پچھلے کالم میں جن دو بڑی غلطیوں کا ذکر کیا گیا تھا ان کی تفصیل جاننے سے پہلے ایک واقعہ سن لیجیے۔ 28مئی کے چند روز بعد سہ پہر کو پرائم منسٹرصاحب اسلام آباد سے باہر کسی سڑک کا معائنہ کرنے کے لیے گئے۔
پولیس نے سیکیورٹی کے لیے سڑک کے دونوں جانب ٹریفک روک دی، لوگوں کو پتہ چلا تو وہ نواز شریف کو دیکھنے کے لیے بسوں سے اُتر آئے اور ہاتھ ہلانے لگے، وزیرِاعظم نے پولیس افسروں سے کہا "لوگوں کو آگے آنے دیں "۔ پولیس نے رکاوٹیں ہٹا دیں تو سیکڑوں لوگ وزیرِاعظم کے پاس پہنچ گئے۔
صاف نظر آرہا تھا کہ مسافروں میں زیادہ تر مزدور ہیں جو دن کا کام ختم کرکے گھروں کو واپس جارہے ہیں۔ سب سے پہلے ایک مزدور آگے بڑھا، اُس نے جیب سے80روپے (اُس روزکی دیہاڑی) نکال کر وزیرِاعظم کو دیتے ہوئے کہا "جناب آپ نے ملک کا قرضہ اُتارنے کے لیے قوم سے مدد کی اپیل کی ہے، میں اپنی محنت کی کمائی ملک کی نذر کرنا چاہتا ہوں "۔ اس نے بات ختم ہی کی تھی کہ دوسرے مزدوروں نے بھی اپنی جیبیں خالی کردیں۔ ملک کے غریب ترین باشندوں کا جذبہ دیکھ کر پرائم منسٹر سمیت سب کی آنکھیں بھیگ گئیں۔
بیرونِ ملک رہنے وا لے پاکستانیوں کا جذبہ اس سے بھی زیادہ تھا، ہر روز ہزاروں خط اور فیکس میسج یہ پوچھنے کے لیے آتے تھے کہ "پیسے کس اکاؤنٹ میں جمع کرانے ہیں؟ " پرائم منسٹر آفس اور ہاؤس کی فیکس مشینیں جام ہوگئیں۔ ڈالروں کی بارش شروع ہوگئی۔ یہی صورتِ حال رہتی تو تمام قرضے اتر جانے تھے مگر حکومت کی مالیاتی ٹیم خصوصاًسرتاج عزیز نے بہت بڑا بلنڈر یہ کیا کہ Sanctions کے ڈر سے تمام فارن کرنسی اکاؤنٹ منجمد کرادیے۔ اس سے حکومت پر عوام کے بے پناہ اعتماد میں دراڑ آگئی، جذبے سرد پڑتے گئے اور ملک عظیم اہداف حاصل کرنے سے محروم رہا۔
کوئی بھی شخص پیدائشی لیڈر نہیں ہوتا، بڑے چیلنج بڑا لیڈر بناتے ہیں۔ اتنے بڑے فیصلے کرنے کے لیے قابلیّت سے زیادہ جرأت درکار ہوتی ہے اور اقبالؒ کے بقول غیر معمولی کارنامے عقل سے زیادہ عشق کے زور پر انجام دیے جاتے ہیں۔ بلاشبہ نوازشریف نے عشق کے زور پر وقت کی اچھالی ہوئی انتہائی مشکل گیندکو باؤنڈری پر کیچ کرلیا۔ جس سے وہ خود بھی امر ہوگیا اور پاکستان ایٹمی قوّت بنکر اپنے سے چھ گنا بڑے بھارت کے برابر آگیا، دنیا کے تمام بڑے ممالک پاکستان اور بھارت کو برابری کی سطح پر ڈیل کرنے لگے۔
پاکستان کو پورے عالمِ اسلام کے سیاسی اور عسکری قائد کی حیثیّت حاصل ہونے لگی۔ لگتا تھا کہ بانیانِ پاکستان کا خواب شرمندۂ تعبیر ہونے کو ہے۔ نوازشریف صاحب مقبولیّت کی سب سے بلند سیڑھی پر قدم رکھ چکے تھے، اس مقبولیّت کو تدبّر اور حکمت کے ساتھ استعمال کرکے ایک طرف ملک کے مختلف حصّوں کو ایک مضبوط وحدت میں اور مختلف قومیتوں کو ایک پاکستانی قوم میں تبدیل کیا جاسکتا تھااور دوسری طرف چھوٹے صوبوں کے راہنماؤں کو اعتماد میں لے کر کالاباغ ڈیم جیسے بڑے فیصلوں کا اعلان خود اُن سے کرایا جاسکتا تھا۔ 28مئی کے بعد قوم کے جذبوں سے نوازشریف صاحب اس قدر متاثر ہوئے کہ انھوں نے حکومت کا اور اپنا طرزِ زندگی بدلنے کا فیصلہ کرلیا۔
