کُرہ ارض کے چوہدری اور وڈیرے مطمئن تھے کہ منصوبہ بندی کے عین مطابق ان کی تہذیبی یلغارمسلم اقدار کو تہس نہس کر رہی ہے۔ مسلم ممالک کے نوجوان امریکا اور یورپ کی فلموں کے دلدادہ اور اسی تہذیب کے پرستار بن چکے ہیں۔
وہ خوش تھے کہ" ہمارے فنڈز سے بنائے گئے ڈراموں نے ان کی بدنی جبلّتوں کو بیدار کر دیا ہے اور روح کو سلا دیا ہے، ہمارے کارندوں کی کتابوں اور کہاوتوں نے مسلم نوجوانوں کو کنفیوژن اور احساسِ کمتری کی دلدل میں دھکیل کر انھیں عمل اور جدوجہدکے جذبوں سے محروم کر دیا ہے اور اب یہ ہماری برتری اور قیادت کو کبھی چیلنج نہیں کر سکیں گے۔ یہ ہمیشہ کے لیے ہمارے غلام بن کر رہیں گے اور ہمارے نظرّیہء حیات کی پیروی کریں گے"۔
وہ پہلی قوموں کی طرح بھول گئے کہ کُر ہ ارض کی زمامِ کار امریکا، یورپ، چین یا روس کے حکمرانوں کے پاس نہیں، اس کا سپریم کمانڈر وہ عظیم ترین شہنشاہ ہے جس کی مرضی کے بغیر ایک پتہ بھی نہیں ہل سکتا اور وہ اگر چاہے تو وقت کے فرعونوں کے لیے کوئی موسیٰ بھیج دیتا ہے یا کسی مچھر یا اس سے بھی چھوٹے کیڑے یا جراثیم کے ذریعے انھیں صفحہء ہستی سے مٹا دیتا ہے۔ وہ باغیوں کو کھلی چھوٹ بھی دے دیتا ہے مگر جب چاہتا ہے ان کی طنابیں کس دیتا ہے۔
کبھی انھیں اپنا ورلڈ آرڈر پھیلانے کی ڈھیل دیتا ہے اور کبھی ان کی یلغار روکنے کے لیے کسی طیب اردوان کو بھیج دیتا ہے جو بولتا ہے تو روح کی گہرائیوں سے اور اس کی آواز کروڑوں انسانوں کے دلوں میں اترتی چلی جاتی ہے مگر بولنے سے زیادہ وہ کر کے دکھاتا ہے اور پھراُس نے کر دکھایا، چوٹی کے تخلیق کار اکٹھے کیے، جدید ترین ٹیکنالوجی فراہم کی۔
کہا گیا کہ ہالی وڈ کی بہترین فلم پر اتنا سرمایہ لگتا ہے، کہا اُس سے دوگنا دونگامگر دنیا میں مسلمانوں کی آخری عظیم ترین سلطنت کے بانیوں پر بنایا جانے والا ڈرامہ ہر لحاظ سے فنی اور تکنیکی اعتبار سے بھی شاہکار ہونا چاہیے اور پھر ایسا شاہکار تیار ہوا کہ اسے دیکھ کر ہالی وڈ کے بڑے بڑے فلمسازبھی حیران اور شسدر رہ گئے۔ دنیا کے اٹھاسی ممالک کے کروڑوں لوگ عثمانیہ سلطنت کے باسیوں پر بنایا گیا، یہ ڈرامہ بار بار دیکھ رہے ہیں۔
پاکستان میں صرف رمضان المبارک کے مہینے میں دس کروڑ سے زیادہ لوگوں نے اسے دیکھااور تسلیم کیا کہ جب سفید گھوڑے پر سوار جری سردار ارطغرل اسکرین پر نمودار ہوتا ہے تو ناظرین کے دل کی دھڑکنیں تھم جاتی ہیں اورجب اُسکا زور آور گھوڑا اپنی اگلی ٹانگیں بلند کر کے ہنہناتاہے تو لگتا ہے آسمان اُس کی زد میں ہے اور اس کا سوار رستے میں آنے والی ہر رکاوٹ اور ظلم کے ہر نشان کو مٹا دے گا۔
ارطغرل اور اس کے جانثاروں کی بہادری، اپنے دین سے لازوال وابستگی، ظلم سے نفرت، انصاف کے لیے کسی بھی حد تک جانے کا جذبہ اور نبی کریمﷺ سے بے پناہ عقیدت اور محبت (حضورﷺ کا نام آتے ہی ار طغرل اور اس کے جانثار کھڑے ہو کر سر جھکاتے ہیں اور عقیدتا سینے پر ہاتھ رکھ لیتے ہیں ) دیکھ کر دل سے آواز نکلتی ہے کہ یہ ہیں حضور ﷺ کے اُن جانثاروں کے سچے وارث کہ جنھوں نے تاجِ سرِدارا کچل دیا تھااور قیصر و قصریٰ کی عظیم سلطنتوں کو روند ڈالا تھا۔
