پچھلے کالم میں سیکریٹری ٹو پرائم منسٹر کی جگہ سہواً پرائم منسٹر آفس چھپ گیاجس سے قارئین ابہام کا شکار ہوئے۔ ویسے مجھے یقین ہے کہ اُس وقت فواد حسن فواد پرائم منسٹر کے سیکریٹری ہوتے(یہ واقعہ ان سے پہلے کا ہے) تو ایسا ہرگز نہ ہوتا۔
بہرحال دوسرے روز ایوانِ صدر میں ہی تقریبِ تقسیمِ انعامات منعقد ہوئی، جس سے پورے ادارے کی عزّت وتکریم میں اضافہ ہوا اور مورال بلندہوا۔ صدر صاحب اوران کا ملٹری اسٹاف موٹروے پولیس کے ڈسپلن اور تقریب کے معیار سے بہت متاثر ہوئے۔ اس کے چند مہینے بعد میں پھر صدر صاحب سے ملا اور ان سے درخواست کی کہ ایوانِ صدر میں مختلف ادبی تقریبات ہوتی رہتی ہیں لہٰذا مفکرِّ پاکستان حضرت اقبالؒکی فکر اور فلسفے کو اجاگر کرنے کے سلسلے میں بھی تقریب ہونی چاہیے۔ انھوں نے اس سے فورًا اتفاق کیا اور اپنے ایڈیشنل سیکریٹری ڈاکٹر ندیم شفیق کو بلاکرہدایات دے دیں۔
اتفاّق سے اسی روز "وہ ایک سجدہ"کے عنوان سے میرا کالم چھپا تھا، میں نے وہ کالم پڑھا تو سجدے کے بارے میں اقبالؒکے اشعار سن کر صدر صاحب سَردُھنتے رہے۔ کالم کے آخر میں جب علاّمہ کا لازوال شعر پڑھا گیا کہ
وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات
تو جناب ممنون حسین صاحب بار بار کہتے رہے "اس میں کوئی شک نہیں کہ علاّمہ اقبالؒ کی شاعری الہا می شاعری ہے۔" چند روز بعد ایوانِ صدر کے دربار ہال میں ایک شاندار تقریب منعقد ہوئی، شہر کے معززّین، ماہرینِ تعلیم دانشوروں، وکلاء، صحافیوں اور طلباوطالبات سے ہال بھرا ہوا تھا اور جناب احمد جاوید صاحب اورتحسین فراقی صاحب جیسے جیّد اور زاہد منیر صاحب جیسے نوجوان اسکالرزنے فکرِاقبال کے مختلف زاویوں کو اجاگر کیا۔
راقم نے اپنے خطاب میں نوجوانوں کے لیے اقبالؒ کے پیغام پر زور دیا۔ بلاشبہ صدر صاحب کی ذاتی دلچسپی سے ایوانِ صدر میں کئی سالوں بعد مفکّرِپاکستان کے بارے میں ایک یادگار تقریب منعقد ہوئی۔ جو کافی عرصے تک سامعین کی یادوں میں محفوظ رہی۔ میری کتابیں (دو ٹوک باتیں اور دوٹوک)شائع ہوئیں تو میں نے صدر صاحب کو پیش کرنے کے لیے ان سے ملاقاتیں کیں۔ اِن ملاقاتوں میں صدر صاحب کو چند مضامین کے اقتباس پڑھ کر سنائے توبہت خوش ہوئے اور بار بار کہتے رہے، "یہ باتیں نئی نسل کو بتانے والی ہیں۔
ایسے مضامین تو تعلیمی نصاب میں شامل ہونے چاہئیں "۔ ہمارے قومی کردار میں در آنے والی پستی اور ملّی اقدار کی پامالی پر بڑی دیر تک اظہارِ افسوس کرتے رہے۔ صدر صاحب کے ساتھ مختلف ملاقاتوں میں کئی حسّاس معاملات پر بھی تبادلۂ خیال ہوتا رہا جس کی تفصیل پھر کبھی لکھوں گا۔ ستمبر 2015 میں مجھے نیشنل ووکیشنل اینڈ ٹیکنیکل ٹریننگ کمیشن (NAVTTC) کا سربراہ مقرّر کر دیاگیا۔ ہمارے ملک کی بیس کروڑ آبادی میں 65% نوجوان ہیں، ہرسال لاکھوں نوجوان کالجوں اور یونیورسٹیوں سے ڈگریاں لے کر سرکاری اور پرائیویٹ اداروں کے چکر کاٹنا اور اخباروں کے اشتہار چاٹنا شروع کردیتے ہیں مگر ہرطرف سے انھیں مایوس کن جواب سننا پڑتا ہے، کیونکہ کاغذ کی اس دستاویز کی نہ کوئی اہمیّت ہے اور نہ مانگ۔ ہمارا پبلک سیکٹر بہت محدود اسامیاں تخلیق کرتا ہے۔
لہٰذا حل ایک ہی ہے کہ اپنے نوجوانوں کو ہنر مند بنایا جائے۔ اگر ہم اتنی بڑی افرادی قوّت کو مقامی اور عالمی مارکیٹ کی ضروریات کے مطابق ہُنر(Marketable skills)فراہم کرسکیں تو یہ ہمارے ملک کے لیے تیل اور سونے سے بڑا خزانہ ثابت ہو سکتا ہے۔ ادارے کے سینئر افسروں نے بریفنگ میں بتایا کہ نیوٹیک کے پاس ایک سال میں پچیس ہزار نوجوانوں کوہنر مندی کی تربیّت فراہم کرنے کا مینڈیٹ بھی ہے اور فنڈز بھی، مگر نوجوان اِس طرف راغب نہیں ہوتے کیونکہ یہ شعبہ دوسری تعلیم سے کمتر (inferior)سمجھا جاتا ہے۔
غریب والدین بھی اپنے بیٹے کو مستری یا پلمبر بنانے کے لیے تیار نہیں۔ لوگ حضورؐ کا فرمان، الکا سب حبیب اللہ(ہاتھ سے کام کرنے والا محنت کش اللہ کا دوست ہے)سن تو لیتے ہیں مگر اسے حرزِجاں نہیں بناتے۔ ہم نبی کریم ﷺ سے عقیدت اور محبت کادم تو بھرتے ہیں مگر سرکارِدو عالمؐ کی طرح اپنے ہاتھوں سے کام کرنا توہین سمجھتے ہیں۔ تو پھر نوجوانوں کو فنّنی تعلیم و تربیّت (TVET Sector)کی جانب کیسے راغب کیا جائے؟ اِس سوال کا جواب ہمیں ایکسپوسینٹربرمنگھم میں ملا۔ اکتوبر2015کے آخر میں برٹش کونسل نے ہمیں برطانیہ کے شہر برمنگھم میں ایک سیمینار میں شرکت کے لیے مدعو کیا۔
آخری روز برمنگھم کے وسیع و عریضExpo centerمیں منعقّد ہونے والے ھنر مندی کے مقابلے دیکھے تو ہمیں اپنے سوال کا جواب مل گیا _ Skill competitions، نوجوانوں کو اس شعبے کی جانب کھینچنے اور ان کی دلچسپی بڑھانے کے لیے ان میں فنّی ہنر مندی کے مقابلے کرائے جائیں۔ واپس آتے ہی میری سب سے پہلی میٹنگ Skill Competetionsکے بارے میں تھی۔ جہاں یہ فیصلہ ہوگیا کہ پہلے ریجنل، پھر صوبائی اور آخر میں قومی سطح پر مقابلے منعقّد کیے جائیں گے اور جیتنے والوں کو بھاری انعامات اور وہ بھی ملک کی اہم ترین شخصیات سے دلائے جائیں گے تاکہ جیتنے والوں کی عزّت افزائی بھی ہو اور حوصلہ افزائی بھی۔ نظریں ایک بار پھر ایوانِ صدر کے باوقار اور مدبّر مکین کی جانب اٹھ گئیں اور میں نے پھر صدر صاحب سے ملنے کا فیصلہ کیا۔ پرانے ملٹری سیکریٹری تبدیل ہوچکے تھے مگر نئے آنے والے بھی بڑے نفیس اور مثبت ذہن کے مالک نکلے۔
