ہماری دینی اور مشرقی اقدار اور روایات اتنی ارفعٰ اور شاندار ہیں کہ ہر طبقہ فکر کے لوگ قبیلے، پارٹی اور مسلک سے بالاتر ہوکر اُن کا احترام کرتے ہیں اور مغربی معاشرہ انھیں رشک سے دیکھتا ہے۔
مخالفت اور دشمنی بھلا کر ایک دوسرے کی خوشی اور غم میں شریک ہونا اور متعلقہ فرد یا فیملی کے جذبات کا احترام کرنا، ہمارے معاشرے کی ایسی ہی سنہری روایت ہے جسکی سب دل و جان سے پیروی کرتے ہیں۔
خاندانی لوگ اور اعلیٰ روایات کے حامل سیاستدان تمام تر مخالفت اور رنجش کو فراموش کرکے ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوتے ہیں اور خوشی و مسرت کے موقعوں پر ایک دوسرے کو مبارکباد دینا بھی نہیں بھولتے۔ چند روز پہلے لندن میں پاکستان کے سابق وزیرِاعظم میاں نواز شریف کے نواسے کی شادی کے موقعے پر جو افسوسناک اور شرمناک حرکت کی گئی وہ ناقابلِ تصور ہے۔
کم از کم میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ حکمران جماعت اپنی دینی اور معاشرتی روایات کو روندتے ہوئے اس حد تک چلی جائے گی کہ اپنے سیاسی حریف کی گھریلوتقریب کو خراب کرنے کے لیے کارندے بھیج دے گی۔ اعلیٰ عدلیہ کے کئی سابق جج صاحبان سے بھی بات ہوئی اور معروف ماہرینِ تعلیم سے بھی، سب نے یہی کہا It was shamful (یہ شرمناک حرکت تھی)۔
آج سے پانچ سال پہلے میاں نوازشریف کی آزمائشوں اور امتحانوں کا دور شروع ہوا، اُن سے پہلے وزارتِ عظمیٰ اور پھر پارٹی کی صدارت چھین کر سزا دلوا دی گئی۔ اب تو یہ راز بھی طشت از بام ہوچکا ہے کہ میاں نواز شریف کو جس "جرم"کی سزا دی گئی وہ کرپشن ہرگز نہیں تھا۔ اس کی تصدیق کئی ریٹائرڈ جنرل اور سابق جج صاحبا ن بھی کرچکے ہیں اور سابق وزیرِداخلہ بریگیڈیئر اعجاز شاہ تواندر کی بات بتا چکے ہیں کہ اگر فلاں فلاں شخص میاں نوازشریف کا وزیر نہ ہوتا تو وہ چوتھی بار بھی وزیرِاعظم ہوتے، یعنی انھیں ہٹانے اور سزا دلانے میں کرپشن کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
بات یقیناً درست ہے، جنرل مشرف اپنی تمام تر ایجنسیوں کے ذریعے کھوج لگانے کی سرتوڑ کوشش کرتا رہا، موجودہ حکمرانوں نے نیب، ایف آئی اے اور ایف بی آر کو اسی کام پر لگایا ہوا ہے، اگر انھوں نے کرپشن کی ہوتی تو یقیناً سامنے آجاتی اور موجودہ حکومت تو ہر روز میڈیا پر دکھاتی رہتی کہ فلاں کیس میں میاں نوازشریف نے اتنی رشوت لی ہے۔
فلاں پراجیکٹ میں اتنا کمیشن لیا گیا ہے، اگر کوئی ایسی چیز ثابت ہوتی تو میرا قلم آج اُن کے خلاف لکھ رہا ہوتا۔ مگر ایسا کچھ بھی نہیں نکلا، صرف ان کے سیاسی نظریات کی بناء پر پچھلے کئی سالوں سے ان کی اور ان کے خاندان کی تضحیک اور تذلیل کی جارہی ہے۔ اس ضمن میں ایسی ایسی گھٹیا اور قبیح حرکتیں ہوئیں کہ ان کا ذکر کرتے ہوئے بھی شرم آتی ہے۔
