سنتے تھے کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ مگر یہ کبھی نہیں سوچا تھا کہ جسدِ سیاست انسانیّت سے ہی محروم ہو جائیگا۔
طوفانی بارشوں کی تباہ کا ریوں کے باوجود مختلف ٹی وی اینکرز حکومتوں کی بد انتظامی کے بجائے لندن میں میاں نواز شریف کی چہل قدمی کی تصویر پر پروگرام کر رہے ہیں۔ تمام تر حکومتی وزراء شرافت اور شائستگی کے تما م تقاضوں کو روندتے ہوئے کئی بیماریوں میں مبتلا سابق وزیر اعظم کے لیے چور، ڈاکو اور مفرور جیسے نازیبا الفاظ استعمال کررہے ہیں۔
بلاشبہ نوابزادہ نصراللہ خان مرحوم، بابائے جمہوریت کہلانے کا حق رکھتے تھے کہ انھوں نے اعلیٰ پائے کی معیاری سیاست کے اصول وقواعد وضع کیے اور ان پر عمل کر کے دکھا دیا۔ جنرل ضیاء الحق کی آمریت میں نواب صاحب پانچ سال تک مسلسل نظربند رہے، مگر اپنی آزادی چھیننے والے آمر کے بارے میں بھی شائستگی کا دامن نہیں چھوڑا۔ جب بھی ذکر کیا ضیاء الحق صاحب کہا۔
کون نہیں جانتا کہ میاں نواز شریف کے ساتھ جنرل مشرفّ نے کس قدر زیادتیاں کیں، کا رگل کے misadventureپر منتخب وزیر اعظم نے اپنا آئینی حق استعمال کر کے اسے برخاست کیا تو اُس نے انتقام کی آگ برسانی شروع کر دی۔ حکومت پر قبضہ کر لیا، منتخب وزیراعظم کو بھا ئی اور بیٹے سمیت گرفتار کر لیا، کا ل کوٹھٹریوں اور قلعوں میں بندرکھا، ہتھکڑیاں لگا کر بے عزّت کرنے کی کوشش کی، جہاز اغواء کرنے کا جھوٹا کیس بناکر عمر قید کی سزا دلوائی اور پھر ملک بدر کردیا۔ مگر ہم نے نواز شریف کی زبان سے کبھی جنرل مشرفّ کے لیے غیرشائستہ القاب نہیں سنے، ٹی وی یا پارلیمنٹ میں انھوں نے جب بھی ذکر کیا مشّرف صاحب کہہ کر کیا۔
دنیا کے سامنے کچھ پیش کرنے کے ضمن میں ہم پہلے ہی تہی دامنی کا شکار ہیں، اب کیا یہی دکھانا رہ گیا تھا کہ ہم انسانیّت سے بھی عاری ہو چکے ہیں۔ کچھ اسلامی اقدار اور مشرقی روایات تھیں جن پر ہم فخر کرتے تھے، اب ان سے بھی دامن چھڑا لیا ہے۔ سیاست میں اتنی ناشائستہ زبان استعمال کرنے کا کلچر موجودہ حکمران جماعت نے پروان چڑھایا ہے۔ مگر اُن سے بھی یہ امیّد نہیں تھی کہ ایک بیمار شخص کے بارے میں ان کا طرزِ عمل انسانیت کے ادنیٰ تقاضوں سے بھی عاری ہو جائیگا۔
دنیا کی ہر تہذیب میں بیمار اور مریض سے ہمدردی کا اظہار کیا جا تا ہے، اسے خوش رکھنے اوراس کا حوصلہ بڑھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس کے سامنے کوئی ایسی بات نہیں کی جاتی جس سے اس کی دل آزاری ہو یا اسے صدمہ پہنچے کیونکہ اس سے اس کی صحت پر منفی اثرات مرتّب ہوتے ہیں اوراس کی recoveryمتاثّر ہو سکتی ہے۔
حکمران اچھی طرح جانتے ہیں کہ میاں نواز شریف، دل سمیت کئی بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ ان کی حالت انتہائی تشویشناک ہو گئی تھی جب انھیں جیل سے سروسز اسپتال لاہور شفٹ کیا گیا اور پھر حکومتِ پنجاب کے مقرر کردہ ڈاکٹروں کی رپورٹ اور وزیر اعظم کے قابلِ اعتماد ڈاکٹر فیصل کی تصدیق کے بعد ان کی ہائیکورٹ سے ضمانت منظور ہوئی اور خود مرکزی کابینہ نے انھیں بیرونِ ملک جانے کی اجازت دی۔
