پچھلے کالم میں ملکی صورتحال کا طنزیہ انداز میں احاطہ کیا گیا تو بہت سے قارئین نے لکھا کہ "لگتا ہے آپ بھی مایوسی کا شکار ہورہے ہیں"۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مواحد کبھی مایوس نہیں ہوتے۔ رحمتِ خداوندی انھیں حوصلہ دیتی رہتی ہے اور ان کی شمعِ امید بجھنے نہیں دیتی مگر کیا کریں ہر طرف سے بری خبروں کی یلغار پریشانی اور دل گرفتگی کا موجب بنتی ہے۔ ان بری خبروں پر اہلِ اقتدار واختیار کی بے حسی تشویش میں اضافے کا باعث بنتی ہے۔
کیا یہ کوئی معمولی خبر ہے کہ بھارت نے اپنے بیس ناپسندیدہ افرد کو پاکستان میں اپنے ایجنڈوں کے ذریعے قتل کرادیا ہے، اس سے تو ہمارے بڑے بڑے ایوانوں کے درودیوار ہِل جانے چاہیئں تھے، ہماری حکومت، اسٹیبلشمنٹ اور وزارتِ خارجہ مشترکہ طور پر ثبوتوں کے ساتھ دنیا بھر میں اس طرح مسئلے کو اجاگر کرتے کہ عالمی ادارے ہِل جاتے۔ کینیڈا میں بھارتی حکومت نے ایک سکھ راہنما کو قتل کرایا تھا جس پر کینیڈا کے وزیراعظم نے آسمان پر سر اٹھالیا تھا اور دنیا بھارتی حکومت کو مجرم اور قاتل کے طور پر دیکھنے لگی تھی۔ مگر ہمارے ایوانوں سے ایسی کوئی آوازیں سنائی نہیں دیں۔
اس پر تمام صوبائی اور مرکزی ایوانوں میں تمام سیاسی پارٹیوں کو مشترکہ طور پر بھارت کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کرنی چاہیے تھی اور مذمتی قراردادیں پاس ہونی چاہئیں تھیں، مگر وہاں تو انھیں آپس کی جُوتم پیزار سے ہی فرصت نہیں مل رہی۔ یہ انتہائی تشویشناک خبر بھی برطانیہ کے اخبار گارڈین نے لیک کی ہے، پاکستان کے مقتدر ادارے یہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی اس پر خاموش کیوں بیٹھے رہے؟ پاکستان کی حکومت نے اس سنگین مسئلے کو عالمی اداروں کے سامنے highlight کرکے بھارت کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی؟
مودی اور اس کا وزیرِ دفاع پاکستان کے اندر آکر مارنے کی باتیں کررہا ہے، ان کی بڑھکوں کا جواب وزیرِاعظم کو بڑے جاندار الفاظ میں دینا چاہیے تھا۔ ہمارے سیکیوریٹی کے ادارے پاکستان میں مقیم غیر ملکیوں کو تحفظ فراہم کرنے میں کیوں ناکام رہے؟ ان تمام سوالوں کے بارے میں قوم کو اعتماد میں لیا جائے۔
اگر ابھی تک اس کی انکوائری نہیں ہوئی تو اس کی مکمل انکوائری کرائی جائے اور اہم ترین دارالحکومتوں میں وفود بھیج کر اس عالمی دہشت گرد کا بھیانک چہرہ بے نقاب کیا جائے۔ شواہد اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ ہماری قومی سلامتی کو شدید خطرات لاحق ہیں جو اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ ہماری سیکیوریٹی فورسز زیادہ مستعد اور چوکس ہوں۔
ملک کے اندر امن وامان کی صورتحال انتہائی مخدوش ہے، کراچی،ِ اندرونِ سندھ اور پنجاب میں تو یوں لگتا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے بے بس ہیں اور جرائم پیشہ عناصر کی حکمرانی ہے۔ جب حکمرانوں کے نزدیک پولیس افسروں کی تعیناتی اہلیّت اور صلاحیت کے بجائے وفاداری ہی معیار قرار پائے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جرائم میں بے پناہ اضافہ ہوجاتا ہے اور عوام عدمِ تحفّظ کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اگر حکمرانوں کو اپنی ذاتی تشہیر سے کچھ فرصت ملے تو اخبارات اور سوشل میڈیا دیکھیں جو جرائم کی سنگین صورتحال سے بھرا ہوتا ہے۔
عدمِ تحفظ کے مارے ہوئے عوام چیخ وپکار کررہے ہیں مگر کہیں کوئی شنوائی نہیں ہوپارہی۔ سندھ کئی سالوں سے بدترین جرائم کا گڑھ بنا ہوا ہے اور کراچی پھر ایک بار سنگین ترین جرائم کی آماجگاہ بن گیا ہے۔ مجھے خود کراچی کے شہریوں کی جانب سے درجنوں میلز آتی ہیں جس میں کراچی کے پڑھے لکھے شہری اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ کراچی کی ہر سڑک پر ڈاکوؤں کا راج ہے، پچھلے ایک مہینے میں بیسیوں شہری قتل ہوچکے ہیں۔
