وہ ملک اور معاشرے جہاں آئین اور قانون کی علمداری نہ ہو اور جہاں قوائدو ضوابط کا کوئی احترام نہ ہو وہاں نان اشوز کو قومی مسئلہ بننے میں دیر نہیں لگتی۔ آئی جی کا تبادلہ کوئی غیر معمولی واقعہ نہیں، ایک روٹین کی بات ہے مگر اسے ایک قومی اشو بنا دیا گیا ہے کیونکہ کچھ قواعد و ضوابط یا روایات سے انحراف کیا گیاہے۔
سول سرونٹس کی اکثریت نہ اپنے آپ کو پبلک سرونٹ سمجھتی ہے اور نہ حکمران انھیں پبلک سرونٹ بننے کی اجازت دینے کے لیے تیّار ہیں، اپنے آپ کوجمہوری کہلانے والے حکمران بھی سرکاری ملازمین کو ذاتی ملازموں کی طرح استعمال کرنا چاہتے ہیں، جو انکار کریں انھیں فوری طورپر ہٹا دیا جاتا ہے اورپانچ پانچ سال تک کسی بھی نوکر ی سے محروم رکھا جاتا ہے۔
پولیس افسروں کی بھی کئی اقسام ہیں، پہلی قسم کے افسران کا ایجنڈا بڑا واضح ہے، نوکری کے ذریعے اپنی اور اپنے خاندان کے اقتصادی حالات بہتر بنانا ان کی ترجیحِ اوّل ہے، اسلیے وہ تابعداری سے نوکر ی کرتے ہیں اور بااثر افراد کے سامنے سرجھکا دیتے ہیں، دوسری قسم کے افسروہ ہیں جودیانتدار ہیں اور قانون اور کتاب کے مطابق کام کرنے کی کوشش کرتے ہیں، ایسے افسر نوکریوں کے پیچھے نہیں بھاگتے اسلیے جب بااثر افراد کی خواہشات کے رستے میں ان کی قانون پسند ی رکاوٹ بنتی ہے تو اس رکاوٹ کو ہٹا دیا جاتا ہے اور پھر وہ کئی کئی سال تک کُھڈے لائن لگے رہتے ہیں، کبھی کوئی اچھا وزیرِ اعلیٰ یا آئی جی آجائے تو انھیں اچھی پوسٹنگ مل جاتی ہے۔
تیسری قسم کے افسران بڑے ذہین اور گھاگ ہوتے ہیں۔ انھوں نے سیا سی حکومتوں کا توڑ اسطرح ڈھونڈ لیا ہے کہ اپنے آپ کو سیا سی حکمرانوں سے زیادہ طاقتور گروپوں کے ساتھ وابستہ کر لیا ہے یعنی اپنی وفاداری اصل مقتدر افراد کے دامن میں ڈال دی ہے۔ جس سے انھیں سیا سی حکمرانوں کے فیصلوں کے خلاف تحفظّ مل جاتا ہے۔
سندھ کے تمام باخبر حلقے جانتے ہیں کہ سندھ حکومت کی کارکردگی ناقص ہے اورعوام اس سے غیرمطمئن ہیں۔ اسلیے جو شخص بھی سندھ حکومت کے لیے پریشانی کا باعث بنتاہے عوام کی اکثریت اسے پسند کرتی ہے اور اس کے ساتھ کھڑی ہو جاتی ہے۔ ادھر آئی جی سندھ کلیم امام ایک ایماندار افسر ہے مگر ا سکی وجہء شہرت اس کے تعلقات ہیں جنکی بناء پر وہ ہمیشہ اپنی مرضی کی پوسٹنگ لیتا رہا ہے۔
کلیم امام آئی جی بننے سے پہلے کبھی سندھ میں تعینات نہیں رہا پھر بھی اسے سندھ کا آئی جی لگانے کی سفارش خود سندھ حکومت (یعنی زرداری صاحب) نے کی تھی۔ وزیرِاعلیٰ سندھ اگر یہ بتا دیں کہ وہ مذکورہ افسر کی کونسی ادا سے متاثر ہو کر انھیں سندھ کا آئی جی لگوانا چاہتے تھے۔ یا یہ بتادیں کہ قبلہ زرداری صاحب نے کس کی سفارش پر اسے آئی جی سندھ لگانے کی منظوری دی تھی تو اس سے سارا اشو سمجھنے میں مدد ملیگی۔ کیا کلیم امام کے "سفارشی" نے زداری صاحب کو یہ کہہ کر قائل کیا تھا کہ "یہ بڑا ایماندار افسر ہے اور قانون کی حکمرانی قائم کریگا"ہرگز نہیں، زرداری صاحب کا ان چیزوں سے کیا لینادینا وہ تو عملی آدمی ہیں اور بغیر گارنٹی کے منظوری نہیں دیتے، باضمیر افسر تو کبھی اُنکے پسندیدہ نہیں رہے یہی وجہ ہے کہ بشیرمیمن اور ڈاکٹر نجف مرزاکو وہ صوبہء سندھ میں برداشت کرنے کے لیے تیّار نہیں تھے۔ موصوف کو تعینات کر تے وقت کسطرح کی گارنٹیاں لی گئیں؟
