Sunday, 03 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Nihayat Na Munasib

Nihayat Na Munasib

ملک میں نامناسب چیزیں تو بہت سی دیکھنے میں آتی ہیں مگر کچھ نہایت نامناسب ہیں، سوچا کہ ان کی نشاندہی کرکے اپنا فرض ادا کیا جائے۔ آخر مشورہ دینے میں کیا حرج ہے شایدکوئی بات اثرکر جائے اور کسی نامناسب عمل کا خاتمہ ہو جائے۔

سوچتا ہوں کیا کوئی عمران خان صاحب کا خیرخواہ انھیں مشورہ نہیں دے سکتا، کیاکوئی ملک کا خیر خواہ انھیں سمجھانے کی جرأت نہیں کر سکتا، کیا کوئی ریٹائرڈ سفارتکار یا خود وزیرِ خارجہ انھیں یہ نہیں بتاسکتے کہ بین الاقوامی کانفرنسوں میں منہ زبانی نہیں بولا جاتا، بیرونی دوروں میں میزبان ملک کے سربراہ کے ساتھ مشترکہ اعلامیہ تحریر شدہ ہوتا ہے جس میں نپے تلے اور محنت سے چُنے گئے الفاظ میں (اپنا یا اپنی پارٹی کا نہیں ) ملک کا نقطہ نظربتایا جا تا ہے۔

انگریزی زبان میں بے نظیر بھٹو صاحبہ اُن سے بہت بہتر تقریر کرتی تھیں، ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ تو ان کا کوئی مقابلہ ہی نہیں کیا جا سکتا، ان کی انگریزی میں تقریر سنتے ہوئے لگتا تھا الفاظ ان کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے ہیں، عالمی تاریخ ان کی مُٹھی میں ہے، دماغ کمپیو ٹرکی طرح چل رہا ہے اوردل مکمل طورپر زبان کا ہمنوا ہے، ان کی انگریزی تقریریں تاریخ، فلسفے، شاعری اور جذبات کا خوبصورت مرقع ہوتی تھیں۔

چند روز پہلے ایک پرائیویٹ چینل نے مسئلہ کشمیر پر پانچوں منتخب وزرائے اعظم ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیربھٹو، میاں نواز شریف، شاہد خاقان عباسی اور جناب عمران خان کی تقاریرنشر کیں، خان صاحب کے علاوہ تما م وزرائے اعظم نے لکھّی ہوئی تقاریر پڑھیں، کسی غیرجانبدار سفارتکار یا دانشور سے پوچھ لیا جائے تو وہ گواہی دیگا کہ عمران خان صاحب کی ادا ئیگی بہت اچھی تھی مگر اس میں مواد(contents) باقی تمام تقریروں سے کم تھا۔ اگر وہ لکھی ہوئی تقریر پڑھتے تو اس میں کشمیر اور اسلامو فوبیا کے بارے میں زیادہ دلائل، تاریخی حوالے، ٹھوس شہادتیں اور بہتر مواد شامل ہوتا جو ان کی تقریر کو زیادہ موثر بنا دیتا اور عالمی میڈیا میں پاکستان اور کشمیر کا کیس بہتر طورپر پیش ہوتا۔

کیاذوالفقار علی بھٹو بغیر لکھی ہوئی (extempore)تقریر نہیں کر سکتے تھے، بالکل کر سکتے تھے اور جناب عمران خان صاحب سے بہت بہتر کر سکتے تھے۔ وہ گھنٹوں بولتے اور سامعین پر سحر طاری کر دیتے تھے۔ اُسوقت کے سفارتکار بتاتے ہیں کہ غیر ملکی سفارتکار بڑی دلچسپی سے بھٹو صاحب کی تقریریں سنتے اور بہت کچھ سیکھتے تھے۔ مگر عالمی فورمز پر وہ ہمیشہ written text استعمال کیا کرتے تھے۔

حال ہی میں وزیراعظم صاحب نے اپنے استاد اور گائیڈ ڈاکٹر مہاتیر کی دعوت پر ملائیشیاکا دورہ کیا ہے، دونوں وزرائے اعظم نے عالمی میڈیا کے سامنے اپنا اپنا موقف بیان کرنا تھا۔ خان صاحب اچھی طرح جانتے ہیں کہ ڈاکٹر مہاتیر منہ زبانی بات کرنے پر بھی قدرت رکھتے ہیں، وہ ایساکرسکتے تھے مگر انھوں نے زبانی بات کرنے کے بجائے ماہرین کی مشاورت سے تیار کردہ نوٹ پڑھنے کو ترجیح دی۔