فیصلہ کیا گیا کہ چاہے کتنی پابندیاں لگ جائیں، ہم روکھی سوکھی کھاکر اور سادہ زندگی اپنا کر اس کا مقابلہ کریں گے۔ میاں صاحب نے اسٹاف کو کہہ دیا کہ میں اب وزیرِاعظم ہاؤس میں نہیں کسی چھوٹے گھر میں رہوں گا۔ تمام غیرضروری اخراجات ختم کر دینے کا حکم دے دیا گیا۔ ایسے ہی انقلابی اقدامات کا اعلان کرنے کے لیے جون کے دوسرے ہفتے وزیرِاعظم پھر قوم سے خطاب کے لیے پی ٹی وی تشریف لے گئے۔ ہم پھر ساتھ گئے اور اسٹوڈیو میں موجودرہے، پرائم منسٹر کی تحریر شدہ تقریر بہت اعلیٰ تھی۔ آخر میں وزیرِاعظم نے غیرمتوقّع طور پر کالا باغ ڈیم تعمیر کرنے (جو لکھی ہوئی تقریر کا حصّہ نہیں تھا) کا اعلان کردیا۔
تقریر ریکارڈ کرانے کے بعد وزیرِاعظم نے حسبِ روایت اسٹوڈیو میں موجود چھ سات لوگوں سے ہاتھ ملائے، سب نے واہ واہ کی، وزیرِاعظم صاحب جب ایس پی رینک کے اسٹاف آفیسر سے ہاتھ ملا رہے تھے تو نوجوان اسٹاف آفیسر نے ملک کے مقبول ترین وزیرِاعظم سے کہا"سر! کالاباغ ڈیم کے لیے یہ موقع مناسب نہیں تھا، چھوٹے صوبوں میں بے چینی پیدا ہوگی اور National Unity کو نقصان پہنچے گا" وزیرِاعظم خاموش رہے مگر ان کے ساتھ موجود ایک دو وزیر بول پڑے "چھوڑیں جی کچھ نہیں ہوگا۔
پرائم منسٹر صاحب نے ٹھیک کہا ہے"۔ مگر وہی ہوا جس کا خدشہ تھا، اے این پی اور سندھی نیشنلسٹ پارٹیوں کے لیڈروں نے کہا "ایٹمی قوّت بننے سے ہماری سیاست ختم ہوگئی تھی، ہم وزیرِاعظم کے شکرگزار ہیں کہ انھوں نے ہماری جھولی میں ایک اہم اِشو ڈال دیاہے" اندرونِ سندھ اور کے پی میں ہر روز مخالفانہ جلوس نکلنے لگے، قومی اتحاد کا ماحول بری طرح متاثر ہوا، چند روز بعد سندھ کا وزیرِ اعلیٰ لیاقت جتوئی (جو اُسوقت مسلم لیگ میں تھا) پوری سندھ کابینہ لے کر اسلام آباد آگیا اور پھر وزیرِاعظم کو یہ کہنا پڑا کہ ہم کالا باغ ڈیم تب بنائیں گے جب چاروں صوبوں میں اتفاقِ رائے ہوگا۔ مگر قومی اتحاد کے قلعے میں بداعتمادی کی دراڑ پڑ چکی تھی۔
مجھ سمیت بیسیوں لوگ جانتے ہیں کہ اُن دنوں گوہر ایوب صاحب اور شیخ رشید صاحب اکثر پرائم منسٹر سے کہا کرتے تھے کہ "پرائم منسٹر صاحب صرف آپ کی جرأت اور بہادری سے پاکستان ایٹمی قوّت بنا ہے۔" نواز شریف سے اقتدار چھن گیا توانھوں نے اپنے سابق لیڈر سے ایٹمی دھماکے کرنے کا کریڈٹ بھی چھیننے کی کوشش کی، مگر سابق سیکریٹری خارجہ شمشاداحمد سے ایسی امید نہ تھی کہ وہ اچھے انسان اور محبّ وطن آدمی ہیں، اس بار 28مئی کو انھوں نے کالم لکھا مگر ایٹمی قوّت بننے کا فیصلہ کرنے والے لیڈر نوازشریف کا ذکر تک نہیں کیا۔
