Saturday, 02 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Mohtaram Izhar Ul Haq Sahib Ki Wafaat

Mohtaram Izhar Ul Haq Sahib Ki Wafaat

برسوں پہلے جب میں پرائمری اسکول کا طالب علم تھا تو ایک روز ماموں جان (متحدہ پاکستان کی قومی اسمبلی کے سینئر ڈپٹی اسپیکر چوہدری محمد افضل چیمہ مرحوم جنہوں نے اپنے سیاسی کیرئر کی بلندی پر پہنچ کر سیاست چھوڑ دی اور عدلیہ میں چلے گئے) کے ہاں ایک باریش شخص سے ملاقات ہوئی جنکا ماموں جان نے بڑی محبتّ اور احترم سے تعارف کرایا، " بچّو! حافظ ظہور الحق صاحب سے ملو، یہ اردو، عربی اور فارسی کے بہت بڑے اسکالر ہیں۔ آپ لوگ ان سے اردو پڑھا کریں، عربی اور فارسی بھی سیکھا کریں " اتنا یاد ہے کہ میرے ماموں زاد بھائی اور بہنیں اسکول کے تقریر ی مقابلوں میں حصہ لینے کے لیے اپنی تقریر یں حافظ صاحب سے لکھوایا کرتے تھے۔ جنکے اکثر فقرے اسوقت مجھے سمجھ نہیں آتے تھے۔

ماموں جان نے سپریم کورٹ کے سینئر جج کی حیثیّت سے ریٹائر ہونے کے بعد رابطہء عالمِ اسلامی (ایشیا)کے سیکریٹری جنرل کی ذمیّ داریاں سنبھالیں تو حافظ ظہور الحق صاحب کو پھر ڈھونڈ کر ساتھ لے آئے اور حافظ صاحب محترم سے ہمارا رابطہ بحال ہوگیا جو کئی برسوں تک قائم رہا۔ بلاشبہ وہ اردو، عربی اور فارسی کے بلند پایہ اسکالر تھے اور اردو کے علاوہ فارسی کے بھی باکمال شاعر تھے۔

کچھ عرصے بعدجب معلوم ہوا کہ ان کے بڑے بیٹے نے سی ایس ایس کا امتحان پاس کر لیا ہے تو ذرا بھی حیرانی نہ ہوئی، ایک عالم فاضل شخص کے بچّوں کا لائق ہونا قابلِ فہم تھا۔ پھر ان کے آفیسر بیٹے سے اس طرح ملاقات ہوئی کہ آج سے غالباًپندرہ سال قبل ایک قریبی عزیز کی شادی میں ایک مہمان کی کارکے پیچھے فوجی گارڈز کی گاڑی رکی، مہمان اُترا تو میں نے پوچھا یہ کون صاحب ہیں؟ قریب کھڑے ایک باخبر شخص نے جواب د یا " یہ پاکستان ملٹری کے اکاؤنٹنٹ جنرل اظہار الحق صاحب ہیں جو اعلیٰ پائے کے شاعر بھی ہیں۔ اُس روز میری ان سے پہلی ملاقات تھی۔

جناب اظہارالحق نے جب یہ شعر تخلیق کیا

؎ غلام بھاگتے پھرتے ہیں مشعلیں لے کر

محل پہ ٹوٹنے والا ہو آسماں جیسے

تو ادبی حلقوں میں دھوم مچ گئی اور احمد ندیم قاسمی صاحب نے اسے اردو کے بیس جدید نمائیندہ اشعار میں درج کیا۔ بلاشبہ اظہار الحق صاحب ایک قادرا لکلام شاعر اورمنفردکالم نگار ہیں۔ عربی اور فارسی پر ان کی دسترس دیکھ کر رشک آتاہے۔ کورونا کی آمد سے چند روز قبل محترم اظہار الحق صاحب سے ملاقات ہوئی تو میں نے اپنی نئی کتاب Straight Talk پیش کی۔ انھوں نے اپنی تازہ ترین کتاب عنایت کر دی۔ گھر آکر ٹائٹل دیکھا تو ٹھٹک گیا۔

لکھّاتھا’ میری وفات، یہی آرٹیکل سب سے پہلے پڑھنا شروع کیا تو کتاب سے جدا ہونا ممکن نہ رہا۔ اس تحریر کو افسانہ بھی کہا جاسکتا ہے۔ مصنف اپنی تصوّراتی وفات کے ایک دو سال بعد فرشتوں سے اجازت لیکر چند روز کے لیے دنیا میں واپس اپنے گھر آئے تو ہر چیز بدل چکی تھی۔ گھر والوں یعنی بیٹوں، بیٹیوں، ان کے بچّوں حتّٰی کہ بیوی بھی متوفی ّ کو اپنے معمولات سے نکال چکی تھیں، کوئی بھی اس "اجنبی" کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھا، تحریر شاندار اور اس کا تاثر بڑا جاندار ہے، یہ مضمون اپنے آپ کو ناگزیر(indispensable)سمجھنے والوں کو اپنی اوقات یاد دلاتا ہے۔ کہنے کو یہ کتا ب کالموں کا مجموعہ ہے مگریہ کالم روایتی کالم نہیں یہ ترو تازہ

