ملک کے سب سے بڑے صوبے کی پہلی خاتون وزیراعلیٰ بننے کی جو ذمے داری آپ کے کندھوں پر پڑی ہے وہ چیلنجز سے بھرپور ہے۔ آپ کی پہلی ذمے داری پنجاب کے تیرہ کروڑ عوام کی جان، مال اور عزت کا تحفظ یقینی بنانا ہے لہٰذا جرائم کا آہنی ہاتھوں سے خاتمہ کرکے صوبے میں مثالی امن وامان کی فضاء قائم کرنا آپ کی ترجیح اوّل ہونی چاہیے۔
اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ فیلڈ میں وہ پولیس افسر تعینات کریں جو ایماندار اور دلیر ہوں۔ مجھے یاد ہے کہ میاں صاحب کی جلاوطنی کے دوران ہمارے گاؤں کا ایک بوڑھا شخص مجھ سے اکثر پوچھا کرتا تھا کہ "نوازشریف تے شہبازشریف کدوں واپس آؤن دے"؟ ایک بار میں نے اس سے پوچھا کہ آپ انھیں کس لیے اتنا یاد کرتے ہیں؟ تو اس معمر کسان نے جواب دیا "اوہناں دی حکومت وچ ساڈیاں جاناں وی محفوظ سن تے مال ڈنگر وی"۔ (ان کے دور میں امن وامان کے حالات اتنے اچھے تھے کہ ہماری جانیں اور مال مویشی محفوظ تھے)۔
کئی برس بعد 2008کے انتخابات میں جب شہباز شریف صاحب انتخابی مہم کے سلسلے میں وزیرآباد آئے تو سڑک پر ایک شخص نے ہاتھ سے رکنے کا اشارہ کیا۔ انھوں نے گاڑی روک لی تو اس دیہاتی نے ان کی کمر پر تھاپڑ مار کر کہا، "جِتھوں چھڈیاسائی اوتھوں ای شروع کریں"۔
(آپ نے عوام کو امن اور تحفظ دینے کا جو سلسلہ شروع کیا تھا، اسے اسی جذبے کے ساتھ دوبارہ شروع کرکے آگے بڑھائیں) 1997 کے دور میں ہی امن، انصاف اور میرٹ کا راج قائم کرنے سے شہباز شریف کا امیج ایک موثر منتظم کے طور پر قائم ہوا تھا۔ مگر یہ آسانی سے نہیں ہوا، شہبازشریف نے ہر قسم کا دباؤ برداشت کیا مگر میرٹ اور انصاف کا پرچم سرنگوں نہیں ہونے دیا۔
میں جب1997میں لاہور کا پولیس چیف تھا، اس وقت پانچ پانچ وزیروں کی سفارش سے بھی کوئی بدنام افسر فیلڈ پوسٹنگ حاصل نہیں کرسکا اور پورے ضلع کے تمام ممبرانِ اسمبلی اکٹھے ہو کر بھی چیف منسٹر سے کسی دیانتدار افسر کو ٹرانسفر نہیں کراسکے۔ اس سے دیانتدار افسروں کی حوصلہ افزائی ہوئی اور ان کی کارکردگی میں بے پناہ اضافہ ہوا۔
کسی نہایت نیک نام اور تجربہ کار شخص کو وزیرِ داخلہ بنائیں۔ کچھ سالوں سے جرائم میں بے حد اضافہ ہوچکا ہے اور لوگوں میں عدمِ تحفظ کا احساس بہت نمایاں ہے۔ پولیس اور انتظامیہ دونوں ناکام ہوچکے ہیں، اس لیے صاف اور شفاف ریکارڈ کے حامل افسروں پر مشتمل نئی ٹیم بنائیں۔ اہم عہدوں پر دیانتدار اور نیک نام پولیس افسر تعینات کریں، پولیس اور انتظامیہ کے افسران کی تعیناتی دیکھ کر عوام دیانتداری اور میرٹ کے ساتھ آپ کی کمٹمنٹ کا اندازہ لگالیں گے۔
