عالمِ اسلام کے ممتاز اور مقبول اسکالر ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب آجکل پاکستان کے دورے پر ہیں، انھیں پاکستان آنے کی دعوت کس نے دی ہے؟ کیا وہ حکومتِ پاکستان کی دعوت پر آئے ہیں یا کسی مذہبی تنظیم یا دارے نے انھیں مدعو کیا ہے۔ اس بارے میں ابھی تک قیاس آرائیاں ہی ہورہی ہیں، مگر میرا خیال ہے کہ موجودہ حکومت نے اپنی خوشی یا رضاو رغت سے انھیں مدعو نہیں کیا، کیونکہ موجودہ حکمرانوں کی پالیسی مختلف ہے۔
اس لیے وہ اسرائیل کی برملا مذمّت کرنے والے ایک عالمی سطح کے اسلامی مبلّغ کو پاکستان آنے کی دعوت کیوں دیں گے۔ اگر حکومت نے انھیں مدعو کیا ہوتا تو ائرپورٹ پر ان کے استقبال کے لیے کم از کم وزیرِ مذہبی امور کو بھیجا جاتا مگر ان کے استقبال کے لیے نوجوانوں کے امور کے مشیر کو بھیجاگیا یعنی ان کی آمد کو بہت کم اہمیّت دی گئی اور پرائم منسٹر ہاؤس میں باریش وزیروں نے بھی سرد مہری سے ہاتھ ملایا۔ کسی مذہبی جماعت میں اتنی فراخدلی کہاں کہ وہ ایک بڑے اسکالر کو مدعو کریں کیونکہ اس سے ان کی اپنی دکانداری متاثر ہوتی ہے۔ اس لیے خیال یہی ہے کہ حکومت نے ڈاکٹر صاحب کو مدعو ضرورکیا ہے، مگر ان کے پروگرام ترتیب دینے میں حکومت بے دلی یا بے نیازی کا مظاہرہ کررہی ہے جوگورنر ہاؤس کراچی میں منعقدہ تقریب میں نظر آیا۔
ڈاکٹر نائیک صاحب مختلف ملکوں میں لاکھوں کے مجمعے سے خطاب کرتے ہیں یا کسی دینی موضوع پر لیکچر دیتے ہیں، اس لیے اسٹیج پر صرف ان کی کرسی ہوتی ہے مگر کراچی کے پروگرام کو لیکچر کے بجائے جلسے کی شکل دے دی گئی اور اسٹیج پر ڈاکٹر صاحب کے ساتھ دیگر افراد کو بٹھادیا گیا اور مائیک بھی انھیں تھمادیا گیا جنھوں نے معزّز مہمان سے تندوتیز گفتگو کی کوشش کی۔ اسے ملک بھر میں محسوس کیا گیا۔ ڈاکٹر صاحب کے اصل میزبانوں کو ان کے پروگرام خود ترتیب دینے چاہئیں اور اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ ان کی تقریب جلسے میں تبدیل نہ ہو اور اسٹیج پر صرف ڈاکٹر صاحب ہوں جن کے لیے صرف ایک کرسی ہو۔
ڈاکٹر صاحب پاکستان کی صورتِ حال دیکھ کر یقیناً کچھ مایوس ہوئے ہوں گے کیونکہ ان کی توقعات کے برعکس، ہمارے ہاں فرقہ بازی کی بحث عروج پر ہے۔ جس معاشرے میں کم علمی اور جہالت ہوگی وہاں فرقہ بازی کی فصل خوب پھلے پھولے گی۔ مذہبی پارٹیاں بھی مختلف فرقوں کی پارٹیاں بن چکی ہیں جو نظریاتی نہیں صرف پاور پالیٹیکس کرتی ہیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ راقم نوجوانی سے ہی فرقہ بازی سے متنفّر ہوگیا۔
سروس کے پہلے روز سے جب کبھی مسلک لکھنے یا بتانے کی ضرورت پڑی میں نے صرف مسلمان کہا اور مسلمان ہی لکھا۔ کیونکہ جس محسنِ اعظم ﷺ کے طفیل ہمیں سچائی اور روشنی نصیب ہوئی ہے اس نے اور اللہ نے ہمیں صرف مسلمان کا نام دیا ہے اور فرقوں میں بٹنے سے منع کیا ہے۔ ایک عالمی سطح کے اسکالر نے بڑی خوبصورت بات کہی ہے کہ "دین تو اللہ سے شروع ہوا اور حضرت محمد ﷺ کی ذات پر ختم ہوگیا۔ حضورﷺ کے بعد تو جو بھی اختلافات پیدا ہوئے ان کا تعلق یا سیاست سے ہے یا تاریخ سے" یعنی political disputes کی بنیاد پر ہم نے فرقے بنالیے ہیں اور پھر ان کے جواز میں اپنے پاس سے کہانیاں گھڑلیں اور کتابیں لکھ دیں۔
مختلف مذاہب اور ان کی تعلیمات پر انسائیکلو پیڈیا کی حیثیت رکھنے والے دنیائے اسلام کے سب سے معروف اسکالر کا پاکستان آنا ہمارے ملک کے لیے یقینا مسرت و افتخار کا باعث ہے، مگر ان کی آمد سے قبل ہی فرقہ بازوں اور دین سے بغض رکھنے والوں نے ان کے آنے کی مخالفت شروع کردی تھی۔ کسی نے یہ تک کہا کہ "حکومت کی طرف سے ڈاکٹر ذاکر نائیک کے استقبال سے بڑا دکھ ہوا ہے، ان کے آنے سے مختلف فرقوں کے درمیان توازن بگڑنے کا اندیشہ ہے"۔
