Saturday, 15 March 2025
  1.  Home
  2. Express
  3. Zulfiqar Ahmed Cheema
  4. Japan Ka Daura Aur Khawateen Ke Thaane (1)

Japan Ka Daura Aur Khawateen Ke Thaane (1)

یہ 1998کی بات ہے، میں اس وقت تک یورپ کے کئی ممالک دیکھ چکا تھا۔ مشرقِ وسطیٰ کے بھی کئی ملکوں کی سیر ہوچکی تھی، اس لیے دور دراز کے اہم ممالک دیکھنے کی خواہش اور اشتیاق موجود تھا۔ چنانچہ جب جاپان انٹرنیشنل کو آپریشن کی تنظیم JICA کی طرف سے جاپان میں تین ہفتے کے ایک کورس میں شرکت کا دعوت نامہ ملا تو میں نے اسے بخوشی قبول کرلیا۔ سیمینار کا عنوان یا تھیم تھا"پاکستان میں خواتین کے پولیس اسٹیشن"اس میں شرکت کے لیے پاکستان سے پانچ رکنی وفد کا انتخاب کیا گیا جن میں وزارتِ داخلہ کے جوائنٹ سیکریٹری کے بی رند، ڈی آئی جی فیصل آباد طارق کھوسہ، راقم (اسٹاف آفیسر ٹو پرائم منسٹر) اور دو جونئیر (سب انسپکٹر رینک کی) خواتین پولیس افسران شامل تھیں۔

میں نے اپنی presentation تیار کرنے کے لیے کافی محنت کی اور مختلف جگہوں پر قائم ویمن پولیس اسٹیشنز کا وزٹ بھی کیا اور وہاں تعیّنات خواتین پولیس افسران سے ملاقاتیں بھی کیں۔ دراصل بے نظیر بھٹو صاحبہ جب وزیراعظم تھیں تو انھوں نے کسی مشیر کے کہنے پر خواتین کے علیحدہ پولیس اسٹیشن قائم کرنے کا اعلان کردیا اور اسے خواتین کے حقوق کے تحفّظ کی جانب ایک تاریخی قدم قرار دیا۔ چاروں صوبائی دارلحکومتوں کے علاوہ ایبٹ آباد اور وفاقی دارلحکومت اسلام آباد میں بھی ویمن پولیس اسٹیشن قائم کردیے گئے اور اکثر جگہوں پر تو پرائم منسٹر بے نظیر صاحبہ نے ان کا افتتاح خود کیا اور اس موقع پر متعلقہ آئی جی صاحبان نے خواتین کے علیحدہ تھانوں کی اہمیّت اور افادیّت بتاتے ہوئے زمین وآسمان کے قلابے ملادیے اور اسے ایک تاریخ ساز کارنامہ قراردیا۔

میں نے جب خواتین کے تھانوں کی کارکردگی کا جائزہ لینا شروع کیا تو بڑے ہوش ربا حقائق سامنے آئے۔ لاہور کے کسی بھی تھانے میں ایک سال میں ایک ہزار سے بارہ تیرہ سو تک کیس درج ہوتے ہیں، مگر ویمن پولیس اسٹیشن لاہور میں سال بھر میں درج ہونے والے کیسوں کی تعداد صرف نو (9) نکلی۔ ویمن پولیس اسٹیشن کی انچارج افسر(ایس ایچ او) اعلیٰ تعلیم یافتہ تھی۔ میں نے پوچھا کہ خواتین victims اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کی رپورٹ درج کرانے آپ کے پاس کیوں نہیں آتیں؟ تو انھوں نے صاف گوئی سے کام لیتے ہوئے بتایا "سر! مظلوم خواتین بھی جانتی ہیں کہ جرم کا ارتکاب کرنے والے تو مرد ہیں، مجرموں کو ریڈ کرکے گرفتار کرنا لیڈی پولیس کے بس کی بات نہیں ہے۔