تھانوں کا ماحول یا کلچر انتہائی غیر تسلی بخش ہے اور pro criminal ہے، اسے بدلنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے 2008-10کے گوجرانوالہ ماڈل کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے کہ کس طرح وہاں پولیس اسٹیشنز کو transform کیا گیا کہ پولیس میں رشوت کا بھی خاتمہ ہوا اور پولیس اسٹاف کا عوام کے ساتھ رویہ اور طرزِعمل بھی بہت بہتر ہوا۔ "ماڈل پولیس اسٹیشن" یا ویمن پولیس اسٹیشن بنانے کے مشوروں کو فوراً رد کر دیں۔
یہ کسی جعلی دانشور کا ناکام منصوبہ تھا جس کے تحت تھانیداروں نے کاروباری حضرات سے عطیات لے کر اپنی جیبیں بھریں اور کئی تھانوں کو فوراسٹار ہوٹلوں میں بدل دیا، مگر ان کے اندر رشوت اور بدتمیزی کا چلن اسی طرح قائم رہا۔ ایک بار جاپان میں اسی موضوع پر سیمینار کا انعقاد ہوا جس میں وزارتِ داخلہ سے کے بی رند، ڈی آئی جی طارق کھوسہ اور راقم نے پاکستان کی نمایندگی کی۔
اس کے لیے میں نے اپنے پیپر کی تیاری کے لیے ہر ویمن پولیس اسٹیشن کے کوائف منگوائے اور یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ خواتین کے کسی تھانے میں خود خواتین بھی رپورٹ درج کرانے نہیں جاتیں۔
لاہور کے ہر تھانے کا سالانہ کرائم ریٹ پندرہ سو سے دوہزار تک تھا جب کہ ویمن پولیس اسٹیشن لاہور میں پورے سال میں صرف چھ ایف آئی آر درج ہوئیں تھیں۔ وہ ایک ناکام تجربہ تھا۔ خواتین کے متعلق کیسوں کو ڈیل کرنے اور خواتین کو انٹیروگیٹ کرنے کے لیے پولیس اسٹیشن میں ہی ایک ویمن سیکشن قائم کیا جاسکتا ہے۔
مہنگائی کم کرنے کے لیے ڈپٹی کمشنروں اور تحصیل کے انتظامی افسروں کو دفتروں سے باہر نکالیں تاکہ عام لوگوں کو اشیائے خوردونوش حکومت کے مقرر کردہ نرخوں پر مل سکیں۔
دوسرا اہم ترین شعبہ جو آپ کی ترجیحات میں بہت اوپر ہونا چاہیے وہ تعلیم ہے۔ پبلک سیکٹر میں تعلیمی ادارے زبوں حالی کا شکار ہیں، جہاں تعلیم کا معیار انتہائی پست ہو چکا ہے اور تربیت نہ ہونے کے برابر ہے، کسی بیوروکریٹ سے رائے لینے کے بجائے تیس سینئر اساتذہ (کالجوں کے پرنسپلز اور سینئر پروفیسر صاحبان) کی میٹنگ بلا کر ان سے مشاورت کریں۔
ہر اہم تقریب میں سینئر اساتذہ کو مدعو کریں، سرکاری تقریبات کی پہلی قطار میں وزیروں اور افسروں کے بجائے educationists بیٹھنے چاہئیں۔ دانش اسکولوں پر پیسہ لگانے کے بجائے کیجری وال کی طرح سرکاری اسکولوں کا معیار بلند کریں۔ پنجاب کی درجنوں یونیورسٹیاں وی سی صاحبان سے محروم ہیں۔ نیک نام قابلِ اعتماد افراد پر مشتمل سرچ کمیٹی بنائیں جو ایسے افراد کو یونیورسٹیوں کا انتظامی سربراہ مقرر کرے جو قابل اور باصلاحیّت ہوں۔ اسی سے جڑا ہوا شعبہ ہنرمندی کا ہے۔
ہماری آبادی کا ساٹھ فیصد نوجوان ہیں، یہ بیکار رہیں گے تو اکانومی پر بوجھ اور امن وامان کے لیے خطرہ ہوں گے۔ لیکن اگر ہم انھیں ملکی اور بین الاقوامی مارکیٹ کی ڈیمانڈ کے مطابق ہنر فراہم کردیں تو یہی نوجوان ہمارے لیے تیل اور سونے سے بڑا خزانہ ثابت ہوں گے۔