اب ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وزیر اعظم( ریاستِ مدینہ کو تو چھوڑ ہی دیں ) اعلیٰ انسانی اور اخلاقی اقدار کے تحت میاں نوازشریف کو فون کر کے ان کی خیریّت دریافت کرتے اور اپنے کسی نمایندے کے ذریعے انھیں پھولوں کا گلدستہ بھجواتے۔ پھر چہل قدمی والی تصویر دیکھ کر خوشی کا اظہار کرتے اورGet Well Soon’، کا کارڈ بھیجتے۔ اگر نواز شریف کی جگہ عمران خان ہوتے اور عمران خان کی جگہ نوازشریف تو مجھے یقین ہے کہ میاں نواز شریف عمران خان کی تیمارداری بھی کرتے اور انھیں پھول بھی بھجواتے۔
حیرت ہے کہ ایک زیرِ علاج سیاسی مخالف کو آپ چہل قد می کرتے دیکھ کر برداشت نہیں کر سکے۔ لوگ اسے حکمرانوں کی تنگ دلی قرار دیتے ہیں، میں کہتا ہوں یہ تنگ دلی نہیں، سنگ دلی ہے۔ دل کا آپریشن ہو تب بھی ڈاکٹرہدایات دیتے ہیں کہ مریض کو چہل قدمی کرائیں اور اسے خوشگوار ماحول مہیّا کریں، تاکہ اس کا دل بہل جائے۔ آپ نے میاں نواز شریف سے وزارتِ عظمیٰ چھین لی، ایک مضحکہ خیز بنیاد پر اسے نااہل قرار دے دیا، اس سے پارٹی کی صدارت چھین لی، اب کیا اس کی جان لینا چاہتے ہو! کیا آپ کو اور اعتزاز احسن کو اسی وقت ٹھنڈ پڑیگی جب آپ میاں نواز شریف کو آئی سی یو میں وینٹی لیٹر پر دیکھیں گے! کوئی وضعداری کچھ فراخدلی، کچھ انسانیّت اور کچھ خدا خوفی تو ہو نی چاہیے۔
اگر ڈاکٹر وں کی ایڈوائس پر میاں نواز شریف اپنی رہائش گاہ سے چند قدم چل کر کسی ریستوران میں کافی پینے چلے جاتے ہیں تو آپ کے دل پر چھریا ں کیوں چل جاتی ہیں، اگر میاں صاحب کا بیٹا انھیں چہل قدمی کروارہا ہے تو یہاں طوفان کھڑا کرنے کا کیا جواز ہیَ؟ سیاسی گرو درست کہتے ہیں کہ یہ وزیر اعظم کے خوف کا مظہر ہے۔ عمران خان صاحب بدقسمتی سے دو سالوں میں ملک کو نا اہلی، بدانتظامی اقرباء پروری اور بربادی کے سوا کچھ نہیں دے سکے، کچھ نہ کر سکنے کے احساس نے انھیں خوفزدہ کر دیا ہے۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ عوام نوازشریف اور شہباز شریف کو اب شدّت سے یاد کرنے لگے ہیں اس لیے میاں برادران ایک ڈراؤنے خواب کی طرح انھیں haunt کرتے ہیں۔
اب آتے ہیں اُن الزامات پر جو عمران خان میاں نواز شریف پر ہر محفل میں اور ہر جگہ لگاتے ہیں، کہ نواز شریف تو اس ملک کے اتنے ملین (کبھی بلین کا لفظ استعمال ہوتا) ڈالر لوٹ کر لے گیا۔ ان الزامات میں سے کوئی ایک بھی کسی ارشد ملک جیسےHand Picked جج کی عدالت سے بھی ثابت نہیں ہوا۔ ثابت تو دور کی بات ہے، حکومت نے کسی عدالت میں نوازشریف پر پیسہ چوری کرنے یا غبن کرنے یا رشوت لینے یا کمیشن کھا نے کا الزام تک نہیں لگایا۔ اگر کوئی مواد ہوتا تو وہ فوراًمقدمہ کرتے، چونکہ حکومت، نیب یا ایف آئی اے کے پاس میاں نواز شریف کے خلاف کرپشن میں ملوّث ہونے کا کوئی مواد یا شہادت نہیں ہے اس لیے انھیں نااہل کرانے کے لیے ایک انتہائی کمزور اور مضحکہ خیز بنیاد کا سہارا لیا گیاجس کا کرپشن سے دور کا بھی تعلّق نہیں ہے۔
