بک کارنر جہلم کا نام کئی سالوں سے سن رکھا تھا، اسلام آباد کے پاک چائنا سینٹر میں لگنے والے سالانہ کتب میلے میں (جو اسلام آباد کی تہذیبی اور سماجی زندگی کا ایک نمایاں جز بن چکا تھا، ایسے اقدامات اور اعلیٰ روایات کے خاتمے کے لیے تبدیلی سرکار ہی کافی تھی، اوپر سے کورونا بھی آگیا اوروہ سب روشن منظر نامے خواب و خیال بن کر رہ گئے) اُن کے جاندار اور شاندار سٹال دیکھنے کا بھی موقع ملتا رہا مگرادارے کے خدوحال کا صحیح اندازہ نہ ہوسکا۔
اب جہلم جاکر بک کارنر شوروم دیکھا تو آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ بالکل اندازہ نہیں تھا کہ اِس خطے میں جو مسلح افواج کو اپنے جوان مہیا کرنے کے لیے معروف ہے، علم کے فروغ کا اتنا بڑا ادارہ وجود میں آجائیگا۔
آج کل دو سگے بھائی، گگن شاہد اور امر شاہد اس عظیم علم کدے کے مالک اور منتظم ہیں۔ گگن سے تو ملاقات تھی، پچھلے کچھ مہینوں سے امر شاہد سے رابطہ زیادہ بڑھا۔ پھر ایک روز انتہائی دکھ کے ساتھ انکے والد محترم اور ادارے کے بانی جناب شاہد حمید صاحب کی وفات کی خبر سنی تو جہلم جاکر اظہارِ افسوس اور دعا کرنے کا پروگرام بنالیا۔ اپنے ڈی ایچ اے کے گرائیں ظفر رضا صاحب (جو پنجاب کے اکاؤنٹنٹ جنرل اور وفاق میں ایڈیشنل سیکریٹری رہ چکے ہیں اور اب اردو ادب کے سکہ بندنقادوں میں شمار ہوتے ہیں) سے بات کی تو وہ بھی تیار ہوگئے۔
لاہور میں تو سنگِ میل، فیروز سنز، منشورات یا ماورا جیسے نشر واشاعت کے بڑے ادارے موجود ہیں مگر خطہء پوٹھوہار کے عوام کی علمی پیاس بجھانے کے لیے قدرت نے یہاں شاہد حمیدکو بھیج دیا۔ انکی والدہ پڑھی لکھی تھیں جن کی تربیت نے انکے اندر علم سے محبت پیدا کردی، جو وقت کے ساتھ ساتھ عشق میں ڈھل گئی۔ فروغِ علم کو انھوں نے حرزِ جاں بنالیا اور اسی کو منزلِ مقصود قرار دیا۔ 1970میں انھوں نے انصاف لائبریری قائم کرکے منزل کی جانب پہلا قدم اُٹھالیا۔ 1973میں بڑی جگہ خرید کر بک شاپ بنائی اور کتابوں کی نشرو اشاعت کا کام شروع کردیا۔
1981میں خود پبلشنگ شروع کردی۔ 1992 میں دریائے جہلم میں طوفانی سیلاب آیا تو پرنٹنگ مشینیں بھی تباہ ہوگئیں، مگر یہ طوفان شاہد حمید صاحب کے شعلہء جنوں کو سرد نہ کرسکا اور انھوں نے غیر متزلزل عزم اور حوصلے کے ساتھ اپنا سفر جاری رکھا۔ اور پھر ان کے دونوں بیٹے بھی جوان ہوکر انکے شریکِ سفر ہوگئے۔ 2004 میں انھوں نے بک کارنر شوروم قائم کیا جسکا آج ملک کے چوٹی کے پبلشنگ ہاؤسز میں شمار ہوتا ہے۔ فیس بک پر بک کارنر شوروم کے followers کی تعداد چھ لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے۔ وہ اب تک مذہب، تاریخ، شعر و ادب، فلسفہ، نفسیات، ادبیات ولسانیات، اقبالیات، طنزو مزاح، فارسی ادب، کلاسیکی ادب، بچوں کے ادب، سفر نامے اور آپ بیتی جیسے موضوعات پر سیکڑوں کتابیں شایع کر چکے ہیں۔ مگر انکی توجّہ مقدار کے بجائے معیار پر رہتی ہے۔