میں تین سال skill development کے قومی ادارے کا سربراہ رہا ہوں اس لیے اس کی اہمیت سے واقف ہوں۔ پنجاب میں عالمی معیار کی ٹریننگ فراہم کرنے والے (چین کے شہر تیانجن کے تربیتی ادارے کے ماڈل پر) کم از کم دو بڑے ادارے ضرور قائم کریں اور TVET سیکٹر کو دلکش بنانے کے لیے اس کے ٹیچرز اور ٹرینرز کی تنخواہیں بڑھائی جائیں۔
کسی وقت ہم دعوے کیا کرتے تھے (میں خود ملک سے باہر اس طرح کی تقریریں کرتا رہا ہوں) کہ ہم اتنا غلہ اگا سکتے ہیں جس سے پورے ایشیا کا پیٹ بھر جائے۔ مگر کس قدر شرم کی بات ہے کہ آج ہم گندم، چینی، ٹماٹر، پیاز جیسی اجناس بھی دوسرے ملکوں سے درآمد کرتے ہیں۔ حکومت کا سب سے پہلا کام یہ ہے کہ قابلِ کاشت رقبے پر کسی بھی ہاؤسنگ کالونی کی تعمیر کو غیر قانونی قرار دیا جائے اور خلاف ورزی کرنے والے کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔
دوسرا یہ کہ بروقت مقررہ قیمت پر معیاری بیچ اور کھاد کی دستیابی کو یقینی بنایا جائے۔ حکومت غیر موثر ہو تو کھاد کے ڈیلر من مانی کرتے ہیں، کسانوں کی مجبوری کا فائدہ اٹھاتے ہیں اور مصنوعی قلت پیدا کرکے منہ مانگے داموں میں فروخت کرتے ہیں۔ سرکاری قیمتوں پر خوردنی اشیاء اور کھاد کی دستیابی کو یقینی بنانا کمشنروں اور ڈپٹی کمشنروں کی ذمّے داری قرار دیا جائے۔
اس کے علاوہ فصلوں کی فی ایکڑ پیداوار بڑھانے کے لیے کسانوں کے درمیان مقابلے منعقد کرائیں اور زیادہ پیداوار اگانے والوں کو فیاضی سے انعامات دیں۔ قدرت نے ہمیں اتنے خوبصورت علاقے عطا کیے ہیں کہ جن پر تھوڑی سی توجّہ دے کر انھیں مقبول سیاحتی مقام بنایا جاسکتا ہے۔
اس سلسلے میں مری کے آس پاس ایک اور فائیو اسٹار ہوٹل (صرف غیر ملکی سیاحوں کے لیے) بنایا جائے۔ سیاحوں کی اہم ترین ضرورت سیکیوریٹی اور صاف واش روم ہیں، ان کا آسانی سے اہتمام کیا جاسکتا ہے اور پنجاب حکومت پہاڑی علاقوں اور چولستان میں سیاحتی مرکز قائم کرکے اپنی آمدنی بڑھا سکتی ہے۔
سادگی کے کلچر کو فروغ دیں اور اس سلسلے میں خود مثال بنیں۔ مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ کی سادگی کی مثالیں سب کے سامنے ہیں۔ سابق جرمن چانسلر انجیلامرکل کی سادگی، سیاست میں آنے والی تمام خواتین کے لیے مثال بننی چاہیے۔
پاکستان میں مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے تمام اہم عہدیدارو ں پر لازم ہے کہ وہ پاکستان بننے کی جدوجہد کا تفصیلی مطالعہ کریں تاکہ وہ علیحدہ وطن حاصل کرنے کے تمام عوامل سے روشناس ہوسکیں اور انھیں بانیانِ پاکستان کے نظریات کا پوری طرح ادراک ہوسکے۔
آپ کے لیے بھی میرا مشورہ ہے تحریکِ پاکستان کے بارے میں مستند مورّخین کی کتابیں پڑھیں۔ نیز بانیٔ پاکستان محمد علی جناحؒ صاحب کی تقریروں اور مفکّرِ پاکستان علّامہ اقبالؒ کی شاعری اور افکار کا ضرور مطالعہ کریں۔ آپ کی کارکردگی پارٹی کو اُٹھا بھی سکتی ہے اور لٹا بھی سکتی ہے۔