جب قانونی پوزیشن یہ ہے کہ میاں نواز شریف پر ایک پیسے کی کرپشن ثابت نہیں ہوئی اور انھی کسی کرپشن کے کیس میں سزا نہیں ہوئی توکیا انھیں چور ڈاکو کہنا مناسب ہے اور یہ وزیراعظم کو زیب دیتا ہے؟ اگر عمران خان ایسی باتیں برطانیہ میں ( جسکی وہ اکثر مثالیں دیتے ہیں ) کرتے تو ان پر defamationکے کیس میں بھاری جرمانہ عائد ہو چکا ہوتا۔ میاں نواز شریف عدالت کی طرف سے ضمانت پر ہیں او ر کسی عدالت نے انھیں Absconder قرار نہیں دیا۔ اس لیے بعض اینکروں کا سابق وزیراعظم کو مفرور کہنا قانونی طورپر غلط بھی ہے اور نامناسب بھی۔
اب میں صحافیوں، پروڈیوسروں اور اینکروں سے پوچھتا ہوں کہ آپ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ نواز شریف اور شہباز شریف نے اس ملک کو نُقصان پہنچایا ہے یا بہتر انفرااسٹرکچراور development کے ذریعے ملک کوترقی سے ہمکنار کیا ہے! اورکیا یہ ناانصافی اور زیادتی نہیں ہے کہ آپ ملک کی معیشت ڈبونے، مہنگائی بڑھانے اور ادارے برباد کرنے والے حکمرانوں کی خوشامد کریں اور ملک کے دفاع کو ناقابلِ تسخیر بنا نے والے، لوڈ شیڈنگ اور دہشت گردی کا خاتمہ کرنے والے اور معیشت کو مضبوط بنانے والے منتخب وزیر اعظم (جو بیمار اور زیرِ علاج بھی ہے) کو بے توقیر کریں اور اس کے بارے میں ناشائستہ زبان استعما ل کریں۔ کیا عوام کو educateکرنے کے لیے آپ کے پاس بہتر موضوع نہیں ہیں؟
٭انڈونیشیا میں پاکستان کے ایک سابق سفیر نے سفارتخانے کی عمارت اور سفیر کی رہائش گاہ تک بیچ ڈالی، اس پر کئی سابق سفیر صاحبان کالم لکھ چکے ہیں کہ اتنے بڑے الزام کے باوجود مشرفّ صاحب نے اسے تحفّظ دیا، کیا اس پر پرویز مشرفّ کو طلب نہیں کیا جانا چاہیے اِ سپرکرپشن کے خلاف جہاد کا دعویٰ کرنے والے چند اینکر کیوں مہر بہ لب ہیں؟
٭دوہری شہریت رکھنے والا زیادہ تر ملکوں میں پارلیمنٹ کا ممبر نہیں بن سکتا، مگر ہمارے وزیر اعظم کچھ خاص لوگوں کو نوازنے کے لیے انھیں یہ حق دلانا چاہتے ہیں اور اس سلسلے میں بل لایا جا رہا ہے۔ کیا یہ قومی سلامتی کے منافی نہیں ہے؟ کیا اس پر پروگرام نہیں بنتے؟
٭پاکستان جیسے زرعی ملک کا گندم درآمد کرنا بہت بڑا جرم سمجھا جانا چاہیے۔ ایسا جرم کیوں اور کس کے کہنے پر ہو رہا ہے؟ اس پر پروگرام کیوں نہیں ہوتے؟
٭ملک میں یکساں نصاب رائج کرنے کا دعو ٰی کرنے والوں سے پوچھا جانا چاہیے کہ اگر آپ نے اولیول اور اے لیول کے پروگرام برقرار رکھنے ہیں تو پھر حکومت کا یکساں نصاب کادعو یٰ ایک ڈرامے اور فراڈ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اسپر پروگرام کر کے عوام کو باخبر کیوں نہیں کیا جارہا؟ بھارت نے او اور اے لیول کی اجازت نہیں دی اس کے باوجود دنیا کی اعلیٰ یونیورسٹیوں میں ان کے طلباء کی تعداد پاکستانی طلباء سے کئی گنا زیادہ ہے۔
٭عوام کے منتخب وزیر اعظم کے عہدے کو بے توقیر، کمزور اور غیر مستحکم کرنا کیا ملک کے مفاد میں ہے؟ ۔ کیا اس پر مباحثے اور پروگرام نہیں ہونے چائیں؟
اور آخر ی بات یہ کہ حکومت کے سیاسی مخالفین کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے، وہ صریحاً ظلم ہے اور حضرت علی کرم اللہ وجہ کا قولِ حق آج بھی زندہ و جاوید ہے کہ "ظلم کی حکومت زیا دہ دیر قائم نہیں رہ سکتی"۔