تحریریں، مضامین یا افسانچے ہیں کتاب کی تحریر میں سلاست ہے جس میں مناظر کی کسی ماہر مصّور کی طرح تصویر کشی کی گئی ہے۔

"اہلِ وطن" ایک زوردار تحریر ہے۔ اس میں دو غریب میاں بیوی (جو دونوں خاکروب ہیں اور زندگی کی آسائشوں سے محروم ) کا بیٹا ذیشان (لبھا) محنت کے بل بوتے پر مقابلے کا امتحان پاس کرکے جوڈیشل مجسٹریٹ بن گیا ہے۔ لکھتے ہیں " ذیشان لبھا مسیح کی خوش بختی ہے کہ ذہانت ان چیزوں میں شامل ہے جن کی تقسیم خدانے اپنے ہاتھوں میں رکھی ہے"۔ پھر لکھتے ہیں " آمروں کی اولاد کو وراثت میں پارٹی کی سربراہی تو مل سکتی ہے، سیاسی اور روحانی گدی بھی ہاتھ آسکتی ہے لیکن عزّت کسی اور کے ہاتھ میں ہے، ڈالروں سے بھرے ہوئے صندوق انھیں کھرب پتی تو بنا سکتے ہیں، معزز نہیں بناسکتے"۔

ایک مضمون میں عصا کی تاریخ، اہمیّت اور فوائد بتاتے ہوئے وہ عصائے موسیٰ تک جا پہنچتے ہیں۔ جس کے بارے میں اقبالؒ کہہ گئے ؎عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کارِ بے بنیاد۔ غالباً اسی لیے انھوں نے تحریر کا اختتام سپہ سالار کی اُس چھوٹی سی سٹک پر کیا ہے جو وہ رخصتی کے وقت اپنے جانشین کے سپرد کرتاہے۔ یہ چھوٹی سی چھڑی گویا جادو کی چھڑی ہے۔ مصنف نے بار بار حکمرانوں کی نااہلی، بدنیّتی اور غلط ترجیحات کا رونا رویا ہے جسکے باعث ملک کا دماغ اور ذہن بیرونِ ملک پر واز کرچکا ہے جب کہ ترجیحات درست کرلینے سے ہمارے ہمسایہ ملک کے قابل ترین افراد اپنے ملک واپس آئے۔

جدید دنیا کے معماروں کاذکر ہو تو بابائے سنگاپورلی کو آن ییو کا تذکرہ لازم ہے، اس ضمن میں لکھتے ہیں کہ سنگاپور کی ترقی کے ساتھ ساتھ صفائی بھی بے مثال ہے، ڈسپلن اور سزائیں بہت سخت ہیں، چوری کا جرم ثابت ہونے پر ایک امریکی نوجوان مائیکل کو قید اور جرمانے کے ساتھ چھ کوڑے (بید ) مارنے کی سزاسنائی گئی جس پر امریکا میں تہلکہ مچ گیا، امریکی حکومت اور میڈیا نے سخت احتجاج کیا، صدر کلنٹن نے خود فون کر کے بید مارنے کی سزامعاف کرنے کی درخواست کی مگر سنگاپور کا عظیم لیڈر ٹس سے مس نہ ہوا، مائیکل کو دوسرے مجرموں کی طرح ٹکٹکی کے ساتھ باندھ کر کوڑے مارے گئے۔

یہا ں وہ سوال کرتے ہیں کیا ایٹمی ملک پاکستان میں ایسا ہو سکتا تھا؟ پھرخود ہی جواب دیتے ہیں کہ امریکی صدر کیا وہاں کا سیکشن افسر بھی دھمکی دیتا تو ہمارے حکمران لیٹ جاتے (جس کا مظاہرہ جنرل مشرفّ نے کیا تھا) سنگاپور کے پاس نہ ایٹم بم تھا، نہ چھ لاکھ کی بہترین فوج، نہ میزائیل نہ جے ایف تھنڈر مگر ان کے پاس وہ طاقت تھی جو ہمارے پاس نہیں۔ ان کے پاس اعلیٰ کردار اور مصمّم ارادے والا لیڈر لی کو آن تھا جو سخت قوانین پر اعتراض کے جواب میں کہا کرتا تھاکہ " مجرموں کے ساتھ سختی نہ کی گئی تو ملک تباہ ہو جائے گا"۔