میراخیال تھا کہ ہمارے وزیرِاعظم بھی written textپڑھیں گے مگر انھوں نے وہاں بھی منہ زبانی تقریر کرنا شروع کر دی جسمیں انتہائی سطحی اور غیر متعلقہ باتیں اورسامعین کو بور اور بیزار کرنے والی تکرار زیادہ ہو تی ہے، اور بہت سے ضروری نقاط بیان کرنے سے رہ جاتے ہیں، اسی طرح انھوں نے مودی کی بڑھک کے جواب میں کہا "یہ تمہاری غلطی ہوگی، تم نے تاریخ نہیں پڑھی"۔ جواب کمزور اور پھسپھسا تھا، جوقوم کے جذبات کی صحیح ترجمانی نہیں کرتاتھا، آخر وہ ایسا کیوں کرتے ہیں؟ تمام عالمی رہنماؤں کے برعکس تیار کردہ تحریری نوٹ /تقریر کا استعمال کیوں نہیں کرتے۔

ان کے نیم خواندہ قسم کے جیالے تو اس پر بھی بلّے بلّے کریں گے کہ ہمارا لیڈر اتنا قابل ہے کہ اسے کسی نوٹ یا پرچی کی ضرورت نہیں ہے مگر کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ لکھی ہوئی تقریر پڑھ نہیں سکتے، یہ درست ہے کہ وہ بلاول بھٹو کی طرح اردو نہیں پڑھ سکتے مگر انگریزی تو پڑھ لیتے ہیں۔ فارن آفس کے کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ غالباً روانی سے نہیں پڑھ سکتے، اگر ایسا ہے تو انھیں اس کی پریکٹس کرانی چاہیے۔ دنیا کے تما م بڑے ملکوں کے سربراہوں کی باقاعدہ ٹریننگ ہوتی ہے اور ہر شعبے کے ماہرین جن شعبوں میں نومنتخب سربراہوں کو ٹریننگ دیتے ہیں، ان میں عالمی فورمز پر خطاب کرنے کا طریقہ، روایات اور پروٹو کول بھی شامل ہے۔ لہٰذا پہلی گذارش یہ ہے کہ ہمارے وزیراعظم عالمی میڈیا پر منہ زبانی بولنے کی نہایت نامناسب عادت ترک کردیں اور لکھی ہوئی تقریر کیا کریں۔

ا س بات میں اب کوئی شک نہیں رہا کہ عمران خانصاب اپنا پرانا آئیڈیلزم چھوڑ چکے ہیں اور اب وہ صرف Power politicsکرتے ہیں۔ ان کے قریبی ذرایع مانتے ہیں کہ اب سیا ست اور حکمرانی کے بارے میں خانصاحب اور ق لیگ یا ایم کیو ایم کی سوچ اور اپروچ میں کوئی فرق نہیں رہا۔ لہٰذا جب ذہن میں صرف اور صرف دنیا داری ہو، تو ریاست ِ مدینہ کا ذکر کرنا مناسب نہیں لگتا۔ جب حکمرانوں کے نزدیک قانون کی حکمرانی اور انصاف کی فراہمی کے بجائے، اپنا، اپنے دوستوں اوراپنی پارٹی کا سیا سی اور مالی مفاد ہی ترجیحِ اوّل ہو تو پھر مدینہ والوں کا نام لینا نہایت نامناسب بلکہ گستاخا نہ حرکت ہے۔ جب اپنے دوستوں اور ساتھیوں کو احتساب سے بچانا اور اپنے سیاسی مخالفین کو بے بنیاد کیسوں میں پکڑ کر جیل میں بند کرنا ہی مقصدِ سیاست ہو تو پھر بار بار ریاستِ مدینہ کا نام استعمال کرنا زیب نہیں دیتا۔ اسلام آباد کے باخبر صحافی جانتے ہیں کہ خان صاحب کی کابینہ کے اکثر وزراء مدینہ کا نام سنکر ہنستے ہیں، کیونکہ ان کا مدینہ کی فکر سے کوئی لینا دینا نہیں ہے بلکہ وہ شاہِ مدینہﷺ کی تعلیمات سے رہنمائی لینے کے ہی مخالف ہیں اور اسے پرانی سوچ قرار دیتے ہیں۔

محترم وزیرِ اعظم صاحب تو تعلیم اور میڈیا کی وزارتیں بھی ایسے افراد کو نہیں دے سکے جو شاہِ مدینہﷺ کی اطاعت تودرکنار آپﷺ کی تعلیمات سے فیضیاب ہونے کی خواہش ہی رکھتے ہوں۔ مقصد صرف تقریر کرکے اُن لوگوں کو متاثر کرنا ہے جو مدینہ کے مقدسّ نام سے عقیدت رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر حکمران کی چوکھٹ پر سر جھکانے والے کچھ درباری مُلّا خوشامدانہ لہجے میں کہتے ہیں کہ "دیکھیں جی عمران خاں ریاستِ مدینہ کا نام تولیتا ہے"کیا صرف نام لینا ہی کافی ہے۔ لگتا ہے وزیراعظم صاحب نے اس بات کا تہیّہ کر لیا ہے کہ ماضی میں جو بھی تقریریں کی ہیں، عمل اس کے بالکل بر عکس کر نا ہے، کل ایک رکشے کے پیچھے عمران خان صاحب کے فوٹو کے نیچے لکھا ہوا، یہ شعر نظر سے گذرا، جو اس وقت آوازِ خلق ہے۔

