عالمی سطح کا کھلاڑی ہونے کے ناتے عمران خان صاحب کو معلوم ہونا چاہیے کہ دوسری ٹیم کی رضامندی کے بغیرصرف ایک ٹیم اپنی مرضی سے رولز میں تبدیلی نہیں کرسکتی۔
آیندہ الیکشن کے معرکے کے لیے پی ٹی آئی اور اپوزیشن دو مخالف فریق ہیں، جسطرح کرکٹ کی دو مخالف ٹیموں میں سے ایک اپنی مرضی سے رولز میں تبدیلی نہیں کرسکتی اسی طرح انتخابی میچ کے قواعد و ضوابط میں EVMسمیت کوئی بھی تبدیلی ایک فریق ہرگز نہیں کرسکتا۔ نہ اپوزیشن اپنی مرضی کی تبدیلی کرسکتی ہے اور نہ پی ٹی آئی یا حکومت اپنی خواہش دوسرے فریق پر مسلّط کرسکتی ہے۔
کوئی بھی تبدیلی، اتفاق ِرائے سے ہوسکتی ہے یا پھر امپائر یعنی الیکشن کمیشن کرسکتا ہے۔ حکومت ایک فریق ہے وہ اپنی مرضی کی تبدیلی مسلّط کرنے کی کوشش کریگی تو اسے نہ اپوزیشن تسلیم کریگی اور نہ قوم۔ دنیا کے ترقّی یافتہ ملکوں میں بھی پیپر بیلٹ استعمال ہوتا ہے کیونکہ ساکھ اُسی کی ہے اور وہی سب سے قابلِ اعتبار سمجھا جاتا ہے۔
دوسرے اِشو میں سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ ووٹ کا حق اتنا دلکش نہیں کہ جس کے لیے ہمارے تارکینِ وطن تڑپ رہے ہوں یا پُرزور مطالبہ کررہے ہوں۔ ووٹ کا حق اوورسیز پاکستانیوں کا مطالبہ نہ کبھی رہا ہے اور نہ اب ہے۔ یہ حق اتنا ہی دلکش ہوتا تو جنھیں یہ حق حاصل ہے وہ تمام کے تمام لوگ یہ حق استعمال کیا کرتے، ان میں سے آدھے بھی یہ حق استعمال نہیں کرتے۔ یہ تارکینِ وطن کا مطالبہ نہیں، یہ (اس گمان کے پیشِ نظر کہ باہر بسنے والے پاکستانیوں کی اکثریت پی ٹی آئی کی حامی ہے) عمران خان صاحب اور ان کے ساتھیوں کی خواہش ہے۔
وزیرِاعظم صاحب اگر اپنے سیاسی مفاد سے بالاتر ہوکر ایک قومی رہنما کے طور پر سوچتے تو ان کا فیصلہ مختلف ہوتا اوروہ اُسی طرح سوچتے جسطرح بیرونِ ملک رہنے والے صاحبانِ دانش سوچتے ہیں اور جو پاکستان کے سفراء کا نقطۂ نظر ہے۔ برطانیہ اور امریکا میں خدمات سرانجام دینے والے پاکستانی سفیر اس مسئلے پر کیا رائے رکھتے ہیں یہ جاننے سے پہلے برطانیہ کی ایک یونیورسٹی میں پڑھانے والی پاکستانی ڈاکٹر ارم آفتاب کی ای میل کے کچھ اقتباس ملاخطہ فرمالیں، لکھتی ہیں:۔
"پاکستان کے سیاستدانوں نے ملک کے ساتھ ایک بہت بڑی زیادتی یہ کی کہ اپنی سیاست برطانیہ میں بھی لے آئے۔ یہاں اپنی پارٹیوں کے دفاتر بنا دیے اور عہدیدار مقرر کردیے، اس سے انھیں یہ فائدہ ہوا کہ ان کی یہاں آمد پر درجنوں عہدیدار گاڑیاں لے کر ایئرپورٹ پر جاتے ہیں ان کے اخراجات اُٹھاتے ہیں اور انھیں فارن کرنسی میں چندہ بھی دیتے ہیں لیکن ملک کو نقصانات کہیں زیادہ ہوئے۔ پاکستان واحد ملک ہے جسکے باشندے یہاں ایک دوسرے کے خلاف جلوس نکالتے ہیں، ایکدوسرے کے لیڈروں کو گالیاں دیتے ہیں، ایک دوسرے پر بوتلیں پھینکتے ہیں اور دنیا بھر میں جگ ہنسائی کا موجب بنتے ہیں
۔ اتنا دکھ ہوتا ہے یہ دیکھ کر کہ قومی تہواروں پر بھی پاکستانیوں نے قومی پرچم کے بجائے اپنی پارٹیوں کے جھنڈے اُٹھائے ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کے لیڈروں کو (جو پاکستان کے قومی سطح کے رہنما ہیں) چور اور بدکار کہہ کر گالیاں دے رہے ہوتے ہیں۔ دنیا بھر کا میڈیا ان کا مذاق اڑاتا ہے۔
