یہ معاشرے کوگمراہ کر رہے ہیں۔ برونیو، ہابس، ابو بکر الرازی، ابن رشد اور عمر خیام وغیرہ کو قتل، قید، جلا وطن اور نذر آ تش کیا گیا۔

مگر انھوں نے یہ سارا تشدد اور قید وبند بر داشت کرتے ہوئے اپنی جدوجہد جاری رکھی۔ دور جدید کی ابتدا میں جب کالج اور یونیورسٹیاں قائم ہوئیں تو طلبہ اپنے حقوق کے لیے متحد اور منظم ہونے لگے۔ عمر خیام نے جب ریاضی، جغرافیہ، الجبرا اور فلکیات کا تجربہ شروع کیا اور یونانی زبان سے عربی اور فارسی زبانوں میں ترجمہ شروع کیا اور ان کی کتابیں مدرسوں میں پڑھائی جانے لگیں تو رجعتی مذہبی علماء ان کے خلاف منفی پرو پیگنڈہ کرنے لگے۔

امام غزالی تو عمر خیام کی کتابوں کو مدرسوں میں پڑھانے پر پابندی لگا دی اور عمر خیام کی تحقیق گاہ کو ملاؤں نے آگ لگا دی پھر انھیں نیشا پور، خراساں سے جلا وطن کیا گیا، مگر جب طلبہ اکٹھے ہو کر پڑھنے لگے تو اپنے مطالبات منوائے اور سائنسی تجربات کو آگے بڑھایا۔

برصغیر میں جب امیر خسرو نے درسگاہوں میں موسیقی سیکھانا شروع کی تو بڑی مخالفت ہوئی۔ رابندر ناتھ ٹیگور نے جب شانتی نکیتن (جھگی کی شکل میں ) بنائی تو رجعتی براہمن، ملا اور پادری نے شدید مخالفت شروع کر دی، لیکن طلبہ نے اپنی احتجاجی تحریک کو جاری رکھا اور آزادانہ تخلیق کو پروان چڑھایا۔ پاکستان بننے کے بعد ہرچندکہ یہاں انگریزوں کے بنائے ہوئے کچھ کالج، یونیورسٹیاں اورہاسٹپلز موجود تھے، وہاں کتابوں کی جگہ گولہ بارود کا ڈھیر ہے۔

پاکستان بننے کے بعد بڑی تیزی سے طلبہ نے یونینز منظم کیں۔ جن میں خاص کر راولپنڈی، لاہور، پشاور اور کراچی میں بڑی بڑی عمارتوں پر مشتمل درس گاہیں آج بھی پاکستان کی بڑی اور معیاری درس گاہیں کہلاتی ہیں۔ ڈاؤ میڈیکل کا لج، ڈی جے سائنس کالج، این جے وی ہائی اسکول، ماما پارسی اسکول، سینیٹ جوزف اور سینٹ پال آج بھی اپنی تاریخی حیثیت بر قرار رکھی ہوئے ہیں۔ یہاں منظم طلبہ تنظیم ڈی ایس ایف (ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن) کے نام سے جدوجہد کرتی تھیں۔

اس وقت کے طلبہ رہنماؤں میں سے آج بھی پا کستان کے نامی گرامی شخصیات، سائنس داں، عالمی معیارکے پروفیسرز موجود ہیں۔ ڈی ایس ایف انیس سو اڑتالیس میں تشکیل پائی اور انیس سو باون میں اس پر حکمرانوں نے پابندی لگا دی، بعد ازاں این ایس ایف میں طلبہ کام کرتے رہے۔ اس وقت کے طلبہ رہنماؤں میں ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی، ڈاکٹر رحمن علی ہاشمی، ڈاکٹر رفیع کرمانی، ڈاکٹر سید ہارون احمد، ڈاکٹر منظور احمد، معراج محمد خان، بیرسٹر سید عبد الودود، اقبال علوی، فیض احمد فیض، فتحیاب علی خان، علی مختار رضوی وغیرہ نمایاں حیثیت رکھتے تھے۔ ان سب کا تعلق کمیونسٹ پارٹی آف پا کستان سے تھا۔

1983 تک طلبہ یونینیں اپنی درسگاہوں میں انتخابات میں حصہ لیتی تھیں۔ کلچرل، مباحثے، ایتھلیٹ، ادبی، سیمینار اور کھیلوں میں حصہ لیتے تھے، جس کے نتیجے میں تخلیق کار پیدا ہوتے گئے۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں انیس سو تراسی میں طلبہ یونین پر پابندی لگی پھر اس کے بعد سے طلبہ یونین بحال نہیں ہوئیں۔

