خدا کے پیغمبر وں کے بعد تاریخ کے مختلف ادوار میں صاحبانِ نظر پیدا ہوتے رہے اور انسانوں کی رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیتے رہے۔ برّصغیر پاک و ھند میں سید ابولاعلیٰ مودودی ایک ایسے بلند پایہ اسکالر تھے جنکی کتابیں آج بھی مغرب کے محققین کے لیے ریفرنس کا درجہ رکھتی ہیں، انھوں نے پڑھے لکھے ذہنوں کے شکوک دور کیے اور الحاد کے سیلاب کے آگے بند باندھنے میں علامہ اقبالؒ کے بعد سب سے موثر کردارادا کیا۔
ان کے ساتھیوں میں مولانا امین احسن اصلاحی اور شاگردوں میں ڈاکٹر اسرار احمد صاحب بڑے جید اسکالر تھے۔ جناب جاوید غامدی صاحب کے نظریات سے بہت سے علماء کو اختلاف ہے مگر ان کے علم و دانش اور دینی خدمات سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ ھندوستان میں مولانا احمد رضا خان، سید سلیمان ندوی، مولانا ابوالحسن ندوی( علی میاں ) اور مولانا وحیدالدین رفاحی بہت بلند پایہ اسکالرز تھے۔ لاہور میں مولانا احمد علی لاہوری، مولانا ابوبکر غزنوی اور کراچی میں مولانا مفتی محمد شفیع، مولانا یوسف بنوری اور مولانا شاہ احمد نورانی اسلام کے بڑے جید اسکالرز تھے اب مفتی محمد شفیع صاحب کے بیٹے مولانا تقی عثمانی اور بنوری صاحب کے شاگرد قرآن اور اسلام کی تعلیم و تبلیغ میں بڑا قابلِ تحسین کام کر رہے ہیں۔
صوبہ خیبر پختونخوا میں ا کوڑہ خٹک کے فرشتہ سیرت مولانا عبدالحق صاحب، مولانا مفتی محمود، مولانا حسن جان اور کئی دوسرے علماء اپنے اپنے طور اور طریقے سے پیغامِ حق پھیلاتے رہے اوربہت سے اب بھی تبلیغِ دین میں مصروف ہیں۔ تبلیغی جماعت والے ڈاکٹر طارق جمیل صاحب بھی اپنے انداز میں عام لوگوں تک پیغامِ حق پہنچانے کا کام کر رہے ہیں جو قابلِ تحسین ہے۔
اسی طرح ایک پرائیویٹ ٹی وی چینل کے اینکر انیق احمد صاحب پیامِ صبح کے نام سے قرآنِ فہمی کا جو پروگرام کرتے ہیں اُس میں وہ ڈاکٹر سرفراز اعوان، ڈاکٹر حمادلکھوی صاحب اور مفتی منیب الرحمان جیسے جید علمائے کرام کو بلاتے ہیں جو بڑے دلپذیر انداز میں اللہ کی آخری کتاب کے معنی اور مفہوم سمجھاتے ہیں۔
خواتین میں ڈاکٹر فرحت ہاشمی نے درسِ قرآن کی مجالس منعقد کرکے خواتین کے حلقوں میں ایک انقلاب برپا کر دیا تھا اور اسی درسِ قرآن کے نتیجے میں ایلیٹ کلاس کے ہزاروں گھرانوں کی نوجوان لڑکیوں نے اسلام کا طرزِ معاشرت اختیار کر لیا تھا۔ ڈاکٹر صاحبہ کے ملک سے باہر جانے سے وہ کاوشیں کمزور ہوئی ہیں۔ ان کے علاوہ بھی بہت پڑھی لکھی خواتین اپنے محلوں، سیکٹروں اور علاقوں میں قرآن فہمی میں لوگوں کی رہنمائی کررہی ہیں اللہ تعالیٰ سب کو اس کا اجر عطافرمائیں۔
علم کی جو شمع راولپنڈی کے قریبی قصبے گوجرخان میں پروفیسر احمد رفیق اختر نے جلا رکھی ہے اُس نے بھی ملک کے اندر اور باہر ہزاروں انسانوں کے قلب و روح کو منور کیا ہے، لاتعداد افراد کی کایا پلٹ دی ہے۔
