قوم اپنی اعلیٰ اقدار اور روایات کھو چکی اور اس میں ایک زوال پذیر معاشرے کی تمام خامیاں نشوونما پا چکی ہیں۔ زوال کی اس سے بڑی نشانی کیا ہو گی کہ ہم دنیا کی واحد قوم ہیں جو اپنی قومی زبان کو حقیر سمجھتے ہیں اور اپنے بچوں کواپنی تاریخ اورمذہب بھی غیر ملکی زبان میں پڑھاتے ہیں۔ والدین کے لیے یہ بات ذرا بھی تشویش کا باعث نہیں ہے کہ اکیسویں صدی میں پیدا ہونے والے بچّے اپنی قومی زبان اردو نہ پڑھ سکتے ہیں اور نہ لکھ سکتے ہیں۔
اپنی اولاد کی غلط انگریزی سن کر والدین فخر محسوس کرتے ہیں جو بدترین احساسِ کمتری کی نشانی ہے۔ جو نسل اردوزبان سے نا بلد ہے، وہ اپنی تاریخ اور آزادی کی تحریک سے بھی بے خبر رہی گی اور جس غیر ملکی زبان کو وہ برتر سمجھتی ہے، اُسی کی تہذیب اور معاشرت کی تقلید کر ے گی اور اسی کی غلامی کو اپنا عقیدہ اور ایمان بنا لیگی۔
اب بھی وقت ہے کہ اربابِ اختیار، والدین اور اہلِ قلم ایک بھرپور جدّوجہدکے ذریعے نئی نسل کو انگریزی کی ذہنی غلامی سے نجات دلا کر اردو کی جانب راغب کریں۔ اس سلسلے میں راقم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اردو زبان کے معروف تخلیق کاروں کی منتخب نگارشات قارئین سے گاہے بہ گاہے شئیرکرتا رہوں گا۔ آغاز آغا شورشؔ کاشمیری سے کیا جا رہا ہے۔ غالبؔ، اقبالؔ، اور فیضؔ کی شاعری پر بھی بات ہوتی رہے گی۔
شورشؔ کاشمیری کی شاعری بڑی جاندار اور نثر اس سے بھی کاٹ دار تھی، نظم اور نثر دونوں ولولے، طنطنے کے علاوہ انقلابیّت سے بھرپور ہے۔ مگر ان کی وجہء شہرت ان کی بے مثال خطابت تھی۔ برّصغیر نے بڑے بلند پایہ مقرّر اور خطیب پیدا کیے ہیں۔ اردوخطابت کے حرفِ آخر کا نام سیّد عطاء اللہ شاہ بخاری ہے۔ شاہ جی کو اردو زبان کا سب سے بڑا خطیب ما نا جاتا ہے۔ خطابت کے اُسی قافلے کا آخری سالار آغا شورش کاشمیری تھا۔
زندگی کی آخری دھائی میں اردو زبان کے سب سے بڑے خطیب (Public Speaker) بلا شبہ آغا شورش تھے۔ وہ لاکھوں کے مجمعے کو مٹھی میں لینے اور ان کے جذبات کو آگ لگا دینے کا فن جانتے تھے، بے پناہ مطالعے کے باعث وہ زبان و بیان کے رموز پر مکمل دسترس رکھتے تھے۔ ہم قافیہ الفاظ ان کے منہ سے آبشار کے پانی کیطرح نکلتے اور دریا کی روانی کیطرح بہتے چلے جاتے تھے۔ وہ انگریزوں اور دیسی حکمرانوں سے ٹکرّ لیتے رہے اور قید و بند کی صعوبتیں جھیلتے رہے۔ میٹرک کے بعد ہم ان کا ہفت روزہ چٹان(جسکی 1970کی دھائی میں سرکولیشن ایک لاکھ سے زیادہ ہوتی تھی) باقاعدگی سے پڑھتے رہے۔
بارھا ان کی تقریر یں سننے کا اتفاق ہوا اور چند مرتبہ مرکزی مجلسِ اقبال کی تقریب میں بھی ان کے خطاب سے لطف اندوز ہونے کا موقع ملا۔ موجودہ دور میں آغا شورش کاشمیری پر سرکاری سطح پر کبھی ایک لفظ تک نہیں کہا گیا۔ حالانکہ موجودہ حکومت کی کابینہ کے دو ارکان (ایک وزیر اور ایک مشیر) تو آغا صاحب کے شاگرد ہونے کا دعوٰ ی کرتے ہیں۔ وزیر صاحب تقریر میں ان کی نقّالی کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر موصوف کا مطالعہ قلیل اور زبان طویل ہے جسکے باعث دو تین فقرے روانی سے نہیں بول پاتے۔ مشیر محنتی ہیں اور اپنے کالموں میں اکثر آغا صاحب کے شعر استعمال کرتے ہیں۔