دوسری طرف سند ھ حکومت کے وہ اقدامات جن سے آئی جی کے عہدے کو کمزور اور بے دست و پا کیا گیا غلط اور نامناسب تھے۔ پولیس کے تمام افسران آئی جی کی ٹیم کے ارکان ہوتے ہیں۔ آئی جی کواعتماد میں لیے بغیر کسی ڈی پی او یا ڈی آئی جی کو تبدیل کرنا یا صوبے سے نکال دینا بالکل غلط اقدام تھا جسے کسی صورت درست قرار نہیں دیاجا سکتا۔
لیکن آئی جی کے تبادلے کے لیے وزیرِاعلیٰ اگر وزیر اعظم سے گذارش کرتا ہے اور اس سلسلے میں کئی خط لکھتا ہے اور قاعدے کے مطابق افسران کے ناموں کا پینل بھی بھیجتا ہے تو قواعد کے مطابق وزیراعظم کو پینل میں سے کسی اور افسر کو تعینات کر نا چایئے تھا۔ نیاآئی جی تعینات نہ کر کے وزیر اعظم نے صوبائی حکومت کو مذاق بنا دیا ہے۔ لگتا ہے کہ وفاقی حکومت کوزرداری صاحب کی اس کمزوری کا پتہ چل گیا ہے لہٰذا پرائم منسٹر آفس اس کمزوری سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔ وہ زرداری صاحب کو کچھ دیر مزید تنگ کریگا یاا سکے بدلے اُن سے کوئی ڈیل کریگا۔ ممکن ہے بلاول کی تقریریں نرم ہو جائیں۔
جہاں تک اصول اور ضابطے کا تعلق ہے، آئی جی کی تعیناتی اس حکومت کی صوابدید ہونا چایئے جسکے ذمے امن و امان قائم رکھنااور جرائم کا تدارک کرنا ہے۔ اگر کسی صوبے میں امن و امان کے حالات ابتر ہوجائیں تو عوام صوبائی حکومت یا صوبے کے وزیرِ اعلیٰ کو ہی اس کا ذمے دار گردانتے ہیں لہٰذااسے آئی جی کی تعیناتی کے حق سے محروم کر دینا زیادتی ہے، یہ ان کا حق ہے اور اسمیں کسی قسم کی تاخیر غلط فہمیاں پیدا کریگی جو ملکی وحدت کے لیے نقصان دہ ثابت ہوگی۔
مجھے یاد ہے کہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف 2013 میں وزیراعظم بنکرکراچی گئے تو وہاں تاجروں، صنعتکاروں نے امن و امان کی ابتر صورتِ حال کا اسقدر رونا رویاکہ وفاقی حکومت اور ملٹری حکام نے یہ فیصلہ کیا کہ فور ی طور پر نیا آئی جی تعینات کیا جائے۔ سندھ میں امن و امان کی بحالی کے لیے وفاقی حکومت مجھے آئی جی سندھ لگانا چاہتی تھی لیکن وہاں کی صوبائی حکومت نے تحفظات کا اظہار تو میں نے خود پرائم منسٹر سے ملاقات کرکے معذرت کی اور کہا کہ اگر صوبائی حکومت کو تحفظات ہوں تو میں وہاں لگنے کے لیے تیار نہیں ہوں کیونکہ جرائم کی بیخ کنی کے لیے صوبائی حکومت کی سپورٹ ضرو ری ہے اگر وہ حاصل نہ ہو تو آئی جی موثّر طورپر کام نہیں کر سکتا۔
پرائم منسٹر کے پرنسپل سیکریٹری نے بعد میں بھی مجھے کئی بار کہا کہ حکومت حالات کی بہتری کے لیے آپکو ہی آئی جی سندھ لگانا چاہتی ہے۔ مگر میں نے انھیں واضح طور پر کہہ دیا کہ صوبائی حکومت کی مخالفت کے باوجود وہاں آئی جی لگانا مناسب نہیں "میں وہاں جاکر مجرموں سے لڑوں گا یا حکومت سے " سندھ کی صورتِ حال یہ ہے کہ جو بھی زرداری صاحب کی حکومت کا معتوب ٹھہرتا ہے شہر ی اسے پسند کرتے ہیں۔
کلیم امام کو بھی لوگ پسند کرنے لگے ہیں مگر وہاں کے نیک نام افسروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ آئی جی کی توجّہ اپنے پروفیشنل کام پر کم اور سیمیناروں وغیرہ پر زیادہ رہی اور یہ کہ انھوں اپنے آپ کو کراچی تک محدود رکھا اور رورل سندھ کو نظر انداز کیا۔ دوسری طرف جب صوبائی حکومت ایک سرکاری افسر کے اس حد تک خلاف ہوجائے کہ پوری کابینہ فیصلہ کر دے کہ اسے صوبے سے ہٹا دیا جائے تو کلیم امام کو خود ہی چلے جانا چا ئیے تھا_ زیادہ مناسب ہوتا کہ وہ چھٹی پر چلا جا تا یا خود وفاقی حکومت سے کہہ کر اسلام آباد میں کہیں اور تبادلہ کر ا لیتا۔