اِس بار گوجرخان میں پروفیسر صاحب کا لیکچر سننے والوں کی تعداد دس ہزارسے زیادہ تھی۔ پڑے لکھے، خواتین و حضرات کا اس نوعیّت کا اتنا بڑا اجتماع پورے ملک میں کہیں نہیں دیکھا۔ سامعین میں ڈاکٹر بھی تھے انجینئر بھی، پروفیسر بھی تھے اور وکیل بھی، سابق آئی جی بھی تھے اورریٹائرڈ سیکریٹری بھی، سیاستدان بھی تھے اور صحافی بھی، پروفیسر صاحب نے اپنے بارے میں کبھی ولی، عارف یا قطب ہونے دعویٰ نہیں کیا۔ وہ ایک جینوئن اسکالر ہیں، گورنمنٹ کالج لاہورمیں انگریزی ادب کے استاد رہے، سچائی جاننے کے لیے تڑپ پیدا ہوئی تو نوکری چھوڑ دی۔ اﷲ کی سچی کتاب قرآنِ کریم میں برسوں غوطہ زن رہے اور پھر خالق ومالک نے انھیں روشنی عطاکی تو انھوں نے اس روشنی سے دوسروں کے قلب وذہن منورّ کرنے کا فریضہ سنبھال لیا۔
برسوں پہلے جب اسلام کے ایک دو اسکالرز کے علاوہ کوئی اور نظروں میں جچتا ہی نہ تھا، کسی نے پروفیسر احمد رفیق کا ذکر کیا تو راقم نے زیادہ توجّہ نہ دی۔ ان کے جلسے کی دعوت ملی تو بھی نہ گیا۔ پھر جب ان کے کسی لیکچر کی ریکارڈنگ سنی تو ان کے منطقی انداز، دلائل کی توانائی اور مطالعے کی وسعت نے بڑا متاثّر کیا۔ راقم کو جب نیشنل پولیس اکیڈیمی میں اے ایس پیز کی ٹریننگ کی ذمّے دار ی سونپی گئی تو پروفیسر صاحب کو لیکچر کے لیے پولیس اکیڈیمی مدعو کیا۔ نوجوان افسروں کے ریمارکس سے اندازہ ہواکہ ان کی بہت بڑی اکثریت لیکچر سے بے حد متاثر ہوئی ہے۔
جدید علوم پر گہری نظر رکھنے والے پروفیسر احمد رفیق اختر جدید ذہنوں میں پیدا ہونے والے شبہات، مسلم معاشروں کی زبوں حالی سے مایوس ہونے والے مسلم نوجوانوں کے تحفظات، اورآج کے چیلنجز کا بخوبی احاطہ کرتے ہیں اور کئی علماء کیطرح offend ہوئے بغیر ہر سوال کاتشفی جواب دیتے ہیں، اس لیے ان کے "متاثرین" اور مداّحین کا دائرہ وسیع ہوتا چلاگیا۔
پروفیسر صاحب کی تقریر میں خود ساختہ مبالغہ آمیز کہانیاں نہیں ہوتیں، وہ سائینسی حقائق، تاریخی حوالوں، فلسفے، منطق اور دلائل سے سامعین کو کائنات کے رازوں سے روشناس کراتے ہیں۔ اللہ اور قرآن ان کی تعلیم و تبلیغ کا محور ہیں۔ اس کائنات کا خالق کون ہے؟ زمین، سورج، چاند، ستارے اپنے آپ پیدا ہوگئے یا یہ کسی کی قوتِ تخلیق کے مظاہر ہیں، یہ اپنے مداروں پر اپنے آپ گھوم رہے ہیں یا کوئی عظیم الشان کنٹرولر انھیں کنٹرول کر رہاہے؟ انسان کا اس کنٹرولر کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جو ہر پڑھے لکھے شخص کے ذہن میں پیدا ہوتے ہیں ان سوالوں کے جواب میں سائینس کے پاس صرف قیاس، گمان اور مفروضے ہیں، فلسفہ کنفیوز کرتا ہے۔ ان سوالوں کا جواب کسی سائینسدان کے پاس نہیں، اِن کا جواب کوئی صاحبِ نظرہی دے سکتا ہے، مشرق ومغرب کے علوم کے شناور اقبالؒنے کیا پتے کی بات بتادی تھی
خرد کے پاس خبر کے سواکچھ اور نہیں
تراعلاج نظر کے سوا کچھ اور نہیں
یعنی سائینس صرف معلومات information))ہی دے سکتی ہے، مگر انسانیت کے اصل مسائل کے حل کے لیے صاحبِ نظر کی رہنمائی ضروری ہے۔
پچھلے چند سال میر ی کسی نہ کسی سرکاری مصروفیّت کے باعث غیر حاضری ہوتی رہی توپچھلے سال پروفیسر صا حب نے فون کر کے راقم کو سالانہ اجتماع میں شرکت کی تاکید کی۔ ان کے کچھ دوستوں نے یاددھانی بھی کرا دی، اجتماع گاہ میں پہنچا تو حاضرین کی تعداد دیکھ کر حیران رہ گیا۔ اب ان کے چاہنے والوں نے گوجر خان سے دس کلو میٹر پنڈی کی جانب جی ٹی روڈ پر کافی جگہ لے لی ہے، ( جہاں وہ غالباًاپنا ھیڈکواٹر تعمیر کریں گے) اب اجتماع بھی وہیں ہوتا ہے اس لیے جگہ کی تنگی مانع نہیں ہوتی۔ منتظمین مجھے اسٹیج پر بٹھانے کے لیے اصرار کرتے رہے مگر میں اسٹیج کے سامنے والی قطار میں بیٹھ گیا تاکہ پروفیسر صاحب کا لیکچر پوری دلجمعی کے ساتھ سن سکوں۔ پروفیسر صاحب بھی راقم کو آتا دیکھ چکے تھے۔
