جب دوست پوچھتے کہ عید پر گاؤں جائیں گے یا یہیں رہیں گے تو میں جواب دیتا کہ اب میرے دو گاؤں ہیں۔ ایک اسلام آباد سے باہر وہ بستی جہاں آج کل رہتا ہوں اور دوسرا آبائی گاؤں کٹھوڑ۔ دونوں کا مجھ پر حق ہے، لہٰذا عید کی نماز ڈی ایچ اے میں ادا کی اور اس کے بعد اپنے آبائی گاؤں روانگی ہوگئی۔ اب پچھلے ایک ہفتے سے یعنی عید کے بعد سے گاؤں میں ہوں۔
گرمی اپنے جبر اور جلال کے تمام ریکارڈ توڑ رہی ہے۔ بجلی کی آنکھ مچولی بھی جاری رہتی ہے، کبھی آتی ہے کبھی جاتی ہے اور کبھی ہلکی سی جھلک دکھا کر پھر چلی جاتی ہے، یعنی ہجر اور فراق کے تجربات سے ہر روز گذارتی ہے۔ گرمی کے شدّت کے سامنے ائیرکنڈیشنر بے بس معلوم ہوتے ہیں۔ اسلام آباد سے فون آتے ہیں کہ "اتنی شدید گرمی میں وہاں کیا کررہے ہیں، واپس کب آرہے ہیں؟" مگر میرا اس بار گرمی سے خوفزدہ ہونے یا ڈر کر بھاگنے کا ارادہ نہیں بلکہ اس سے پنجہ آزمائی کا ارادہ ہے۔ گرمی سے دو دو ہاتھ کرنے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ اس سے فرار اختیار کرنا یا ڈرنا چھوڑدیا جائے۔
میں نے اس سے نمٹنے کا پروگرام اس طرح بنایاہے کہ ائیرکنڈیشنر کی محتاجی چھوڑ دی ہے۔ اگر بجلی بند ہوجائے (اور یہ حادثہ دن میں کئی کئی بار رونما ہوتا ہے) تو قمیص اتار دیتا ہوں، اگر جسم پسینے سے شرابور ہوجائے تو غسل خانے کا رخ کرتا ہوں اور طویل دورانیے کا شاور لیتا ہوں، اس سے ایک ڈیڑھ گھنٹہ بڑا خوشگوار گزر جاتا ہے۔ کل سہ پہر کے چار بجنے تک میں پانچ بار نہا چکا تھا۔
رات کو بجلی کی آمد کم اور رفت زیادہ ہوتی ہے۔ وقتِ شب وصلِ برق کے لمحات کم نصیب ہوتے ہیں مگر جونہی رات کو لوڈشیڈنگ حملہ آور ہوتی ہے، میں بنیان بھی اتار پھینکتا ہوں اور نیکر پہن کر چھت پر پہنچ جاتا ہوں اور ٹھنڈی اور نرم و لطیف ہوا سے لطف اندوز ہوتا ہوں۔ دو روز پہلے جب لوڈشیڈنگ نے پہلا حملہ کیا تو میں کمرہ چھوڑ کر چھت پر پہنچ گیا اور پھر وہاں کا منظر دیکھ کر مبہوت ہوکر رہ گیا۔ صاف فضا، روشن ستاروں سے سجا ہوا آسمان جس پر ٹھنڈی اور میٹھی روشنی سے بھرپور چودھویں کا چاند پوری آب وتاب سے چمک رہا تھا۔
میرے منہ سے بار بار اس مسحور کن منظر کے خالق کی حمدوثنا نکلتی رہی سبحان اللہ۔ جب اس حسین اور خوشنما منظر کے سحر سے نکلا تو کافی دیر تک سوچتا رہا کہ اگر شہروں کے امیر لوگ جنریٹر سے بجلی پیدا کرکے ہر وقت ٹھنڈے کمروں میں رہتے ہیں تو ربِ کریم نے دیہاتوں کے باشندوں کو بھی اپنی نعمتوں سے محروم نہیں رکھا، انھیں کچھ ایسی نعمتیں بھی عطا کردی ہیں کہ شہروں کے لوگ جن سے محروم ہیں۔ دنیا کے ہر ادب میں چودھویں کا چاند غیر معمولی حُسن کا استعارہ سمجھا جاتا ہے مگر شہروں میں بسنے والے بہت کم لوگ ہوں گے جنھوں نے چودھویں کے چاند کا نظارہ کیا ہے۔