اس لیے وہ ہمارے پاس کیس درج کرانے کے لیے بھی نہیں آتیں۔ آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ خواتین اور ان کے وارثوں کو یہ اعتماد نہیں ہے کہ صرف خواتین پولیس افسر اُن کے ساتھ ہونے والی زیادتی کا ازالہ کرسکتی ہیں یا انھیں انصاف دلا سکتی ہیں"۔ پھر ایک توقف کے بعد وہ بولیں "سر! خواتین کے علیحدہ تھانے بنانے کی قطعاً کوئی ضرورت یا افادیّت نہیں ہے۔ عام تھانوں میں خواتین پولیس افسران کے ونگ قائم کیے جائیں اور کچھ حسّاس معاملات میں خواتین افسران مظلوم خاتون سے حقائق دریافت کرلیا کریں اور خواتین ملزمان کی پوچھ گچھ (interrogation) بھی لیڈی پولیس افسران کرلیا کریں"۔

دوسرے صوبائی دارلحکومتوں سے اعداد وشمار معلوم کیے تو صورتِ حال اس سے بھی زیادہ مایوس کن نکلی۔ اسلام آباد میں ایک سال میں سات اور ایبٹ آباد میں چار کیس درج ہوئے تھے۔ کہیں بھی تعداد دس کو نہ چھو سکی۔ لہٰذا میں نے انھی حقائق کی روشنی میں اپنی پریذینٹیشن تیار کی اور واضح طور پر لکھ دیا کہ یہ ایک سیاسی فیصلہ تھا جو غلط ثابت ہوا اور یہی وجہ ہے کہ آج کوئی بھی ویمن پولیس اسٹیشن فعال نہیں ہے۔

اب آئیں دورے اور وفد کی جانب، طارق کھوسہ صاحب ایک پڑھے لکھے اور شائستہ آدمی ہیں، ان کے ساتھ پرانا تعلّق اور بے تکلّفی تھی۔ کے بی رند، رندی مزاج کے کھلے ڈھلے شخص تھے، اس لیے ان کے ساتھ بھی بہت جلد بے تکلّفی اور دوستی ہوگئی۔ جائیکا نے ہم تینوں کو سینئر سمجھ کر بزنس کلاس کے ٹکٹ دیے اور دونوں خواتین سب انسپکٹروں نے اکانومی کلاس میں سفر کیا۔ ہم اسلام آباد سے اڑ کر بینکاک کے ہوائی اڈے پر جا اترے۔ وہاں سے پرواز تبدیل کی اور ایک طویل اور تھکادینے والے سفر کے بعد ہم علی الصبّح ٹوکیو کے ہوائی اڈے پر پہنچ گئے۔

جائیکا کے نمایندوں نے ہمیں ریسیو کیا۔ ٹوکیو میں ہمیں ایک فور اسٹار ہوٹل میں ٹھہرایا گیا اور ساتھ ہی دوسرے روز کا پروگرام بھی ہاتھوں میں تھمادیا گیا۔ دوسرے روز ہم نے وقت پر اٹھ کر ناشتہ کیا اور تیار ہو کر ہوٹل کی لابی میں پہنچ گئے جہاں ایک خاتون گائیڈ موجود تھیں جو انگریزی بول اور سمجھ لیتی تھیں۔ جب وفد کے تمام ارکان پہنچ گئے تو اس نے نام پکارے، حاضری لگائی اور نعرہ لگایا کہ "میرے پیچھے پیچھے آئیں" چنانچہ ہم دس منٹ تک اس کی راہنمائی میں چلتے ہوئے ایک ایسے انڈر گراؤنڈ ریلوے اسٹیشن پر پہنچ گئے جو جاپان کا سب سے بڑا انڈرگراؤنڈ ریلوے اسٹیشن سمجھا جاتا ہے اور جہاں سے ایک دن میں تیس لاکھ افراد مختلف ٹرینوں پر سوار ہوتے اور اترتے ہیں۔ شِخجوکو نام کے اس ریلوے اسٹیشن پر انسانوں کا اژدھام تھا، کھوّے سے کھوّا چھل رہا تھا مگر ہر شخص ڈسپلن، شائستگی اور کرٹسی کا مظاہرہ کررہا تھا۔ معمولی سی بھی ہڑبونگ یا بدنظمی دیکھنے کو نہ ملی۔

اگر کوئی شخص دوسرے سے ایک انچ آگے ہے تو پیچھے کھڑے شخص نے یہ فاصلہ مٹانے کی کوشش نہیں کی اور پیچھے ہی چلتا رہا۔ کسی ایک شخص میں بھی دوسروں کو کہنی مارنے یا آگے بڑھ کر پہلے سوار ہونے کی خواہش نظر نہ آئی۔ تین چار اسٹیشنوں کے بعد ہماری گائیڈ نے ہمیں اترنے کا اشارہ کیا۔

