Friday, 01 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Wo Jo Hum Se Bichar Gaye

Wo Jo Hum Se Bichar Gaye

3 اکتوبر 1983 میں ڈاکٹر تاج کو سر میں کرائے کے قاتل نے گولی مار کر شہید کردیا۔ انھیں ہم سے بچھڑے ہوئے 38 سال بیت گئے لیکن ان کے نظریات اور افکار آج بھی ہمارے ذہنوں میں محفوظ ہیں۔

ویسے تو وہ پیدا دیر میں ہوئے لیکن ان کی طالب علمی اور جوانی کا قابل ذکر وقت کراچی میں گزرا۔ انھوں نے گریجویشن کراچی سے کیا اور فیملی پلاننگ کے شعبے میں ملازمت اختیار کرلی چونکہ صحت کے شعبے سے ان کا تعلق تھا اس لیے لوگ انھیں "ڈاکٹر" کہنے لگے اور ان کا نام بھی ڈاکٹر تاج کے طور پر جانا جانے لگا۔ بعدازاں انھوں نے کراچی یونیورسٹی سے قانون کے شعبے سے ماسٹر کیا اور پھر وکالت بھی کرنے لگے۔

فرنٹیئر کالونی، کراچی میں عوام نے ایک تنظیم پختون ویلفیئر جرگہ بنائی۔ ڈاکٹر تاج بھی اس کے رکن تھے۔ بعدازاں ایک اجلاس میں انھوں نے ایک تجویز رکھی کہ ہم جب خدمت کے لیے اس تنظیم کی تشکیل کی ہے تو کیا پختون کے علاوہ دوسرے لوگ بھی اس سے فائدہ لے سکتے ہیں؟ تو سب نے اثبات میں جواب دیا۔ پھر اس تنظیم کا نام مزدور ویلفیئر جرگہ رکھ دیا گیا۔

اس تنظیم نے فرنٹیئر کالونی میں ایک عوامی لیٹرین قائم کی تھی جو اب بھی موجود ہے۔ ان عوامی خدمات کے ساتھ ساتھ سیاسی جدوجہد میں پیش پیش تھے، وہ اس سرمایہ دارانہ نظام کو بدل کر ایک غیر طبقاتی نظام قائم کرنے کے متمنی تھے، کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے سرگرم کارکن تھے۔

اس کے علاوہ وہ مزدور طلبا کسان عوامی رابطہ کمیٹی کے رہنما اور نیشنل پروگریسیو پارٹی کراچی کے کنوینر تھے۔ 1978 میں وہ اپنے آبائی ضلع دیر چلے گئے۔ وہاں مقامی عدالت تیمرگرہ میں وکالت شروع کردی۔ اپنے علاقے میران میں جو لوئر دیر کہلاتا ہے غریب لوگوں کا مفت علاج اور وکالت کرنے لگے جس کی وجہ سے علاقے میں بہت مقبول ہوگئے۔

اس علاقے کے رجعتی عناصر نے یہ خدشہ ظاہر کیا کہ کہیں ڈاکٹر محمد تاج اگر انتخابات میں حصہ لیا تو انھیں کامیابی حاصل نہ ہو جائے۔ جب کہ ڈاکٹر صاحب نے انتخابات میں حصہ لینے کا سوچا بھی نہیں تھا۔ اس خوف سے رجعتی عناصر نے کرائے کے قاتل کے ذریعے انھیں سرراہ گولی مار کر قتل کردیا۔

ڈاکٹر تاج آج ہم میں جسمانی طور پر نہیں ہیں لیکن ان کا نظریہ اور جدوجہد ہمارے لیے آج بھی مشعل راہ ہے۔ اس سے قبل 1960 میں حسن ناصر اور 1980 میں نذیر عباسی کو اذیت گاہوں میں تشدد کرکے شہید کردیا گیا تھا اور قاتلوں کو کوئی سزا نہیں ہوئی، مزدور طبقے کے دیرینہ ساتھی بابو موہن سہنوال گزشتہ دنوں کورونا کے موذی مرض میں مبتلا ہوکر ہم سے بچھڑ گئے۔ بابو ایم سنہوال 1973 سے مزدور طبقے کے حقوق کے حصول کے لیے جدوجہد کرتے رہے تھے۔