صاف آب وہوا اور آلودگی سے پاک فضا ایسی نعمت ہے جن سے تمام بڑے اور چھوٹے شہر بھی محروم ہوچکے ہیں۔ ملک کے تمام شہر چھان ماریں آدھ کلو خالص دودھ نہیں مل سکتا، صاف فضاء اور خالص دودھ اب صرف گاؤں میں ہی مل سکتے ہیں۔ اور پھر قدرت نے ہمیں ایک ایسی نعمت سے نوازا ہے جس سے ملک کا پچانویں فیصد حصہ محروم ہے۔ ہمارے گاؤں کا ٹھنڈا اور میٹھا پانی جو بھی پیتا ہے وہ پکار اٹھتا ہے کہ دو دو سو روپے والی بوتلوں کا پانی اس قدرتی پانی کا پانی بھرتا ہے۔ اس کے علاوہ کھیتوں سے اپنی آنکھوں کے سامنے اترنے والی تروتازہ سبزی کا ذائقہ بھی لاجواب ہے، اور اپنے گھر کے ایک پرانے اور گھنے درخت سے اتارے ہوئے خالص شہد کی تاثیر بھی بے مثال ہے۔
اِس بار گاؤں میں ہفتہ دس دن رہ کر میں نے گرمی کی شدّت کا مقابلہ قوّتِ برداشت اور قوّتِ ارادی سے کیا ہے۔ میرے اندر کا آرام طلب انسان بار بار یہ کہہ کر حوصلہ شکنی کرتا رہا کہ جو جسم نصف صدی سے آسائشوں اور آسانیوں کے عادی ہوں انھیں ایک دم مشقّت کی بھٹّی میں ڈال دیا جائے تو وہ ٹوٹ جاتے ہیں مگر میں نے سہل پسندی پر اُکسانے والی ایسی تمام باتوں کو مسترد کردیا اور تہیّہ کرلیا کہ اس بار حدّت کی شدّت کو اپنے اوپر حاوی نہیں ہونے دینا اور گرمی اور لوڈشیڈنگ کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا ہے۔ جس طرح پہلے ذکر کیا ہے کہ تپش ناقابلِ برداشت ہوجائے تو اس کا علاج پانی سے کریں۔
بدن کا اندرونی حصہ تربوز کے پانی (جوس) سے اور بیرونی حصہ شاور سے یا نلکے کے پانی سے ٹھنڈا کرتے رہیں یعنی جونہی گرمی بڑھے تو جسم کو پانی سے گیلا کرلیں۔ اس کے علاوہ دوسرا طریقہ یہ اختیار کیا گیا کہ جونہی گرمی کی شدت میں اضافہ ہوتا، میں ماضی کے اُس دور کو یاد کرکے دل کو حوصلہ دیتا کہ جب گاؤں میں بجلی نہیں تھی تب بھی زندگی بڑی خوشگوار تھی۔
تب لوگوں کی صحت اچھی اور جسمانی طاقت زیادہ ہوتی تھی۔ اُس وقت ہم ہاتھ سے چلنے والے نلکے سے نہاتے تھے، گرمیوں میں ناشتہ کرکے چارپائیاں گاؤں کے پاس ٹاہلی کے بہت بڑے درخت کے نیچے لے جاتے اور دوپہر وہیں گذارتے۔ ٹاہلی (شیشم) کے پاس سے کھالہ (چھوٹا نالہ) گزرتا تھا، تازہ تربوز اور خربوزے توڑ کر کھال میں ڈالتے اور ایک گھنٹے بعد نکال کر کھاتے اور لطف اٹھاتے۔ اُس وقت قریبی راجباہ ہمارا سوئمنگ پول اور بہتے کھال کاپانی ہمارا ریفریجریٹر تھا۔ نہ کبھی بجلی یاد آئی تھی اور نہ ہی فریج اور اے سی کو مِس کیا تھا۔
گاؤں کے مغربی کونے پر ماچھیوں کا گھر تھا، وہاں سے دانے بھنوا (بھٹی سے بھنے ہوئے چنے) کر منگوالیتے اور دوپہر کو بھنے ہوئے چنوں سے عیاشی کی جاتی۔ سہ پہر کو وہیں کبڈی کھیلتے یا لمبی چھلانگوں (لانگ جمپس) کا مقابلہ ہوتا۔ رات کو ملازم پہلے چارپائیاں چھت پر چڑہاتے، پھر مرغیوں اور ان کے چوزوں کو چھت پر لے جاکر ٹوکروں کے نیچے محفوظ کرتے اور آخر میں اشیائے خورد و نوش اور برتن چھت پر چڑھائے جاتے اور وہیں رات کا کھانا کھایا جاتا۔ چونکہ گاؤں کے تمام لوگ چھتوں پر سوتے تھے۔