میاں نوازشریف کی اہلیہ بسترِمرگ پر تھیں اور اسپتال میں ورکر بھیج دیے گئے کہ جاؤ جاکر فلمیں بناؤ اور ڈھول بجاؤ کہ بیماری کا ڈراما کیا جارہا ہے، تو بہ استغفار توبہ۔ سوسائٹی کے غریب اور اَن پڑھ طبقے سے بھی ایسی گھٹیا اور غیر انسانی حرکت کی توقع نہیں کی جاسکتی۔
نواز شریف صاحب کی رفیقۂ حیات، موت و حیات کی کشمکش میں تھیں جب انھیں سزا سنا دی گئی۔ وہ اپنی اہلیہ کو بسترِ مرگ پر چھوڑ کر وطن واپس آگئے اور اس ملک میں جسے انھوں نے ناقابلِ تسخیر بنادیا تھا، انھیں یہ صلہ دیا گیا کہ بیٹی سمیت جیل میں بند کردیا گیا۔
معزولی، نااہلی، تضحیک، تذلیل، جیلوں، سزاؤں، بیماریوں اور اَن گنت امتحانوں اور آزمائشوں کے کئی سالوں کے بعدفیملی میں خوشی کا ایک موقع آیا کہ اُن کے نواسے کی شادی طے ہوگئی، میں دل میں حسنِ ظن پالتا رہا کہ ممکن ہے حکومت اس موقعے پر فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دولہا کے والدین کو لندن جانے کی اجازت دے دے، مگر فراخدلی تو ایک طرف پاکستان میں اقتدار کے تخت پر براجمان سنگدل حکمرانوں کو اپنے سیاسی حریف کی ایک گھریلو خوشی بھی برداشت نہ ہوئی اور اس میں بھی بھنگ ڈالنے کے لیے پارٹی ورکر بھیج دیے گئے۔
بزرگ ٹھیک کہا کرتے تھے کہ اللہ کسی کو دشمن بھی کم ظرف نہ دے۔ میں اس مسئلے پر ہرگز قلم نہ اُٹھاتا مگر شادی میں گڑ بڑ کے لیے بھیجے جانے والے ورکروں میں سے ایک نے کیمرے کے سامنے کہہ دیا کہ "یہ طے ہوا تھا کہ پی ٹی آئی کے ورکرز یہاں پہنچیں گے" اگرپارٹی ورکروں نے پہنچنا تھا تو انھیں ہدایت اسلام آباد سے ہی ملی ہوگی، وہ اپنے طور پر اتنا بڑا فیصلہ نہیں کرسکتے تھے۔
احتجاج کرنے والے ایک اور شخص نے سوشل میڈیا پر اپنی تصویر لگائی ہے جس کے نیچے یہ کیپشن لکھا ہے کہ "یہ ہے وہ شیر جس نے جنید صفدر کی شادی برباد کرکے رکھ دی"۔ یہ سب اس لیے ہے کہ وہ لوگ جانتے ہیں کہ قیادت کا قرب حاصل کرنے کا یہی معیار ہے۔ کون نہیں جانتا کہ ہماری سیاست میں گالی اور دشنام کا کلچر پی ٹی آئی نے پروان چڑھایا ہے۔
عمران خان صاحب سیاسی مخالفین کے بارے میں بدزبانی اور بدکلامی کرنے والے وزراء اور کارکنوں کوٹائیگر قرار دیتے ہیں۔ فرض کریں کہ اگر نوازشریف صاحب، وزیرِاعظم ہوتے اور عمران خان صاحب ان کے سیاسی حریف ہوتے تو کیا ان کا طرزِعمل وہی ہوتا جو آج خان صاحب کا ہے؟ ہرگز نہیں، 1992 میں میری تعیناتی وزیرِاعظم کے اسٹاف آفیسر کے طور پر ہوئی۔
میں نے نوازشریف صاحب کو بہت قریب سے دیکھا اور پرکھا ہے، مجھے یقین ہے کہ وہ عمران خان صاحب کے قریب ترین عزیز کی بیماری پر نہ صرف گلدستہ بھیجتے بلکہ تیمارداری کے لیے خود چلے جاتے اور جب کبھی ان کے سیاسی حریف کے نواسے یا بیٹے کی شادی کا موقع آتا تو وہ مبارکباد کا پیغام بھیجتے۔ شادی میں گڑبڑ کے لیے بندے بھیجنے کا تو سوچا بھی نہیں جاسکتا۔ محترمہ جمائمہ خان کے خلاف چوری کا کیس بنانے کا صرف الزام ہے۔ کہیں کوئی ایف آئی آر نہیں ہے۔ میاں صاحبان اس قسم کی ہدایات دینے کی سختی سے تردید کر چکے ہیں۔