ار طغرل کی شجاعت اور رفعتِ کردار دیکھ کر دل گواہی دیتا ہے کہ واقعی اِس کے جانشین چھ سو سال تک تین برا عظموں پر حکمرانی کرنے کا حق رکھتے تھے۔ بلاشبہ عظیم ترکوں کے اس ڈرامے نے وطنِ عزیز میں چلنے والی بھارتی فلموں اور گھٹیا ڈراموں کے ساتھ وہی حشر کیا ہے جو فرعون کے دربار میں حضرت موسیٰ کے عصا نے جادوگروں کے سانپوں کے ساتھ کیا تھا۔ یعنی اڑا کر رکھ دیا ہے، ارطغرل کا جادو چل چکا ہے اور ہر طرف سر چڑھ کر بول رہا ہے۔
ایک ریٹائرڈ سفیر بتا رہے تھے کہ عید کے دوسرے روز میں نے بیوی سے کہا "کئی مہینے ہو گئے ہیں انڈین فلم دیکھے ہوئے، امتیابھ کی کوئی پرانی ایکشن مووی دیکھتے ہیں یا شاہ رخ کی کوئی رومانٹک فلم دیکھ لیتے ہیں "۔ بیگم سے پہلے بڑا بیٹا بولا "بابا چھوڑیں دفعہ کریں اُسے کیا دیکھنا ارطغرل غازی دیکھتے ہیں "۔ شاہ رخ کے نام پربڑی بیٹی بول پڑی" بابا گولی ماریں اس کو نام مسلمانوں والا رکھا ہوا ہے اور گھر میں بتوں کی پوجا کرتا ہے۔ ہم ارطغرل دیکھیں گے وہ ہیں ہمارے اصلی ہیرو، اُس میں ہمارے مسلمان بھائیوں کی جرات، بہادری اور Muslim values کے ساتھ commitment کو اس طرح highlight کیا گیا ہے کہ ہم جیسے سست لوگ بھی inspire ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے"۔
اسلا م آباد کے سب سے پوش علاقے E-7 میں رہنے والے میاں بیوی اور تین بچے (دونوں بیٹے بیرسٹر اور بیٹی ڈاکٹر) اکٹھے بیٹھ کر روزانہ کئی کئی گھنٹے ارطغرل غازی دیکھتے ہیں، میں نے پوچھا نوجوان بچوں کی اتنی دلچسپی کیوں ہے؟ کہنے لگے ڈرامے سے محبت دراصل ہمارے اپنے عظیم ماضی اوراس کی درخشاں روایات سے جذباتی وابستگی کی مظہر ہے۔ نوجوان کہتے ہیں کہ ہمیں تو اسکرین کے ذریعے یہی دکھایا جا تا تھا کہ ہم کمتر اور یورپین ہم سے بہت برتر ہیں۔ ارطغرل کے ہاتھوں ان کی پٹائی اور پسپائی دیکھ کر فخر محسوس ہوتا ہے۔ ارطغرل نے ہمارے سوئے ہوئے احساسِ تفاخر کو بیدار کر دیا ہے۔
ڈی ایچ اے لاہور اور باتھ آئی لینڈ کراچی میں رہائش پذیر کچھ عزیزوں اور دوستوں نے بھی یہی بتایا ہے کہ "ارطغرل غازی" کے طلسم نے پورے کے پورے خاندانوں اور شہروں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ دس دس گھٹنے بیٹھ کر اپنے قابلِ فخر مسلمانوں کے کارنامے دیکھ کر اٹھنے لگتے ہیں تو بچے بیک زبان اﷲ اکبر کا نعرہ لگاتے ہیں۔
ملک کے ایک معروف اور معتبر تعلیمی ادارے میں پڑھانے والے پروفیسر صاحب سے طلباء و طالبات کی رائے پوچھی توکہنے لگے سب کی متفقہ رائے ہے کہ ڈرامہ انتہائی مسحور کن اور inspiring ہے۔ دراصل عالمی منصوبہ سازوں کا پلان تو یہی تھا کہ پاکستان کے نوجوانوں کو فحش فلموں اور جنس زدہ ڈراموں کی لت ڈال دی جائے اور ان کی قوتوں اور صلاحیتوں کو اس کام پر لگا دیاجائے کہ وہ اسلام کے بنیادی عقائد پر شک کریں اور مغرب کے استحصالی نظام پر، اور دنیا بھر میں لاکھوں بے گناہ مسلمانوں کا خون بہانے پر امریکا اور یورپ پر تنقید کرنے کے بجائے خود پاکستان کے قیام پر تنقید شروع کر دیں۔ اُن کا منصوبہ تو ٹھیک چل رہا تھا مگر پھر ارطغرل آگیا اور اس نے ہر چیز کو تہ و بالا کر دیا۔