لہٰذا انھوں نے معروف کالم نگار ہارون الرشید صاحب کو بھیجا جو بااصرار مجھے اسٹیج پر لے گئے۔ وہاں چند معروف شخصیات کے علاوہ بیرون ممالک سے آئے ہوئے کچھ خواتین و حضرات بھی بیٹھے تھے، ہم سب پروفیسر صاحب کے پرمغز لیکچر سے بھرپور فیضیاب ہوئے۔
اِس سال 23فروری کو اجتماع تھا، اس سے چند روز پہلے پروفیسر صاحب نے فون کرکے شرکت کی دعوت دی تو میں نے کہا"پروفیسر صاحب، اب آپ نہ بھی کہیں تو بھی آپ کی کشش کھینچ لیتی ہے" بلاشبہ لوگ بڑی بیتابی سے پروفیسر احمد رفیق صاحب کے سالانہ لیکچر کا انتظار کرتے ہیں۔ اس بار پھر میری نیچے بیٹھنے کی ضد کام نہ آئی اور منتظمین مجھے اسٹیج پر لے گئے۔ سامنے نظر ڈالی تو سامعین کی تعداد پہلے سے کہیں زیادہ تھی۔ خطاب بڑا روح پرور تھا، اﷲ جلّ شانہ کی جلالت اور قدرت اور نبی کریم ﷺ کے واقعات بڑے دلنشین انداز میں سناتے رہے، ان کا خطاب قرآنی آیات، احادیث مختلف فلاسفرز کے اقوال اور دانائے راز حضرت اقبالؒ کے زندہ و تابندہ شعروں سے مزین ہوتا ہے۔ لیکچر سنتے ہوئے کئی بار پلکیں بھیگیں، کئی بار کچھ نوٹ کرنے کی کوشش کی، سامعین کی واضح اکثریت اُ ن پڑھے لکھے لوگوں کی ہوتی ہے جو قرآن کا پیغام سمجھنا چاہتے ہیں اور اپنے خالق و مالک کا قرب حاصل کرنے کی تڑپ رکھتے ہیں۔
ممکن ہے ایک فیصد لوگ دنیا داری کے خواہشمند بھی ہوں، مگر درویشوں کے درسب کے لیے کھلے ہوتے ہیں ان کی مجالس صرف نیکوکاروں کے لیے نہیں ہوتیں وہاں رند بھی آتے ہیں اور متقی بھی، پرہیزگار بھی آتے ہیں اور گناہگار بھی۔ پروفیسر صاحب کوئی پیچیدہ شخص نہیں ہیں، ان میں تبحّرِ علمی کا کوئی زعم نہیں ہے، سادہ دل اور سادہ اطوار آدمی ہیں، ہر شخص ان کے ساتھ comfortableمحسوس کرتاہے۔
سنا ہے قصبے کی مقامی سیاست میں بھی حصہ لیتے رہے ہیں، اب میرے جیسا شخص پھر کہے گا کہ یہ کام پروفیسرصاحب کے مقام اور مرتبے سے فروتر ہے مگر وہ میرے دماغ سے کیوں سوچیں، وہ اپنے دماغ سے سوچنے والے شخص ہیں، اگر وہ اس طریقے سے قصبے کے عام آدمیوں کی فلاح و بہبود چاہتے ہیں تو وہ درست ہیں اور میرے تحفظات کی کوئی اہمیّت نہیں جو شخص بھی ان سے رہنمائی لینا چاہتا ہے وہ اس سے پوچھتے ہیں کہ "تمہاری زندگی میں اور تمہارے شب و روز کے معمولات میں کیا اﷲ کی ذات تمہاری ترجیحِ اوّل ہے؟ " جب ہارون صاحب برسوں پہلے عمران خان صاحب کو گوجرخان لے گئے تو پروفیسر صاحب نے عمران خان سے بھی یہی سوال کیا تھا۔
دنیا میں بڑے بڑے مشاہیر کی کیفیت یہ ہے کہ دولت، عزت اور شہرت حاصل ہے مگر دل کو سکون اور روح کو قرار حاصل نہیں ہے۔
جس خوش قسمت کی رسائی کسی صاحبِ نظر تک ہوجاتی ہے یا وہ کتابِ حق میں غرق ہو جاتا ہے تو کائناتوں کا مالک اسے دل کے سکون اور قرار کی دولت سے مالا مال کردیتا ہے۔