پلیٹ فارم سے اتر کر وہ پھر پیدل چل پڑی اور ہم اس کے پیچھے پیچھے چلنے لگے دس منٹ چلنے کے بعد ہم جائیکا کے ہیڈ کوارٹرز میں پہنچ گئے۔ جہاں بہت سے ملکوں کے لوگ مختلف کورسز کرنے کے لیے آئے ہوئے تھے۔ پہلے تین روز سب کے لیے مشترکہ تھے جن میں شرکاء کو جاپان کی تاریخ، ثقافت اور جدید دور کی ترقّی کے بارے میں آگاہ کیا گیا۔ زیادہ تر ماہرین (ان میں سے بہت سے تاریخ اور ثقافت کے پروفیسر تھے) نے جاپانی زبان میں تقاریر کیں اور مترجم نے ان کا ترجمہ کیا۔

مشترکہ کلاسوں کے بعد اسی عمارت کے ایک کانفرنس روم میں ہمارا سیمینار شروع ہوا جس میں کھوسہ صاحب نے ویمن پولیس اسٹیشنز کو بینظیر حکومت کا ایک عظیم کارنامہ قراردیا۔ میں نے محسوس کیا کہ کھوسہ صاحب کے نزدیک میزبان ملک کے دیے گئے موضوع کے بارے میں مثبت رائے ہی دینی چاہیے اور وہ اس کا تنقیدی جائزہ لینا ڈِس کرٹسی سمجھتے ہیں۔

چنانچہ جب میں نے اپنی پریذنٹیشن میں ویمن پولیس اسٹیشنوں کو ایک ناکام تجربہ قرار دیا تو کھوسہ صاحب بہت پریشان ہوئے۔ اعداد وشمار جو ان کے لیے بھی حیران کن تھے، سن کر وہ بھی یہ کہنے پر مجبور ہوگئے " اچھا تو صورتِ حال اتنی مایوس کن ہے، میں تو سمجھتا تھا کہ اب خواتین victims کی پہلی چوائس خواتین کے تھانے ہوں گے، مگر وہاں تو کوئی جاتا ہی نہیں۔۔ یہ بات میرے علم میں نہیں تھی"۔

اُن کے ساتھ دوسری بار اختلاف رائے کا موقع اُس وقت آیا جب میں نے محسوس کیا کہ وہ غالباً جاپانی سسٹم کی اور ان کی تہذیب اور کلچر کے ہر پہلو کی تعریف وتوصیف کرتے ہیں، ان کے مثبت پہلوؤں کی ستائش کرنے کے ساتھ پاکستان کے منفی پہلوؤں کا بھی ذکر کرنا شروع کردیتے ہیں۔ اس پر میں نے ان کے سامنے اپنے تحفّظات کا اظہار کیا اور پھر اپنی presentation کے دوران وطنِ عزیز کے مثبت پہلوؤں کو اجاگر کیا، جس سے پاکستان کے بارے میں میزبانوں کا تاثر بہتر ہوا۔

دونوں لیڈی پولیس افسروں نے نہ تو کوئی تیاری کی تھی اور نہ ہی وہ انگریزی بول سکتی تھیں، اس لیے انھوں نے مکمل طور پر خاموشی اختیار کیے رکھی مگر گروپ لیڈر کے بی رند صاحب نے انھیں ایک خصوصی ٹاسک تفویض کردیا، وہ اس طرح کہ ایک شام ہم ہوٹل واپس پہنچے تو رند صاحب نے لابی میں ان سے کہا " بی بی آپ بھی کچھ سوال کیا کریں" انھوں نے کہا سر! ہمارے لیے مشکل ہوگا، ہم سوال نہیں کر سکتیں۔ ایک دو اور سوالوں کے جواب بھی انھوں نے نفی میں دیے تو رند صاحب نے پوچھا "کپڑے استری کرلیتی ہو؟" دونوں نے اثبات میں جواب دیا تو رند صاحب نے کہا "ٹھیک ہے پھر کپڑے استری کرنے کا ٹاسک سنبھال لیں" اس کے بعد ہر شام رند صاحب کے کمرے سے کپڑوں کی گٹھری بیبیوں کے کمرے میں پہنچنے لگی۔

جاری ہے۔۔