ایک غیر جانبدرانہ سروے کے مطابق طغرل اور اس کے جانثاروں کے گھوڑوں کے سُموں کی آواز ( مجاہدوں کے گھوڑوں کے سُموں کی آواز کی خود باری تعالیٰ نے قسم کھائی ہے) دنیا کے چوہدریوں پر لرزہ طاری کر رہی ہے، اسی لیے اُنھوں نے زمانہء حال میں مسلم دنیا کے سب سے بڑے لیڈر طیب اردوان کی نگرانی میں تیار ہونے والے اس شاہکار کو کلچرل بم کا نام دیا ہے۔ جو مسلم نوجوانوں کا احساسِ کمتری ختم کر کے ان کے اندر استعماری قوتوں سے آزادی حاصل کرنے کے جذبے پروان چڑہا رہا ہے اور ان کے اندر اپنی عظمتِ رفتہ حاصل کرنے کی چنگاری کو شعلے میں بدل رہا ہے۔
اسلام کی عظمت سے جُڑی ہر کہانی سے بغض اور عناد رکھنے والے ہمارے آشفتہ سروں کی بے بسی دیدنی ہے۔ وہ کھمبے نوچ رہے ہیں اور بِذیانی کیفیت میں بڑ بڑا رہے ہیں کہ ڈرامے کے ہیرو ترک ہیں، ہمیں اپنے ہیروز پر ڈرامے بنانے چاہیں۔ اور خیر سے اپنے ہیروز میں وہ بادشاہی مسجد کا تقدس پامال کر کے وہاں گھوڑے باندھنے والے رنجیت سنگھ کا نام لیتے ہیں۔ ان سے کوئی پوچھے کہ ہماری محبتوں کے مرکز امرتسر اور بنارس ہیں یا مکہ اور مدینہ؟ کیا حر مین بر صغیر میں ہیں؟ نبی کریمﷺ کے بعد ہمارے سب سے بڑے ہیرو ابوبکرؓ، صدیق ؓ، فاروق اعظمؓ، عثمان غنی ؓاور علی المرتضیٰ ؓ ہیں۔
بہادری اور جُرات میں ہمارے ہیرو خالد ؓبن ولید، ابو عبیدؓ بن جراح، طارق بن زیاد ؓ اور محمدؓ بن قاسم ہیں۔ کیا وہ لوکل تھے؟ ہزاروں میل دور کے مسلمانوں سے ہمارا کیا رشتہ ہے؟ اس کا جواب تو 28 مئی 1998کو اُس فلسطینی بچے نے دے دیا تھا جس نے اُس روز اسرائیلی فوجی پر پتھر پھینکتے ہوئے کہا تھا " یاد رکھو! اب ہمارے پاس ایٹم بم ہے۔ اب تم ہمیں ختم نہیں کر سکتے"۔ اِسی بات کا جواب چند ماہ قبل ہماری پارلیمینٹ سے خطاب کرتے ہوئے مسلم دنیا کے عظیم رہنما لیڈر طیب اردوان نے یہ کہہ کر دیا تھا کہ "پاکستان سے ہمارا رشتہ اقتصادی، فوجی یا تجارتی نہیں، یہ محبت اور عشق کا رشتہ ہے"۔
ارطغرل غازی جہاں ایک طرف لوگوں کے دلوں کو بدل رہا ہے وہیں اس نے دنیا بھر میں فلم اور ڈرامے کے ٹرینڈ تبدیل کر دیے ہیں، اب مسلم دنیا میں مسلم ہیروز پر اعلیٰ پائے کی فلمیں بنیں گی اور ناول لکھے جائیں گے، اب ارضِ پاکستان میں کئی نسیم حجازی پیدا ہوں گے۔ ہمارے فلمسازوں اور ڈرامہ نگاروں کو بھی موضوعات تبدیل کرنا ہوں گے۔ اب ہمارے قلم کاروں کو افلاسِ تخیل سے نجات حاصل کرنا ہو گی کہ ناظرین اب مقدس رشتوں کو پامال کرنے والے لَچر ڈراموں سے متنفر ہیں۔
اس ضمن میں کیاہمارے دامن میں ایسا کچھ ہے جو ہم دنیا اور نئی نسل کو دکھا سکیں؟ ہاں ہے! ہمارے پاس اقبال ؒ کا انتہائی توانا فکر و فلسفہ اور قائداعظم ؒ کی عظمتِ کردار کی صورت میں بہت بڑا سرمایہ ہے۔ اقبال ؒ کے خواب اور نظرئیے کو قائد ؒ نے جس طرح تاریخی جدوجہد کے ذریعے عملی شکل دی اور پاکستان وجود میں آیا، یہ ایک ایساموضوع ہے جس پر انتہائی خوبصورت اور مقبول ڈرامہ بنا یا جا سکتا ہے۔
یہ بات طے ہے کہ مسلم دنیا خصو صاََ ترکی اور پاکستان کے نوجوانوں کو اپنی منزل نظر آچکی ہے اور وہ تقلید، غلامی اور محکومی کی نہیں، وہ مسلمانوں کی رفعت اور عظمت کی منزل ہے۔