بہرحال بم بنانے کی جب بھی بات ہوگی تو ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا لازمی ذکر ہوگا اسی طرح پاکستان کے ایٹمی قوّت بننے کا جب بھی ذکر ہوگا تو وہ نوازشریف کے ذکر کے بغیر نامکمل رہے گا۔ یہ درست ہے کہ حکمران کو ئی کام نہ کریں، ملاقات کا وقت نہ دیں یا کم اہمیّت دیں تو ان سے رنجش بھی پیدا ہوجاتی ہے، لیکن اگر ذاتی رنجش کا غبار حقائق کو ہی اپنی لپیٹ میں لے لے تو اس سے انسان کے کردار کی کمزوری اور intellectual dishonestyکا اظہار ہوتا ہے۔ میاں صاحب سے شکوے اور شکایتیں تو مجھے بھی بہت ہیں۔
اس کے باوجود کہ انھوں نے میری عدم موجودگی میں بارہا کہا کہcompetence، integrity اور effectivenessمیں اس کا کوئی مقابلہ نہیں، میرے کیرئیر کے فیصلہ کن مرحلے پر جب کہ وہ خود وزیرِاعظم تھے، مجھے جائز حق سے محروم رکھا گیا۔
بہت سے سینئر کولیگ اور فیڈرل سیکریٹری مجھ سے پوچھا کرتے تھے کہ آپ کو نواز شریف کی حکومت میں بھی آپ کی صلاحیّتوں اور Statureکے مطابق کبھی ڈھنگ کی پوسٹنگ کیوں نہیں دی گئی؟ مگرکیا میں اپنے شکوے یا ناراضگی کی وجہ سے حقائق کو مسخ کرکے نوازشریف کے کارنامے کو چھپانا یا گھٹانا شروع کردوں۔ ایسا کروں گا تو بددیانتی کا مرتکب ہوں گا۔ اسی طرح میرا بچپن میں ذوالفقار علی بھٹو سے رومانس تھا مگر وہ اقتدار میں آئے تو آمر اور فاشسٹ بن گئے، ان کے دور میں ان کے کئی سیاسی مخالف قتل کردیے گئے، اختلافِ رائے کرنے پر انھوں نے اپنی ہی پارٹی کے سینئر لوگوں کو مرایا اور عقوبت خانوں میں بند کردیا۔ حبیب جالبؔ جیسے انقلابی شاعر بھی بھٹو صاحب نے جیل میں ڈال دیے۔ ان کی حکومت ختم ہونے پر ہی حبیب جالب ؔ کو رہائی نصیب ہوئی۔
میں بھٹو صاحب کے طرزِ حکمرانی کو ناپسند کرنے کے باوجود نیوکلئیر پروگرام کی بنیاد رکھنے پر ان کا اعلانیہ معترف ہوں۔ ڈاکٹر اے کیو خان صاحب کی ٹی وی پر معافی مانگنے سے اخلاقی پوزیشن بہت کمزور ہوئی مگر ان تمام چیزوں کے باوجود ان کا کارنامہ ایسا ہے کہ قوم ہرچیز نظرانداز کرنے کے لیے تیّار ہے۔
ملک کے دفاع کو ناقابلِ تسخیر بنانے والے چاروں حضرات قوم کے محسن ہیں، انھیں سرکاری طور پر قومی ہیرو کا درجہ دیا جانا چاہیے، جنرل ضیاء الحق اور غلام اسحق خان نے بھی نیوکلیئر پروگرام کو قومی امانت سمجھ کر اس کی حفاظت کی انھیں بھی شاباش، مگر اصل اور بڑے ہیرو دو سیاستدان اور دو سائینسدان ہیں۔
بنیاد رکھنے والے ذوالفقار علی بھٹو، دھماکے کرکے ملک کو ایٹمی کلب میں داخل کرنے کا جرأتمندانہ فیصلہ کرنے والے نواز شریف، ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور ڈاکٹر ثمر مبارک مند جن محسنوں کی جرأت اور محنت کی وجہ سے ہم دشمن کی جارحیّت سے محفوظ ہوئے، کیا ان کے ساتھ ایسا سلوک ہونا چاہیے تھا؟ بھٹو صاحب، نوازشریف صاحب اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ ایک افسوسناک اور شرمناک کہانی ہے جس پر پھر کبھی تفصیل سے لکھونگا۔