اعلیٰ کوالٹی ان کا خاصہ ہے اور وہ کسی صورت اپنا معیار نیچے نہیں آنے دیتے۔ رضا صاحب اور راقم دونوں بھائیوں کے پاس افسوس اور دعا کرچکے تو امر شاہد ہمیں کتابوں کے شوروم میں لے گئے جسے دیکھ کر دل باغ باغ ہوگیا۔ ہر صنف کا علیحدہ سیکشن ہے جہاں جدید و قدیم کتب کا وسیع ذخیرہ موجود ہے جسے ایک ترتیب کے ساتھ الماریوں میں سجایا گیا ہے۔ ظفررضا نے ایک دو نایاب کتب کا نام لیا، خیال تھا کہ شاید نہ مل سکیں مگر انکا اسٹاف متعلقہ سیکشن سے وہ کتابیں بھی لے آیا۔
میں خود برّصغیر کے عظیم اسکالر مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کی علاّمہ اقبالؒ کے فکر و فلسفہ پر لکھی گئی کتاب نقوشِ اقبال، کی تلاش میں تھا۔ اقبال اکیڈیمی والوں سے بھی کئی بار رابطہ کرکے مایوس ہوچکا تھا۔ میں نے اس کا ذکر کیا تو دو منٹ کے بعد مطلوبہ کتاب میرے ہاتھ میں تھی۔ ہمیں پوٹھوہار کا یہ علم کدہ ایک حیرت کدہ لگ رہا تھا جہاں ہر عمر کے لوگ علم کی پیاس بجھانے آرہے تھے اور اپنی پسند کی کتابیں خرید کر لے جارہے تھے۔ امر شاہد نے بتایا کہ لوگ کتاب بینی کا رجحان کم ہونے کا گلہ کرتے ہیں مگر ہمیں تو بالکل محسوس نہیں ہوتا اور اب بھی ہم ایک مہینے میں کم از کم دس نئی کتابیں چھاپتے ہیں۔
بک کارنر نے جہاں برصغیر کے کلاسیکی ادیبوں کی کتابیں نئے اوردیدہ زیب انداز میں چھاپی ہیں وہیں عالمی سطح کے معروف ادیبوں ٹالسٹائی، چیخوف، گورکی، بالزاک، میخائل خولوخوف، جارج آرویل، حمزہ توف، ڈیل کارنیگی، پاؤلوکوئیلو، ایڈورڈ ڈی بونو، اسٹیفن ہاکنگ، کرن آرمسٹرانگ، ہیرلڈلیم اور مسلمان مصنفین محمد حسین ہیکل، ڈاکٹر طہٰ حسین، علامہ شبلی نعمانی، سید سلیمان ندوی اور ڈاکٹر ذاکر نائیک کی کتابیں بھی انتہائی دلکش انداز میں چھاپی ہیں۔
کتاب سے ناتہ مضبوط ہونا چاہیے، اسکے لیے ضروری ہے کہ حکومت ناشرین کی حوصلہ افزائی کرے۔ حکومت اتنا ہی کرے کہ ہر ضلعی ہیڈکوارٹر میں سالانہ کتاب میلہ منعقد کروائے اور منعقد ہونے والے کتاب میلوں میں اسٹال لگانے کے لیے پبلشرز سے کوئی فیس نہ لی جائے۔ اگر انھیں وہاں اسٹال لگانے کا بھی ٹیکس دینا پڑے گا تو وہ کتابوں کی قیمت بڑھا دینگے جسکا بوجھ قاری کی جیب پر پڑیگا اور اسکی قوتّ ِخرید متاثر ہوگی، جس سے کتب کی عدم خرِید کا رجحان بڑھے گا اور ناخواندگی اور ذہنی افلاس میں اضافہ ہوگا۔
شاہد حمید صاحب کو کتاب سے عشق اور فروغِ علم کا جنون تھا۔ گگن اور امر بھی اُسی جذبے اور جنون سے سرشارہوکر اپنے والد کی روایت کو آگے بڑھا رہے ہیں، ہماری دعا ہے کہ خالق و مالک انکے جذبے کبھی ماند نہ پڑنے دے اور انکی آتشِ جنوں کبھی سرد نہ ہونے پائے۔
تشویشناک صورتِ حال