صوبائی حکومت کی مخالفت کے باوجود ایک جگہ چمٹے رہنا کسی باوقار سول سرونٹ کے شایانِ شان نہیں ہے۔ جہاں تک آئی جی کی ٹی وی پر چلنے والی تقریر کا تعلق ہے جسمیں موصوف نے کہا تھا کہ "میں اتنی آسانی سے نہیں جانے والا __گیابھی تو زیادہ بہتر جگہ جاؤنگا اور پھر میں ( مرے ہوئے ہاتھی کیطرح) سوالاکھ کا ہونگا"۔ یہ باتیں بھی بچگانہ اور nonprofessional ہیں۔ سول سرنٹس اپنے تعلقات پر نہیں کردار پر فخر کرتے ہیں، ایک اچھے سول سرونٹ کیطرح اسے صرف یہ کہنا چایئے تھاکہ "پوسٹنگ اور ٹرانسفر سروس کا حصہ ہیں، جب آرڈر ملے گا تو چلا جاؤنگا مگر جب تک ہوں قانون کے مطابق کام کرتا رہوں گا"۔
پولیس سروس میں ایسے افسر بھی رہے ہیں جو یہ چاہتے تھے کہ آئی جی کی پوسٹنگ اور ٹرانسفر ایک منتخب وزیرِ اعلیٰ کے بجائے ان کے ہاتھ میں دے دی جائے ان میں سے کچھ کسی کورس کے سلسلے میں جاپان گئے تو وہاں پبلک سیفٹی کمیشن کی اصطلاح سن آئے اور واپس آکر انھوں نے اسے یہاں نافذکرنے کی کوشش کی حالانکہ ہمارے اور جاپان کے سیاسی اور سماجی حالات اور امن و امان کے چیلنجز میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اُسوقت بھی اِس ناچیز نے اس کی مخالفت کی تھی۔
ایک بار جب وزیراعظم کے سامنے presentationکے لیے CPLCکراچی والے جمیل یوسف کو تیار کیا جارہا تھا اور اسطرح کی تجاویز دی گئیں کہ وزیرِاعلیٰ تین افسروں کا پینل بھیجے اور آئی جی لگانے کا حتمی اختیار پبلک سیفٹی کمیشن کو دیا جائے تو اسوقت بھی راقم نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے گذارش کی تھی کہ جس وزیرِاعلیٰ کی آئی جی کی تعیناتی میں کوئی مشاورت یا عمل دخل نہیں ہوگااسے امن وامان کا ذمے دار کیسے ٹھہرایا جائیگا اور پھر وہ ایسی پولیس کوہرگز own نہیں کریگا۔
اب صورتِ حال یہ ہے کہ ایک صوبے کی حکومت پولیس کے سربراہ پر جانبداری کا الزام لگا رہی ہے وزارء اسے PTIGکہہ کر طعنے دے رہے ہیں اور وفاقی حکومت تماشا دیکھ رہی ہے بلکہ اسی نے تماشالگا رکھا ہے۔ ایسی صورت میں آئی جی کی کمانڈکمزور ہوجاتی ہے اور امن وامان پربڑے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں، اسلیے میرے خیال میں مزید تاخیر کیے بغیر وہاں غلام نبی میمن، ڈاکٹرا میر شیخ یا عبدالخالق شیخ میں سے کسی کو آئی جی سندھ لگا دینا چائیے۔
رولز میں اتنی تبدیلی ضرور ہونی چائیے کہ اگر صوبائی کا بینہ کسی آئی جی کو ہٹانا چاہتی ہے تو صوبائی حکومت کا بینہ کی منظوری کے بعد نئے افسروں کا پینل بھیج دے۔ اس کے ایک ہفتے کے اندر وفاقی حکومت نیا آئی جی تعینات نہ کرسکے تو اسٹیبلشمنت سیکریٹری اس بات کا پابند ہوکہ آٹھویں روز متعلقہ آئی جی کو OSD کرنے کا اور اس صوبے کے سب سے سینئر افسر کو قائم مقام آئی جی مقررّ کر نے کا نوٹیفیکیشن جاری کردے۔ سندھ حکومت کو بھی چائیے کہ وہ اپنی اداؤں پر غور کرے، اپنی گورننس بہتر کرے، کرپشن پر قابو پائے اور ایمانداری کا کلچر پروان چڑھائے۔