جے تیریاں تقریراں سُنیئے، تے بلّے بلّے بلّے

تے جے ویکھا ں تیرے عملاں ولّے، تے کُج نئیں تیرے پَلّے

جب انتقامی کارروائیاں اور دیگر معاملات دیکھتے ہیں تو کہنا پڑتا ہے کہ قانون کی حکمرانی اور انصاف کی فراہمی میں موجودہ حکمرانوں کی کارکردگی مدینہ تو چھوڑیں پاکستان کے سابق حکمرانوں سے بھی بہت نیچے ہے۔ اس ضمن میں اگر غیر جانبدار نہ مقابلہ کیا جائے تو یقینی طور پر عمران خان صاحب کو شہباز شریف سے بہت کم نمبر ملیں گے۔

خانصاب اپنی کمزوریوں سے اچھی طرح آگاہ ہیں اس لیے ان سے مودبانہ گذارش ہے کہ وہ ریاستِ مدینہ کا مقدسّ نام لینا چھوڑ دیں۔ سیاست اور دنیا داری کے لیے اس مقدسّ نام کا بار بار استعمال انتہائی نامناسب ہے۔ اس کا ایک خطرناک پہلو یہ بھی ہے کہ ایسی تقریروں سے بہت سے نوجوان گمراہ ہوں گے اور وہ سمجھیں گے کہ شاید خاکم بدھن ریاست ِ مدینہ میں ایسی ہی حکمرانی تھی۔

پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ عمرہ کرتے ہوئے یا روضہء رسول پر حاضری دیتے ہوئے فوٹو کھنچوانا اور اسے پاکستانی اخبارات میں چھپوانا نہایت نامناسب فعل ہے، جہاں تک یاد پڑتا ہے، سرکاری عمرے کرنے اور اس کے فوٹو شایع کروانے کا رواج ذوالفقار علی بھٹو صاحب کے دور سے شروع ہوا، وزارتِ اطلاعات نے احرام میں ملبوس حجرِاسود کو بوسہ دیتے ہوئے ان کا فوٹو ریلیز کیا۔ جنرل ضیاء الحق صاحب کے دور میں تو سرکاری حج اور عمروں کا سلسلہ اوجِ کمال تک پہنچ گیا۔ عبادت انسان اور اس کے خالق اور ربّ کے درمیان خالصتاًایک ذاتی عمل ہے جسکا مقصد اپنے خالق اور مالک کی خوشنودی حاصل کر نا ہوتا ہے اس کی تشہیر یا دکھاوے سے اس کی روح مسخ ہوجاتی ہے۔

اگر اس کا مقصد لوگوں میں مقبولیت حاصل کرنا ہو تو اللہ کی خوشنودی کیسے حاصل ہوگی؟ سیاسی شخصیات مکّہ اور مدینہ میں کی جانے والی عبادات کی تشہیر اس لیے کرتی ہیں کہ عوام کو دکھایا جائے کہ فلاں لیڈر ان مقدسّ مقامات سے کتنی عقیدت رکھتاہے اور مذہبی اقدار سے اس کا کسقدر لگاؤ ہے تاکہ عوام کے دلوں میں اس کے لیے مقبولیت یا پسندیدگی کے جذبات پیدا ہوں۔ ارضِ مقدسّ میں کی جانے والی عبادات کے فوٹو چھپوانا یا اُن کی تشہیرکرنا نہایت نامناسب رسم ہے یہ مکمل طور پر ختم ہونی چاہیے۔

پہلے بھی لکھ چکاہوں کہ صادق اور امین کے القاب صرف اور صرف نبی کریم حضرت محمد ﷺ کے لیے مخصوص ہیں۔ آپﷺ کے علاوہ کوئی اور ہستی ان القاب کی نہ حقدار ہو سکتی ہے اور نہ دعویدار۔ یہ کہنا کہ فلاں جج نے فلاں شخص کو صادق اور امین قرار دیا ہے غلط اور نامناسب ہے۔ کسی جج کو یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ کسی سیاستدان کو ایسے القاب سے نوازے جوصرف آقائے دوجہاں کے لیے مخصوص ہیں۔ کسی بھی شخص کو صادق اور امین کہنا نہایت نامناسب فعل ہے، ایسی بات کرنے سے مکمل طورپر احتراز کرنا چاہیے۔