اللہ والوں کی زبانی خود سنا ہے کہ برصغیر میں سب سے بڑے اور سچے عاشقِ رسولؐ ڈاکٹر محمد اقبال بارایٹ لاء تھے کہ جنھوں نے حضورؐ کی مدح میں ایسے ایسے شعر تخلیق کیے کہ لگتا ہے وہ بنے بنائے (Ready Made)آسمانوں سے اترے تھے۔ کسی اور زبان میں ایسے شعر تخلیق نہ کیے جاسکے۔
لوح بھی تو قلم بھی تو تیرا وجود الکتاب
گنبدِ آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب
اقبال جیسے علم و معرفت کے کوہ ہمالیہ کی آقائے دو جہاں ؐ سے عقیدت اور عشق کا یہ عالم تھاکہ حضورؐ کا اسم ِ مقدس سنتے ہی رقت طاری ہوجاتی اور آنکھوں سے آنسو رواں ہوجاتے، روضہء نبی ؐ پر حاضری کا وہ وفورِ شوق کہ عشق کی اس شدت میں خیالی سفر کرڈالا اور پھر اس تخیّلاتی سفر میں جو شعر کہے وہ ہم جیسابے عمل شخص بھی خشک آنکھوں سے نہیں پڑھ سکتا۔ جھوٹے نبی اور اس کے مذموم مقاصد کو بھی سب سے پہلے اقبال ؒ نے بے نقاب کیا۔ مگر انھوں نے کبھی عاشقِ رسولؐ ہونے کا دعویٰ نہیں کیا۔
کبھی یہ نہیں کہا کہ میں ناموسِ رسالتؐ کا پہرے دارہوں۔ اقبالؒ کے بعد مسئلہ ختمِ نبوت کی اہمیت کو سب سے بڑھکر سید عطااللہ شاہ بخاری نے سمجھا اور عوام کو بھی روشناس کرایا۔ انھوں نے خود قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں مگر راستے بند کرنے اور املاک جلانے کی کبھی ترغیب نہیں دی۔ آقاؐ کی ذاتِ مبارک سے شاہ جی کو سچّا عشق تھاجسے انھوں نے دنیاوی مقاصد کے لیے استعمال نہیں کیااور ایک کچّے مکان میں وفات پائی۔
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے قادیانی مسئلہ، لکھ کر ختم ِ نبوتّ کے مسئلے کو علمی اور منطقی انداز میں اجاگر کیا۔ جس کے باعث انھیں اور مولانا عبدالستار نیازی کو ایک ملٹری کورٹ نے سزائے موت دے دی۔ مولانا مودودیؒ نے نہ معذرت کی نہ اپنا موقف بدلا۔ دنیائے اسلام کے دباؤ کے تحت حکومتِ وقت کو سزا ختم کرنا پڑی۔ پہلے تو یہ بات سمجھ لیں کہ خالق اور مالک نے اپنے جس محبوب نبی ؐ کو سراجاً منیر قراردیا ہے، رحمت اور ہدایت کے اُس چراغ کو دنیا کی کوئی طاقت گُل نہیں کرسکتی۔ جس محبوبؐ ہستی سے ورفَعنا لکَ ذِکرک کا وعدہ ہوچکا ہے، پوری دنیا کی باطل قوتیں مل کر بھی اسکا مقام اور مرتبہ کم نہیں کرسکتیں۔
؎
چشمِ اقوام یہ نظّارہ ابد تک دیکھے
رفعتِ شانِ رفَعنالَکَ ذِکرک دیکھے
ادھر فرانس کے صدر کا طرزِعمل انتہائی غیر ذمے دارانہ تھا۔ اس مسئلے پر مسلم دنیا کو مشترکہ حکمتِ عملی اپنانی چاہیے تھی۔ اگر ایک مذہبی گروہ کے مطالبے ناقابلِ عمل تھے تو حکومت نے وعدہ کیوں کیا تھا؟ ماضی میں اِنکے دھرنوں کی حمایت کیوں کی جاتی رہی؟ فرانسیسی مصنوعات کا بائیکاٹ کیوں نہ کیا گیا؟ سفیر کا مسئلہ پارلیمنٹ میں کیوں نہ پیش کیا گیا؟ حکومت کا طرزِ عمل انتہائی غیرذمیّ دارانہ ہے۔ لاہور میں لوگوں پر گولیاں برسانا زیادتی ہے، انسانی جانوں کا ضیاع سراسر mis handlingہے۔ صورتِ حال یہ ہے کہ حکمران ناعاقبت اندیش ہیں۔ حالات تشویشناک ہیں اللہ تعالیٰ ملک پر رحم فرمائیں۔