برطانوی شہری پاکستانیوں کو برطانیہ کی سرزمین پر ایک دوسرے سے دست و گریبان دیکھ کر بڑی حقارت سے کہتے ہیں "یہ پاکستانی کس طرح کی قوم ہے "بھارت کے تارکینِ وطن کی تعداد ہم سے کہیں زیادہ ہے، ان کی لابی بھی بہت مضبوط ہے، مگر وہ برطانیہ کی سرزمین پر بھارت کی سیاست نہیں کرتے، وہ متحد ہوکر یہاں کی مقامی سیاست میں حصہ لیتے ہیں اسی لیے ان کے ہم سے کہیں زیادہ لوگ پارلیمنٹ کے ممبرہیں، جہاں وہ اپنے آبائی ملک کے مفادات کے لیے اپنا اثرو رسوخ استعمال کرتے ہیں۔
عمران خانصاحب سے امید تھی کہ وہ ایک اسٹیٹسمین کی طرح behaveکریں گے اور اقتدار میں آتے ہی ایک قانون کے تحت بیرون ِ ممالک میں پاکستانی سیاست، پاکستانی پارٹیوں کی برانچزاور ان کے دفاتر بندکرا دیں گے، اور واضح پیغام دیں گے کہ پاکستانی سیاست میں ملوث ہونے سے اوورسیز پاکستانیوں کا اتحاد پارہ پارہ ہوجاتا ہے۔
انھیں دوسرے ممالک میں متحدہوکر رہنے کی ضرورت ہے۔ مگر انھوں نے ووٹ کے حق کا شوشہ چھوڑ کر پاکستانیوں کو مزید تقسیم کرنے اور آپس میں مزید لڑانے کا بندوبست کردیا ہے۔ اب پاکستانی انتخابات کے قریب یہاں بھی جلسے اور جلوس ہوا کریں گے۔ ایک دوسرے کے خلاف تقریریں ہونگی جس میں الزامات اورگالم گلوچ ہوگی، پاکستانی پوری دنیا کے سامنے تماشا بن جائیں گے اور اپنے ملک کی عزت بڑھانے کے بجائے اسے بے توقیر کریں گے۔
کاش کوئی عمران خان کو اس کے مضر اثرات سے آگاہ کرسکے کہ خداراایسا نہ کیجیے، بیرونِ ملک رہنے والے پاکستانیوں کو تقسیم نہیں متحد کرنے کے لیے اقدامات اٹھائیں "۔ کچھ عرصہ پہلے ہم نے علامہ اقبال کونسل کی جانب سے اسلام آباد میں ایک سیمینار کا انعقاد کیا تھا، جس میں منتخب نمایندوں، دانشوروں اور سینئر صحافیوں کے علاوہ پاکستان کے وہ سفیر حضرات بھی شریک ہوئے جو برطانیہ، امریکا اور مڈل ایسٹ میں خدمات سرانجام دے چکے تھے، ان کے خدشات اور تحفظات بھی وہی تھے جن کا اظہار ڈاکٹر صاحبہ نے کیا ہے۔
تمام سفارتکاروں کا یہ متفقہ موقف تھا کہ یورپ اور امریکا میں رہنے والے پاکستانیوں میں Polorisation اور تقسیم کم کرنے کی ضرورت ہے، انھیں پاکستانی سیاست میں الجھانے سے ان کے درمیان نفاق بڑھے گا اور ان کی طاقت کمزور ہوگی۔ حکمرانوں کو چاہیے کہ ان کے درمیان نفرت اور مخاصمت کے کانٹے بونے کے بجائے اتحاد اور یگانگت کے پھول اُگائیں۔
سفیر صاحبان نے بھارت، بنگلہ دیش، ترکی اور ملائیشیا کی مثالیں دیں کہ ان ملکوں کے اندر سیاسی پارٹیوں میں سخت مخاصمت ہے مگر جب ان ملکوں کے لیڈر کسی دوسرے ملک کی سرزمین پر قدم رکھتے ہیں تو پھر اپنے ملک کی سیاست پر بات نہیں کرتے، یہی سبق انھوں نے اپنے تارکینِ وطن کو پڑھایا ہے، وہ بھی حصولِ روزگار کے لیے جس ملک میں رہتے ہیں وہاں کی سیاست میں بھرپور کردار ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اس کے لیے وہ متحد رہتے ہیں جس سے ان کی اہمیت اور طاقت میں اضافہ ہوتا ہے۔
وہاں فیصلہ سازی اور طاقت کے مراکز تک ان کی رسائی ہوتی ہے اور وہ اپنے آبائی وطن کے حق میں بہتر فیصلے کروانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ اگر کوئی پاکستانی لیڈر خاص طور پر صاحبِ اقتدار اِن مضر اثرات کو نظر انداز کرکے صرف اپنے ذاتی اور سیاسی مفاد کے لیے فیصلہ کرے تو وہ ایک پست سوچ کا مظہرہوگا اور وطنِ عزیز کے مفاد کے خلاف ہوگا۔