پرانی کتابوں میں سے" مضامینِ شورش" کے نام سے ایک کتاب ہاتھ لگ گئی جو آغا صاحب کی مطبوعہ اور غیر مطبوعہ تحریروں پر مشتمل ہے جسے پروفیسر اقبال جاویدنے بڑی محنت سے ترتیب دیا ہے۔
پروفیسر اقبال جاویدلکھتے ہیں، " شورش ؔکے شعور نے جس دور میں آنکھ کھولی وہ صحافت و خطابت اور شعر و سخن کے لحاظ سے سماوی رفعتوں کو چھو رہا تھا۔ اقبال ؒ کا مفکرانہ سوز و ساز، ظفرعلی خانؒ کا نعرہء پیکار، محمد علی جو ہرؒ کا پر خلوص طنطنہ، ابوالکلام آزاد کی پُر شکوہ علمیّت اور سیّد عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کے خطیبانہ زمزمے فضاؤں میں منتشر ہو کر دلوں کے انجمادکو اضطراب بخش رہے تھے"۔
عبد السلام خورشید کے الفاظ میں " شورش کو ابوالکلام نے شعور بخشا، اقبال ؒ نے فکر دی، ظفر علی خان نے سج دھج عطاء کی اور عطاء اللہ شاہ بخاری کے پاکیزہ ذوق نے ان کی زبان کو خاراشگافی کی صلاحیتّیں بخشیں "۔ اور اب آغا صاحب کی چند تحریروں سے لطف اُٹھائیں۔
"کیاہمارے ملک میں اسوقت کوئی بڑا ادیب یا شاعر ہے؟ " کے عنوان سے ایک مضمون میں لکھتے ہیں، "اس حقیقت کے سامنے بہر حال سر جھکانا پڑتا ہے کہ ہماری ادبی اور شعری صفیں با عظمت لوگوں سے خالی ہیں۔ سن رسیدہ اہلِ قلم میں غلام رسول مہر اور مولانا ابو الاعلیٰ مودودی کے نام لیے جاسکتے ہیں مگر ان کے ادب میں علم ہے یا تاریخ۔ مولانا مودودی تو ایک ادیب کی نسبت ایک عالم یا مفکّرزیادہ ہیں، شاعروں میں حفیظ جالندھری کا بڑا کام ہے، پختہ مشق شعراء میں احسان دانش بوڑھے ہو گئے، جو ش ملیح آبادی آثار قدیمہ میں سے ہیں، فیض احمد فیض کو بڑے شاعر کی حیثیّت سے پیش کیا جاتا ہے لیکن اس کی تائید ادبی رائے سے کم اور سیاسی راستے سے زیادہ ہوتی ہے۔" پھر لکھتے ہیں " غالب مسلّمہ طور پر ایک عظیم شاعر ہے، حالی ؔقوم کا مرثیہ خواں تھا۔ اقبال ؒ نے ملّت کو نصب العین اور ایشیاء میں اسلام کو شعلہء نوا بخشا، جوش نے نظم کا رخ پھیرا۔ حفیظ ؔنے بھی کبھی گرمیء محفل پیدا کی اور فیضؔ نے آشفتہ مغز نوجوانوں کی جماعت کو متا ثر کیا۔"
"وہ کتابیں جنھوں نے مجھے متاثر کیا "کے عنوان سے اپنے مضمون میں لکھتے ہیں "کتابوں کی طاقت سے کوئی شخص انکار نہیں کر سکتا، پوری دنیا کتابوں کی مرہون ہے۔ ڈاکٹر ذاکر حسین نے کتاب کو جدید انسان کی شریک ِ حیات قرار دیا ہے۔ ان کے نزدیک یہ ایک بہترین ساتھی، شائستہ ترین دوست اور ہر وقت فراہم ہونے والی رفیقہء حیات ہے۔"
لکھتے ہیں "میں 1935سے 1946 تک جیل میں رہا، یہ زمانہ ایسا تھا جس میں مَیں نے اچھی بری کتابوں کو پڑھا ہی نہیں کھنگال ڈال، بے شمار کتابوں اور مصنفوں نے گرویدہ کیا لیکن میں کسی کے سایہء افکار میں ٹھہرا نہیں۔ میں نے فکر و نظر کا دامن بھرنے کے بعد اس سے نکل جانے کی کوشش کی ہے۔ میں نے رو سو کے اعترافات میں بڑی لذّت محسوس کی ہے ھیوگو وکٹر کو دلچسپی کے ساتھ پڑھتا رہا۔ والٹیئر نے مجھ پر خاصا اثر کیا۔ کارل مارکس کے سرمایہ کومیں نے بہ التزام سبقََا سبقََا پڑھا ہے۔ افلاطون کی جمہوریّت نے بھی میرے خیالات کو متاثر کیا۔ لیکن جن مصنفّوں نے میرے عقیدے میں پختگی پیدا کی وہ دو ہی تھے۔