خیال تھا کہ حکمران جماعت کی قیادت کی طرف سے لندن میں کی جانے والی ایسی شرمناک حرکت کرنے والوں کی مذمت کی جائے گی، مگر یہ دیکھ کر دکھ ہوا کہ ٹی وی چینلوں پر کئی وفاقی وزراء نے اس نیچ اور غلیظ حرکت کو درست قرار دیا، پہلے ہی ملک کے اندر اور باہر ہمارے سیاسی لیڈروں کی اخلاقی گراوٹ کے بڑے چرچے ہوتے ہیں، لندن میں ہونے والی اس حرکت نے اخلاقی پستی کا نیا ریکارڈ قائم کردیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا محض کرپشن سے نفرت کی بناء پر یہ حرکت کی گئی ہے؟ ہرگز نہیں! برطانیہ، امریکا سوئیٹزر لینڈ، دبئی، فرانس، اسپین، آسٹریلیا اور کئی دیگر ممالک میں پاکستان میں اعلیٰ عہدوں پر فائز رہنے والے سیکڑوں لوگوں کی غیر قانونی ذرایع سے بنائی گئی جائیدادیں ہیں، کیا پی ٹی آئی کے ورکروں نے کبھی ان کے گھروں کے سامنے جاکر مظاہرے کیے ہیں؟ اگر وہ احترامِ عدالت میں ایسا کرتے ہیں تو کیا کبھی عدالتوں کو مطلوب پرویز مشرف یا الطاف حسین کے فلیٹ کے سامنے بھی مظاہرہ ہوا ہے؟ اسی لندن میں کیا کبھی جہانگیر ترین کے وسیع و عریض بنگلے کے سامنے بھی مظاہرہ کیا گیا تھا؟ ہرگز نہیں۔
برطانیہ میں سیکڑوں پاکستانیوں کے فلیٹ یا مکان ناجائز ذرایع سے خریدے گئے ہوں گے مگر لاہور سے تعلق رکھنے والے پی ٹی آئی کے ممبران خود نجی محفلوں میں اقرار کرتے ہیں کہ میاں نوازشریف کے والد اُن کے سیاست میں آنے سے بہت پہلے کروڑ پتی تھے جولندن میں چار کے بجائے چالیس فلیٹ بھی خرید سکتے تھے۔
مگر معاملہ کرپشن کا توہے ہی نہیں، سزا کی وجوہات تو کچھ اور ہیں جن میں سے ایک سی پیک کا منصوبہ بھی ہے، عمران خان صاحب کو بھی میاں نواز شریف کے خلاف غصہ کسی کرپشن کے باعث نہیں ہے، اگر انھیں کرپشن سے نفرت ہوتی تو ان کے بہت سے وزیر اور مشیر جیل میں ہوتے، اگر انھیں لندن کے فلیٹ خریدنے (جو 1995 میں خریدے گئے) پر غصہ ہوتا تو وہ جون 2014 میں میاں نواز شریف کواپنے بنی گالہ کے گھر میں بڑی پُر تکلف چائے پر مدعو نہ کرتے۔
جہاں خوشگوار ماحول میں خان صاحب نے سڑک کا مطالبہ کیا، جس پر وزیرِاعظم نواز شریف نے اُن کے گھر تک اعلیٰ معیار کی سڑک بنوادی۔ 2014 کے دھرنوں کی بھی جو وجہ بتائی گئی وہ چار حلقوں میں دھاندلی کا الزام تھا، کرپشن کا کوئی ذکر نہیں تھا، یہ بیانیہ تو بعد میں تراشا گیا۔
آخر میں بصد احترام میں وزیرِاعظم عمران خان صاحب سے پوچھنا چاہوں گاکہ کیا اپنے سیاسی حریف کو زچ کرنے اور تکلیف پہنچانے کے لیے دینی اور اخلاقی قدروں کو پامال کرنا، اُس کی رہائش گاہ کے سامنے گالیاں دینے کے لیے ورکر بھیجنا اور ایسا کرکے پوری دنیا میں اپنے ملک کی تضحیک کرانا، آپ درست سمجھتے ہیں؟ کیا برطانیہ، ترکی، ملائیشیا یا بھارت کے سیاسی رہنما بیرونِ ملک جاکر اپنے سیاسی مخالفین پر الزام تراشی کرتے ہیں؟ اور آخری بات یہ کہ جس طرح آپ سیاسی مخالفت کو دشمنی میں بدل رہے ہیں، کیا آپ جانتے ہیں کہ اس کا انجام کتنا خطرناک ہوسکتا ہے؟