پی پی پی اور مسلم لیگ ن کے ادوار میں بھی طلبہ تنظیموں کو بحال نہیں کیا گیا۔ طلبہ یونین پر پابندی کے بعد تعلیمی اداروں میں لسانی، فرقہ وارانہ، رنگ ونسل اور مذہب کے بنیاد پر طلبہ تقسیم ہو گئے اور مختلف اوقات کار میں فسادات بھی پھوٹ پڑے، جب کہ یہی طلبہ اپنے مطالبات کے لیے بندر روڈ (موجودہ ایم اے جناح روڈ) پر 1952 میں وزیر تعلیم کی گاڑی کراچی میں الٹ دی تھی اور اپنے مطالبات منوائے تھے۔ طلبہ یونین سالانہ یا کہیں دو سال بعد اپنی درسگاہوں میں انتخابات کرواتے تھے۔ انتظامیہ اور حکومت ان کے لیے فنڈز یا گرانٹس دیتی تھی جس سے طلبہ میگزین شائع کرتے، مباحثے کا انعقاد کرواتے، کھیلوں کا اہتمام کرواتے تھے۔

گزشتہ دنوں کراچی یونیورسٹی کے استاد پروفیسر شکیل احمد نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ جب طلبہ یونین پر پابندی لگی توکراچی یونیورسٹی کے آخری صدر وہ خود تھے اور اس وقت جم، لائبریری اور ٹرانسپورٹ کے انتظامات میں طلبہ نمائندوں کو حصے دار بنایا جاتا تھا مگر آج ہر جگہ تالے لگے ہوئے ہیں۔ ابھی حال ہی میں طلبہ یونین کی بحالی کے لیے ملک کے پچاس شہروں میں ہزاروں طلبہ نے احتجاجی مظاہرے کیے۔

بلاول بھٹو سمیت تقریبا سب ہی سیاستدانوں نے بحالی کی حمایت کی جب کہ وزیر اعظم عمران خان نے ضابطہ اخلاقیات کی لمبی چوڑی فہرست پیش کر دی۔ انھوں نے جب اپنی پارٹی کا طلبہ ونگ تشکیل دیا تھا تو کوئی ضابطہ اخلاق نہیں بنایا تھا۔ انھوں نے تو مزدور ونگ بھی بنایا تھا، جس میں مجھ سے بھی ایک بار خطاب کروایا گیا تھا اور دوسری بار ایپنک کے چیئرمین اورکمیونسٹ پارٹی کے کارکن شفیع الدین اشرف (مرحوم) سے خطاب کروایا گیا تھا۔ اس وقت بھی انھوں نے کوئی ضابطہ اخلاق نہیں بنایا تھا، اگر ضابطہ اخلاق بنانا ہے تو پھر ہر ادارے کا بنانا چاہیے۔

خواہ اسمبلی اراکین، عدلیہ کے ججوں، پولیس اور مدارس یا کسی بھی ادارے کا کیوں نہ ہو۔ ایک طرف وزیر اعظم طلبہ یونین کی بحالی کی حمایت کرتے ہیں تو دوسری طرف لاہور کے تین سو مظاہرین بشمول مشعال خان کے والد اقبال لالہ پر بھی غداری کے مقدمات قائم کرتے ہیں۔ اسی سلسلے کی کڑی کے طور پر تقریبا پندرہ طلبہ، نوجوان، ٹریڈ یونین، سیاسی پارٹیوں، سول سوسائٹی، دانشور، اساتذہ، انسانی حقوق کی انجمنوں نے کراچی پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس منعقد کی اور غداری کے مقدمات واپس لینے، گرفتار رہنماؤں کی رہائی اور طلبہ یونین کی بحالی کا مطالبہ کیا۔ اس پریس کانفرنس کروانے میں جنھوں نے حصہ لیا، ان میں نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن، ہوم بیس وومن ورکرز فیڈریشن اور نوجوان انقلابی تحریک، طلبہ سے یکجہتی کرتے ہوئے پیش پیش تھیں۔

خوش آئند بات یہ ہے کہ سندھ حکومت یونین کی بحالی کی منظوری دے دی ہے مگر ابھی تک سندھ حکومت نے کوئی نوٹیفیکیشن جاری نہیں کیا ہے، اگر طلبہ نے تمام شعبہ ہائے زندگی کے افراد کو اپنے ساتھ جوڑا اور جدوجہد کو جاری رکھی تو طلبہ یونین بحال ہوکر رہیں گی۔

ہر چندکہ مسائل کا مکمل حل ایک کمیونسٹ سماج یا امداد باہمی کے آزاد معاشرے میں ہی ممکن ہے جہاں کوئی ارب پتی ہو گا اور نہ کوئی گداگر۔ سب مل کرکام کریں گے اور مل کر کھائیں گے۔