یہ صاحب عام علماء کو کم علمی کا طعنہ دیتے ہیں مگر اب ایک باعلم اسکالر آیا ہے تو اس کی آمد پر بھی انھیں اعتراض ہورہا ہے۔ دراصل ایسے لوگوں کے لیے یہ بات سخت تکلیف دہ ہے کہ اسلام کاکوئی مبلّغ اتنا پڑھا لکھا (well read) ہو کہ عیسائیت، یہودیت اور ہندومت کو ان کے مذہبی لیڈروں سے بھی زیادہ جانتا ہو اور اس کی آواز دنیا بھر میں سنی جاتی ہو اور لوگوں کو متاثر کررہی ہو۔ یہ بات ان کے ہاضمے میں خلل ڈالتی ہے۔ یہ ٹولیاں مسلسل تیراندازی میں مصروف ہیں اور کچھ محدّب عدسے لے کر ڈاکٹر ذاکر نائیک کے اردگرد پھررہی ہیں کہ دامن پر کوئی داغ نظر آجائے یا زبان سے پھسلا ہوا کوئی لفظ مل جائے تو اسے لے کر مہمان اسکالر کے خلاف سوشل میڈیا پرشور مچایا جائے، یہ تنگ نظری ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ڈاکٹر نائیک کی اردو زبان کمزور ہے، اس لیے اُن میں ایک بڑے مقرّر کی فصاحت وبلاغت نہیں ہوتی۔ زبان کی کمزوری کی وجہ سے بعض اوقات وہ زیادہ موزوں الفاظ کا انتخاب نہیں کرپاتے، وہ اسلام کے مبلّغ ہیں، مفکّر نہیں۔ اس لیے بعض فقہی سوالوں کے جوابات میں بھی گہرائی اور گیرائی نظر نہیں آتی مگر خالقِ کائنات کو ان کا اخلاص، ایمان کی پختگی اور کردار کی پاکیزگی اس قدر پسند آئی ہے کہ اُس نے ان کی لکنت زدہ زبان میں وہ تاثیر عطا کردی ہے جس کے سامنے بڑے بڑے خطیبوں کی فصاحت اور بلاغت ہاتھ باندھے کھڑی نظر آتی ہے۔ ان پر اللہ کا خاص کرم ہے کہ اُن کے سامعین اور متاثرین میں بے پناہ اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
اُن کے بارے میں جو معلومات ملی ہیں اس کے مطابق وہ ہمارے مذہبی اکابرین کے برعکس انتہائی سادہ اور درویشانہ زندگی بسر کرتے ہیں۔ وہ چاہیں تو سوشل میڈیا کے ذریعے لاکھوں ڈالر ماہانہ کما سکتے ہیں مگر وہ ایک پیسہ نہیں لیتے اور انھوں نے اپنی زندگی اپنے خالق و مالک کے لیے وقف کردی ہے۔ اپنا اپنا مقدّر ہے، ڈاکٹر صاحب پورے یکسوئی کے ساتھ لوگوں کو اپنے خالق کے ساتھ جوڑ رہے ہیں اور اللہ کی خوشنودی حاصل کررہے ہیں اور کچھ کم ظرف اور کم علم ان کی خامیاں ڈھونڈنے میں لگے ہوئے ہیں۔
محترم ڈاکٹرصاحب! ذہن میں رکھیں کہ یہ اسّی کی دھائی والا پاکستان نہیں ہے، یہ وہ پاکستان ہے جو اپنی نظریاتی سمت کھوچکا ہے، ملک میں چاہے ان کی تعداد کم ہے مگر برقی اور سوشل میڈیا پر لبرلز اور سیکولر سب سے زیادہ سرگرم ہیں۔ آپ سے گزارش ہے کہ مختلف لوگوں سے یہاں کے سیاسی، سماجی اور مذہبی حالات، فرقہ ورانہ صورتحال اور نوجوانوں کے اندر مذہب سے دوری یا بیزاری کی وجوہات کے بارے میں تفصیلی بریفنگ لیں۔ تقابلِ ادیان پر آپ کی دسترس مسلّمہ ہے مگر اس کے علاوہ اسلام اور قرآن پر جدید ذہن کے نوجوانوں کے سوالات یا فقہی مسائل کا یہاں کے جیّد اسکالرز نے اپنی کتابوں یا تفاسیر میں جو جواب دیا ہے۔
اس کا بھی مطالعہ کریں، اردو پڑھنا ممکن نہ ہو تو آڈیوز سنیں اور پھر آپ اپنے جواب تیار کریں۔ جو زیادہ مدلّل اور زیادہ موثّر ہوں گے۔ ایک بہترین مبلّغ کی طرح اپنے جذبات اور غصّے کو ہمیشہ قابو میں رکھیں اور (شرارتاً سوال کرنے والوں کے سوا) سوال کرنے والے کو لاجواب کرنے کے بجائے قائل کرنے کی کوشش کریں۔ ڈاکٹر صاحب کے میزبانوں سے گزارش ہے کہ اسلام کے لیے ان کی خدمات کے پیشِ نظر انھیں کئی دوسرے اسلامی ملکوں کی طرح بہت بڑے ایوارڈ سے نوازا جائے اور یہ ایوارڈ اُس ایوارڈ سے بڑا ہو جو دبئی کے گھڑیوں والے دکاندار کو دیا گیا تھا۔