وہ 1973 سے 1977 تک سیکیورٹی پریس کی یونین میں سرگرم رہے۔ ان کے والد محترم موہن سہنوال بھی یونین کے ہمدرد تھے۔ سیکیورٹی پریس سے استعفیٰ دینے کے بعد ایک ایئرلائن میں یونین تشکیل دی اور کارکنان کی تربیت کی۔ بابو سہنوال نے پاکستان منارٹی پروگریسیو آرگنائزیشن نام کی ایک تنظیم تشکیل دی جس کے وہ خود سربراہ تھے۔ انھوں نے اس تنظیم کو منظم کرنے کے لیے اندرون سندھ حیدرآباد، میرپور، عمر کوٹ، اسلام پورہ، سکھر، خیرپور، سمارو کے علاوہ خیبر پختون خوا میں بھی اقلیتی محنت کشوں خاص کرکے خاکروبوں کو منظم کیا۔"کملا" کو اغوا کرنے اور جبری مذہب تبدیلی کے خلاف حیدرآباد میں کیے جانے والے زبردست مظاہرے میں پیش پیش تھے۔ وہ کمیونسٹ پارٹی کے رکن تھے اور مزدور طلبا کسان عوامی رابطہ کمیٹی میں بھی کام کرتے تھے۔

ضیا الحق کے بدترین مارشل لا کے دور میں جب یکم مئی پر مزدوروں کے جلوس پر پابندی لگی تو یکم مئی 1978 کو میراں ناکہ لیاری سے مزدوروں کا جلوس مزدور طلبا کسان عوامی رابطہ کمیٹی کی جانب سے نکالا گیا جس میں بابو ایم سہنوال نے شرکت کی۔ اس پاداش میں انھیں 5 کوڑے اور ایک سال کی قید کی سزا سنائی گئی۔ بعدازاں محنت کشوں کی جدوجہد کے نتیجے میں وہ چند ماہ بعد اسی جیل سے رہا ہوگئے۔ چند دنوں قبل وہ کورونا کے مرض میں مبتلا ہوگئے تھے اور پھر اسپتال میں جسمانی طور پر ہم سے جدا ہوگئے۔ مگر ان کا نظریہ اور جدوجہد کو ہم کبھی بھی بھلا نہیں سکتے۔

گزشتہ دنوں ایک سیاسی رہنما اس دنیا سے رخصت ہوگئے اور وہ تھے عطا اللہ مینگل۔ وہ نیشنل عوامی پارٹی کے رہنما تھے اور بلوچستان کے وزیر اعلیٰ بھی تھے۔ مجھے آج وہ بات یاد آتی ہے کہ 1973 میں سندھ کے وزیر اعلیٰ ممتاز بھٹو تھے، اور سندھی مہاجر جھگڑا ہوا تھا۔ اسی دوران کراچی شیریں منزل میں نیپ کا جلسہ تھا۔

جس میں عطا اللہ مینگل نے عوام سے مخاطب ہوکر کہا کہ کراچی میں گونگے رہتے ہیں؟ عوام نے جواب دیا "جی ہاں۔" پھر انھوں نے سوال کیا کہ وہ کون سی زبان بولتے ہیں، لوگوں نے کہا کہ " کوئی زبان نہیں بولتے۔" عطا اللہ مینگل نے کہا وہ "بھوک کی" زبان بولتے ہیں اور بھوک کو اشارے سے بیان کرتے ہیں۔ ہرچندکہ وہ ایک قوم پرست رہنما تھے مگر یہ مثال ایک طبقاتی مثال تھی۔ جب بلوچستان میں نیپ کی حکومت تھی تو شہنشاہ ایران نے پاکستانی حکومت (ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت) سے کہا کہ ہم اپنے پڑوس میں نیپ کی حکومت برداشت نہیں کرسکتے۔

اس کے بعد بھٹو نے بلوچستان میں نیپ کی حکومت کا خاتمہ کرکے گورنر راج قائم کردیا۔ جس پر احتجاجاً بلوچ نوجوان پہاڑی پر چلے گئے۔ نتیجتاً بے شمار بلوچ اور پشتون نوجوانوں کو بلوچستان میں گرفتار کیا گیا اور انھیں سخت سزائیں دی گئیں۔ بلوچستان کی حکومت کی برطرفی کے خلاف KPK کی حکومت خود مستعفی ہوگئی۔ مگر افسوس کی بات ہے کہ عطا اللہ مینگل کے انتقال پر حکمرانوں نے تعزیت کرنے میں دیر کردی۔

ہمارے حکمران طبقات غیر ملکیوں کی اموات پر فوراً تعزیت تو کرتے ہیں لیکن اپنے ملک کے سیاسی رہنما کے انتقال پر تعزیت کرنے پر تاخیر سے کام لیتے ہیں۔ کوئی عطا اللہ مینگل سے اختلاف کرے یا نہ کرے اس بات کو تسلیم کرنا ہی پڑے گا کہ مینگل صاحب ایک معروف جمہوری اور سیکولر رہنما تھے۔ یہ وہ بلوچستان ہے جہاں کے عوام ہمیشہ سب سے زیادہ استحصال کے شکار رہے ہیں۔ ہرچند کہ مسائل کا مکمل حل ایک غیرطبقاتی اشتمالی سماج میں ہی مضمر ہے۔