مولانا ابولکلام آزادؔ اور علّامہ اقبال۔ ابوالکلام آزاد کے ترجمان القرآن اور الہلال نے میری تعمیر میں حصّہ لیاہے اور کلام ِ اقبالؔ نے مجھ میں نہ صرف مسلمانوں سے یک گونہ وابستگی پیدا کر دی ہے بلکہ اسلام کے ماضی کا شَیداء، حال کا نقّاد اور مستقبل کا سپاہی بنا دیاہے"۔
آغا صاحب نے کئی نامور شخصیات کے خاکے لکھے ہیں۔ حکیم محمد سعید کا نقشہ اس طرح کھینچتے ہیں، "دلّی اپنے ساتھ مسلمانوں کی جملہ روایتیں لے کر کراچی آئی، ثقافت کا ہمہمہ، فراست کا طنطنہ، زبان کا لوچ، لہجے کی نزاکت، رہن سہن کی نفاست، دماغ کا نور، دل کا سرور۔ ان لوگوں کا اثاثہ مہاجرت تھا جو دہلی سے رخصت ہو کر پاکستان پہنچے اور کراچی کو بسایا اور دیکھتی آنکھوں ایک ایسا شہر جوان ہو گیا جو سمندر کے ساحل پر ایک بے قابو شہر تھا۔
یہاں بولی کے اضلاع کا نچوڑ اٹھ آیا تھا، حیدر آباد کی فراست چلی آئی تھی اور دہلی جو مسلمانوں کی نو سو سالہ عظمت کاچمکاہوا نشان تھا اس کی وجاہتیں رَختِ سفر باندھ کر کراچی کو عروس البلاد بنا رہی تھیں "۔ سعادت حسن منٹو اور اختر شیرانی کے بارے میں لکھتے ہیں " دونوں میں بہت سی باتیں مشترک تھیں مثلََا دونوں شراب کی نذر ہو گئے، دونوں نے اسطرح پی کہ ان کی زندگی میں سے شراب نکال دی جائے تو ایک چوتھائی رہ جاتی ہے"۔
اور آخر میں آغاشورشؔ کی زبانی اختر شیرانی کا ایک واقعہ سن لیں۔
"عرب ہوٹل میں ایک دفعہ بعض کیمونسٹ نوجوانوں نے جو بلا کے ذہین تھے، ان سے مختلف موضوعات پر بحث چھیڑ دی۔ اختر شیرانی اُسوقت تک دو بوتلیں چڑھا چکے تھے اوراُنکے ہوش قائم نہ تھے، تمام بدن پر رعشہ طاری تھا۔ کسی نے ارسطو اور سقراط کے بارے میں سوال کیا، وہ اپنے موڈ میں تھا کہا " یہ افلاطون، ارسطو یا سقراط آج ہوتے تو ہمارے قدموں میں بیٹھتے، ہمیں ان سے کیا؟ اس لڑکھڑاتی ہوئی گفتگو سے فائدہ اٹھا کر ایک بدبخت نے سوال کر دیا۔
آپ کا حضرت محمدﷺ کے بارے میں کیا خیال ہے؟ اللہ اللہ ایک شرابی پر جیسے کوئی برق گری ہو۔ بلور کا گلاس اٹھایااور اس کو دے مارا۔ پھر کہا "بد بخت ایک عاصی سے سوال کر تا ہے۔ ایک فاسق سے کیا کہلوانا چاہتا ہے؟ " تمام جسم کانپ رہا تھا۔ رونا شروع کر دیا، گھِگھی بندھ ہو گئی، پھر بولے" تم نے اس حالت میں یہ پاک نام کیوں لیا۔ تمہیں جرات کیسے ہوئی؟ " گستاخ! بے ادب!مسلسل روتے جاتے اور کہتے جاتے۔" کمبخت ہمارا آخری سہارا بھی ہم سے چھین لینا چاہتے ہیں۔ میں گناہگار ضرور ہوں مگر یہ مجھے کافر بنانا چاہتے ہیں "۔
شیخ سعدیؒ یا د آتے ہیں جو فرما گئے کہ
ہزار باربشویم دھن زمشک وگلاب، ھنوز نامی تو گفتن کمالِ بے ادبی ست
(ہزار بار بھی اگر منہ مشک و گلاب سے دھوؤں تو پھر بھی آپﷺ کا پاکیزہ نام لینا بہت بڑی بے ادبی ہے)