ڈاکے کے ساتھ قتل سنگین ترین جرم سمجھا جاتا ہے، اگر ڈاکو کسی گھر میں ڈاکے کی نیّت سے داخل ہوکر گھر کے مکینوں سے نقدی اور زیورات کا مطالبہ کریں اور گھر کا کوئی فرد مزاحمت کرے تو desperate قسم کے ڈاکو اس پر فائر کردیتے ہیں مگر اب تو صورتحال یہ ہے کہ لونڈے لپاڑے لوگوں سے موبائل چھیننے کی کوشش کرتے ہیں اور معمولی سی مزاحمت پر وہ شہری کو گولی مار کر قتل کردیتے ہیں اس طرح کے واقعات کا بار بار اور تواتر کے ساتھ ہونے کا واضح مطلب ہے کہ پولیس کا ڈر اور خوف ختم ہوچکا ہے۔
جب نوجوان پولیس افسر مجھ سے اچھے پولیس افسر کے اوصاف کے بارے میں سوال کرتے ہیں تو میں انھیں بتاتا ہوں کہ دوسری باتوں کے علاوہ اچھے پولیس افسر کے اولین اہداف میں یہ بات بھی شامل ہے کہ وہ شہریوں کے دلوں سے مجرموں کا خوف نکال دے اور پولیس کا ڈر مجرموں کے دلوں میں ڈال دے۔ اس ہدف کا کسی لیول پر نہ کہیں ادراک ہے اور نہ ہی کہیں ایسا کرنے کی کوشش ہورہی ہے۔ فیلڈ میں کیا ہو رہا ہے اس پر کسی کی توجّہ نہیں، پنجاب میں ہر طرف فیس بُک پولیسنگ چل رہی ہے جس میں صرف دکھاوا، ڈرامہ، تصویر اور تشہیر ہے۔
اس کے علاوہ کچھ نہیں۔ اصل پولیسنگ کا کہیں نام ونشان نظر نہیں آتا۔ ضلعی افسران کا تمام تر وقت اور وسائل فیس بک پر اپنی وڈیوز لگانے، صحافیوں کو کھانے کھلانے اور شہداء کی فیملیز کو پروپیگنڈے کے لیے استعمال کرنے میں صرف ہورہے ہیں، ہر سطح کے پولیس افسر ہتھیار کے بجائے کیمرہ اٹھائے ہوئے ہیں، سینئر افسروں کو سب اچھاکی رپورٹ کے ساتھ وڈیوز بھیج دی جاتی ہیں جس سے وہ بھی خوش ہوجاتے ہیں کیونکہ وہ خود بھی ڈرامے بازی میں مصروف ہیں۔ اس بات کی نہ سیاسی قیادت کو اور نہ ہی پولیس کی قیادت کو فکر ہے کہ عوام خوف اور عدمِ تحفظ کے کس عذاب میں زندگی گذاررہے ہیں۔
حکمران مطمئن ہیں کہ پولیس افسر اُن کے وفادار ہیں اور اُن کے ذاتی اور سیاسی مفادات کا بخوبی تحفّظ کررہے ہیں۔ وہ اس بات پر خوش ہیں کہ"ہم معمولی سا اشارہ کریں تو یہ ہمارے مخالفین کو گھروں سے اٹھالیتے ہیں، ہمارے حکم پر یہ پولیس والے ان کی خواتین سے بدتمیزی کرتے ہیں اور مردوں پر مجرموں کی طرح تشدّد کرتے ہیں۔
لہٰذا ہمیں یہی پسند ہیں، عوام محفوظ ہیں یا غیر محفوظ، ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں"۔ سندھ میں امن وامان کی انتہائی ابتر صورتِ حال کو دیکھ کر سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نے پولیس اور رینجرز کے افسروں کو طلب کیا، ان کی میٹنگ کی صدارت کی اور انھیں سخت وارننگ دی۔ یہ خبر خود سندھ حکومت کے لیے باعث ندامت ہونی چاہیے۔ جب صوبائی حکومت بے بس نظر آئے گی تو پھر عوام عدالتِ کی جانب دیکھیں گے اور عدلیہ کو نوٹس لینا پڑے گا۔
ایسی صورتحال میں جب کہ جسدِِ ملّت کو طرح طرح کے امراض لاحق ہوں۔ تو اس وقت شدید قسم کی "پرہیز" درکار ہوتی ہے، مگر یہ دیکھ کر انتہائی دکھ ہوتا ہے کہ ہمارے حکمران شدید بیماری کی حالت میں بھی پرہیز، کرنے کے لیے تیّار نہیں۔ پرہیز کا اوّلین تقاضا یہ ہے کہ ہر جگہ انصاف اور میرٹ کی حکمرانی قائم کی جائے مگر یہاں تو میرٹ کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں۔ پہلے 23 مارچ کو غیر مستحق بیوروکریٹوں (جنھوں نے اداروں کی تنزلی میں بھرپور حصہ ڈالا) میں قومی اعزازات، بانٹ کر میرٹ کو پامال کیا گیا، ابھی اس پر تنقید جاری تھی کہ ایک ریٹائرڈ بیورو کریٹ کے صاحبزادے کے بچے کی اسکول فیس معافی کا ایشو سامنے آگیا۔
اس تعلیمی ادارے کے پرنسپل کو استعفٰی دینا پڑا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھاکہ کسی کو نوازنے کے بجائے پرنسپل صاحب سے معذرت کرکے انھیں استعفٰی واپس لینے کی گذارش کی جاتی۔ مگر "میرٹ" ہی نیا بنا دیا گیا اور یہ کیا ہے کہ ہاتھ میں کشکول پکڑا ہوا ہے مگر اپنے دفتر کے ملازمین میں بونس بانٹے جارہے ہیں۔ لگتا ہے کہ ہر سطح پر حکمرانوں نے بے پروائی کی چادر تان لی ہے۔ قوموں کی زندگی میں اچھے اور برے حالات آتے رہتے ہیں۔ مایوسی، حالات کی ابتری سے نہیں ہوتی بلکہ یہ دیکھ کر ہوتی ہے کہ شاید کارواں کے دل سے احساسِ زیاں ہی جاتا رہا ہے!