مجھے بارہا برطانیہ جانے اور وہاں برمنگھم، بریڈفورڈ اور مانچسٹر میں پاکستانیوں کے اجتماعات سے بھی خطاب کرنے کا موقع ملا ہے، اُن سے جب بھی پوچھا کہ یہاں پاکستانی پارٹیوں کی شاخیں اور دفاتر ہونے چاہئیں؟ تو وہ باآوازِ بلند کہتے تھے"ہرگزنہیں ہونے چاہئیں "۔ برطانیہ میں کئی نسلوں سے مقیم پاکستانی ڈاکٹروں، پروفیسروں اور پروفیشنلز سے بھی تفصیلی بات چیت کا موقع ملتا رہا ہے، ان کی واضح اکثریت divided loyaltyکے حامل افراد کو پاکستانی پارلیمنٹ کا ممبر بنانے کے حق میں ہرگز نہیں ہے۔
اوورسیز پاکستانیوں کی بہت بڑی اکثریت غیر ملکی سرزمین پرپاکستان کی سیاست کرنے اور وہاں کے چوکوں اور چوراہوں میں اپنے گندے کپڑے دھونے سے سخت متنفرہے۔ پردیس میں بسنے والے پاکستان سے بے پناہ محبّت کرتے ہیں اسی لیے وہ چاہتے ہیں اور ہونا بھی یہی چاہیے کہ پاکستانی diasporaکا پاکستانی سفارتخانے کے ساتھ بڑا گہرا رابطہ ہو۔ وہ مختلف سیاسی پارٹیوں کے بجائے صرف "پاکستان سوسائٹی" کے نام سے منظم اور متحد ہوں۔
قومی تہواروں پر سب اکٹھے ہوں اور ان کے ہاتھوں میں کسی پارٹی، گروہ یا مسلک کا جھنڈا نہیں بلکہ صرف پاکستان کا سبز ہلالی پرچم ہو۔ اوورسیز پاکستانیوں کو کچھ شرائط کے ساتھ ووٹ کا حق دینا بھی ہو تو وہ پاکستان آکر یا خاموشی سے ڈاک کے ذریعے اپنا ووٹ کاسٹ کرلیں مگر کوئی ایسا کام نہیں ہونا چاہیے جس سے اوورسیز پاکستانی تقسیم ہوکر کمزور ہوں۔
دوسرے ممالک میں پاکستان کی سیاست کرنا یا پاکستان کی سیاسی پارٹیوں کی شاخیں قائم کرنا ایک غلط اور نقصان دہ فعل ہے اور یہ خرافات فوری طور پر بند ہونی چاہئیں۔ حکومتی وزرأ بار بار بھارت کا حوالہ دیتے ہیں، انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ بھارت میں تارکینِ وطن کو ووٹ کا حق حاصل نہیں ہے اور کوئی دہری شہریت کا حامل بھارتی نہ وہاں پارلیمنٹ کا الیکشن لڑسکتا ہے اور نہ ہماری طرح وزیرِاعظم کامشیر بن سکتا ہے۔
اعلیٰ سوچ اور طرزِ عمل ہی افراد کو بڑا لیڈر بناتی ہے۔ دنیا کے بڑے لیڈر اپنے ملک کی عزت اور عظمت کی خاطراپنا ذاتی مفاد قربان کردیتے ہیں مگر ہمارے سیاستدان اپنے معمولی سے مفاد کے لیے ملک کو بے توقیر کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ چند سال پہلے امریکا میں الگور، بش جونیئرسے صدارتی الیکشن جیت چکا تھا مگر عدالتی فیصلہ اس کے خلاف آگیا تو اس نے فیصلے کے سامنے سر جھکا دیا۔
اس کے چند روز بعد الگور بیرونی دورے پر گیا جہاں میڈیا نے متنازعہ انتخابی نتائج پر سوال پوچھنا شروع کردیے کہ "آپ نے یقیناً متنازعہ نتائج تسلیم نہیں کیے ہونگے؟ آپکو عدالت کے فیصلے پر یقیناًتحفظات ہونگے؟ " اسی طرح کے کئی سوال سن کر امریکا کے مدبّر سیاسی رہنما نے جواب دیا "امریکا کی سیاست پر بات کرنے کے لیے میرے اپنے ملک کی زمین بہت وسیع ہے اور میں اپنی سیاست پر صرف اپنے ملک میں ہی بات کرونگا۔ پھر بھی اگر آپ اصرار کرتے ہیں تو سنیں، امریکا کی عزّت اور عظمت میرے اور بُش کے مفادات اور اناؤں سے بہت بلند ہے اور مجھے اپنی نہیں امریکا کی عزت زیادہ عزیز ہے"۔ کاش ہمارے وزیرِاعظم کی بھی یہی سوچ ہوتی۔