سنگاپور میں معمولی جرائم کی سزا بھی موت ہے۔ ایک اونس سے زیادہ منشیات لے جانے پر موت کی سزا ہے، جرم کرتے وقت اگر کوئی پستول چلاتا ہے تو اس کی گولی کسی کو نہ بھی لگے تو بھی محض پستول چلانے کی سزا موت ہے" ہمارے لبرلز اور این جی اوز کبھی سنگاپور کے قوانین پر اعتراض نہیں کیا۔ نہ کبھی امریکا اور مغرب نے سنگاپور پر سزائے موت ختم کرنے کے لیے دباؤ ڈالا ہے اور نہ کبھی دھمکیا ںدی ہیں۔ لی کوآن نے مغرب کی تنقید کی کبھی پرواہ نہ کی کیونکہ اسے کسی قسم کے احساسِ کمتری کا عارضہ لاحق نہ تھا"۔ ایک جگہ مغرب سے مکالمے کی اہمیّت پر زور دیتے ہوئے لکھتے ہیں "بندوق یا تشّدد کی بجائے مغرب سے مکالمہ کرنا ہوگامگر کریگا کون؟ کسی کااتنا قدکاٹھ بھی تو نہیں!پھر خود ہی جواب دیتے ہیں کہ " اگر آج شاہ فیصل زندہ ہوتے یا شاعرِ مشرق حضرت علامہ اقبالؒ ہوتے تو وہ مشرق اور مغرب کے درمیان مکالمے کا آغاز کر سکتے تھے"۔

مصنف نے کچھ تحریروں میں مذہب کے ٹھیکیداروں اور قبضہ گروپوں کی منافقتوں کو بھی بے نقاب کیا ہے۔ انھوں نے مختلف سروسز کے حسن و قبح پر بھی بات کی ہے۔ اظہارالحق صاحب چونکہ خود سول سرونٹ رہے اس لیے نوکرشاہی کی اندرونی مخاصمتوں، اور ایک خاص گروپ کی سازشوں، مکارّیوں، چالبازیوں اور اصلاحات کے نام پر اپنے گروپ کو مزید با اختیار بنانے کی ڈرامہ بازیوں سے خوب واقف ہیں، اس لیے سروسز کے ضمن میں انھیں دوسرے قلمکاروں اور تجزیہ نگاروں پر فوقیت حاصل ہے اور اِن اشوز پر ان کی تحریر وزنی اور مستندہوتی ہے۔

کتاب میں علامہ محمد اسد (جو آسٹریا کے یہودی خاندان سے تعلق رکھتے تھے، اسلام قبول کرنے کے بعد اسلام کے ایک عظیم سکا لر بنے اور کئی معرکتہ الآراء کتابیں لکھیں ) کے بارے میں چار مضامین لکھے گئے ہیں اور ریکارڈ کو درست کیا گیا ہے۔ اس کتاب کے طفیل میرااکرام چغتائی صاحب سے بھی تعارف ہو گیاجو علامّہ اسد پر اتھاریٹی کا درجہ رکھتے ہیں۔ اس غیر معمولی انسان (محمد اسد) کی زندگی بہت fascinate کرتی ہے۔ انھی دنوں جب پہلی بار یو ٹیوب پر ان کا انٹر ویو دیکھا اور سنا تو بے پناہ خوشی ہوئی۔ کاش ہم حکیم الامّت حضرتِ اقبال ؒ کو بھی دیکھ یا سن سکتے۔ کتاب کے سب مضامین بہت دلچسپ ہیں۔ اللہ تعالیٰ مصنّف کو عمرِ دراز اور اچھی صحت عطا فرمائیں۔

انتقال پرُ ملال

زمانہء حال میں اُردو اور پنجابی کے سب سے بڑے شاعر جناب انور مسعود صاحب کی اہلیہ انتہائی اعلیٰ اور پاکیزہ زندگی گزارکر اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملی ہیں۔ مرحومہ خود بھی اردو، فارسی اور عربی کی عالمہ تھیں اور گھر میں خواتین اور لڑکیوں کے لیے درسِ قرآن کا اہتمام کیا کرتی تھیں۔ ہم پروفیسر انور مسعود صاحب کے دکھ میں پوری طرح شریک ہیں ہم ایک ہی بستی (DHA-2) کے رہائشی ہیں پروفیسر صاحب راقم کے ساتھ ہمیشہ بہت شفقت کرتے ہیں، اکثر میرا کالم پڑھکر فون کرتے ہیں اور کلماتِ خیر سے حوصلہ افزائی فرماتے ہیں۔ کل ان کے بیٹے کا کلپ موصول ہوا۔ لکھتے ہیں "میری والدہ کے انتقال کے بعد میرے والد بہت خاموش ہو گئے۔ آج انھوں نے کئی دنوں بعد میری والدہ کی یاد میں ایک شعر کہا اور پھر وہ دیر تک آبدیدہ رہے"

؎ خاک میں ڈھونڈتے ہیں سونا لوگ

ہم نے سونا سپردِ خاک کیا

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ مرحومہ کے درجات بلند فرمائیں، انھیں اعلیٰ مقام عطاء فرمائیں اور پسماندگان کو صبرِ جمیل عطاء فرمائیں۔