اس لیے سرِ شام چھتوں پر ایک علیحدہ گاؤں آباد ہوجاتا۔ خواتین قریبی چھتوں پر ہمسائیوں سے گپ شپ بھی کرتی رہتیں۔ کبھی کبھار اگر ہمسائیوں کی لڑائی ہوجاتی تو پھر پورا گاؤں enjoy کرتا مگر جب الزام اور دشنام پارلیمانی حدود میں داخل ہونے لگتے یعنی متحارب بیبیاں معیوب زبان پر اتر آتیں تو بزرگ مداخلت کرتے اور فریقین کو زبانیں اور دوپٹّے سنبھالنے پر آمادہ کرلیتے۔ 1962میں ماموں جان امریکا کے دورے پر گئے تو واپسی پر ابّاجان کے لیے ایک اعلیٰ درجے کا ٹرانزسٹر لے آئے۔
1965کی جنگ میں ہم رات کو اپنی چھت پر ہی اپنی ایئرفورس کے ہاتھوں بھارتی جہازوں کی درگت بنتے دیکھتے اور صبح والد صاحب گاؤں کے "دارے"(ڈیرے) میں برنے کے درخت کے نیچے ٹرانزسٹر لے کر چلے جاتے جہاں آدھا گاؤں ان کے ارد گرد بیٹھ کر جنگ کی تازہ ترین صورتِ حال سنتا۔ مذکورہ ٹرانزسٹر بعد میں میرے استعمال میں رہا جس پر میں رات کو موسیقی اور ڈرامے سنتا۔ ہم جوان ہوئے تو میں خود چارپائی چھت پر چڑہانے لگا۔ چارپائی چڑھانے اور اتارنے کا فن میں نے خوب سیکھ لیاتھا۔
رات کو جب بارش آجاتی تو میں فوراً چارپائی اور ٹرانزسٹر سمیت اترتا۔ اس آپریشن کے دوران امریکی ٹرانزسٹر چھت سے درجنوں بار گرا مگر پھر بھی اس کی آواز بند نہ ہوئی۔ میں دل کو سمجھاتا کہ اگر اُس وقت بجلی کے بغیر زندگی بڑی پرسکون اور پرمسرّت تھی تو اب کیوں مشکل لگتی ہے۔ اب بھی آسانی سے گزرجائے گی لہٰذا بجلی کے فراق میں تڑپنے کی ہرگز ضرورت نہیں۔ اس سوچ نے گرمی سے ہتھ جوڑی میں بڑی مدد کی۔
گاؤں میں آٹھ دس روزہ قیام کے دوران سیکڑوں کاشتکاروں اور غیر کاشتکاروں سے ملاقاتیں ہوتی رہیں، گندم کی قیمت بہت نیچے آجانے سے کا شتکار پریشان اور مضطرب تھے جب کہ غریب اور دیہاڑی دار مزدور کسی حد تک مطمئن نظر آئے۔ وجہ پوچھی تو سب نے یہی کہا کہ گندم، چاول اور گھی کافی سستے ہوگئے ہیں، تقریباً تمام اشیائے ضرورت کی قیمتیں نیچے آئی ہیں۔ تاہم امن وامان کے حالات خراب ہونے اور جرائم میں بے تحاشا اضافہ ہونے کا ہر کسی نے ذکر کیا اور اپنی تشویش کا اظہار کیا۔ جرائم کی روک تھام سے، نیچے سے اوپر تک کے پولیس افسر مجرمانہ چشم پوشی برت رہے ہیں جو بے حد تشویشناک ہے۔ پڑھے لکھے کاشتکار مرکزی اور صوبائی حکومتوں سے شکوہ کناں تھے۔
ان کی اس بات میں خاصا وزن نظر آیا کہ حکومت نے باہر سے غیر معیاری گندم خریدنے پر جو اربوں روپیہ ضایع کیا ہے، اسی رقم سے وہ کاشتکاروں سے سرکاری قیمت پر گندم خرید کر فلور ملوں کو Subsidised ریٹ پر فروخت کرتی تاکہ کاشتکار بھی نقصان سے بچ جاتے اور عوام کو آٹا اور روٹی بھی سستے داموں ملتے رہتے۔ اس سے دونوں فریق مطمئن رہتے۔
آخری روز میں نے کچھ VIP مہمانوں کو مدعو کیا۔ گاؤں کی بیوگان، مریضان کم وسیلہ افراد اور ان کے بچّے بڑی تعداد میں گھر کے لان میں اکٹھے ہوئے۔ خواتین وحضرات کرسیوں پر اور چھوٹے بچے گھاس پر بیٹھ گئے اور پھر انھیں برف میں لگے ہوئے ٹھنڈے اور میٹھے جوس پلائے گئے۔ اگلے ماہ انشاء اللہ ان کے اعزاز میں مینگو پارٹی ہوگی، میری آپ سب سے گذارش ہے کہ معاشرے کے نادار اور کم وسیلہ افراد کو ان نعمتوں میں ضرور شریک کیا کریں جو ربِّ کائنات نے آپ کو عطا کی ہیں۔