اس بار میں نے صدر صاحب سے ملکر سیکیورٹی اور امن و امان کی بجائے جب یہ کہنا شروع کیا کہ اگر ہمارے کروڑوں نوجوان بے ھنر رہے تو یہ معاشرے اور ملک پر بوجھ بن جائینگے اور اگر ہم نے انھیں ھنر کے ہتھیار سے مسلّح کر دیا تو یہ خود قوم کا بوجھ اٹھالیں گے توصدر صاحب نے اس بیانئے کی تائید میں کچھ اور حقائق بتائے، ان کی باتوں نے باور کرادیا کہ وہ آئی بی اے کراچی سے ماسٹر آف بزنس ایڈنسٹریشن کے ڈگری ہولڈر ہیں۔ آخر میں انھوں نے کہا کہ "ھنر مندی کی اہمیّت اور فضیلت سے کسے انکارہوسکتا ہے مگر یہ بتائیے کہ میں اس سلسلے میں کیا کر سکتا ہوں۔" میں نے گزارش کی کہ اس شعبے کو دلکش اور باعزّت بنانے کی ضرورت ہے، اس کے لیے ہم پورے ملک میں ھنر مندی کے مقابلے منعقّد کر رہے ہیں۔
ہم چاہتے ہیں کہ مقابلے جیتنے والوں کو ملک کی اہم ترین شخصیات سے انعام دلوائے جائیں، جس سے ان کی بے پناہ حوصلہ افزائی ہوگی اور دوسرے ہزاروں نوجوانوں میں انعام حاصل کرنے کی امنگ پیدا ہوگی۔ ہم کراچی سے آغاز کر رہے ہیں، ہماری خواہش ہے کہ سندھ بھر میں انعام جیتنے والوں میں آپ انعامات تقسیم فرمائیں۔ صدر صاحب نے ہماری درخواست قبول کرلی۔
کچھ دنوں بعد گورنر ہاؤس کراچی کے سبزہ زار پر انتہائی شاندار تقریب منعقد ہوئی جس کی نظامت نیو ٹیک کی ڈائریکٹر جنرل نبیلہ عمر نے انتہائی کامیابی سے نبھائی (بعد میں اسلام آباد کی مرکزی تقریبات کو پروفیشنل اینکرز کے بجائے ہمارے اپنے افسران زبیر ہاشمی اور نبیلہ عمر بحسن و خوبی کنڈکٹ کرتے رہے)گورنر ہاؤس کی اس تقریب میں ممتاز صنعتکاروں اور اعلیٰ حکام کے علاوہ ٹیکنیکل اداروں کے ٹیچرز کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔ ان سب کی موجودگی میں (غریب گھرانوں سے تعلّق رکھنے والے) لڑکوں اور لڑکیوں نے صدرِ پاکستان کے ہاتھوں انعامات وصول کیے تو ان کی خوشی و مسرّت کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔
اس کے بعد ہم نے صدر صاحب کی مثال دے کر تمام گورنر صاحبان سے "قبولیّت "حاصل کی اور صوبائی سطح کے مقابلے گورنرہاؤسز میں منعقد ہونے لگے۔ مجھے یاد ہے کہ صوبہء پنجاب کے صوبائی مقابلے جیتنے والوں میں وزیر اعلیٰ شہباز شریف صاحب نے انعامات تقسیم کیے، سندھ میں ایک بار وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ صاحب نے اور دوسرے سال کو ر کمانڈر کراچی نے انعامات تقسیم کیے۔
صوبہء خیبر پختونخواہ میں ایک بار گورنراقبال ظفر جھگڑا صاحب اور دوسری بار وزیرِ اعلیٰ پرویز خٹک صاحب نے انعامات تقسیم کیے۔ مقابلوں سے نوجوانوں کی ھُنر سیکھنے میں دلچسپی بہت بڑھ گئی، ان کی تربیّت کا معیار بلند ہوا جس سے ان کی ھنرمندی کے لیول میں بہت اضافہ ہوا اور انھیں بڑی تیزی سے ملازمتیں ملنے لگیں۔ تمام ماہرین کی متفقہ رائے تھی کہ ھنر مندی کے مقابلےgame changer ثابت ہوئے ہیں۔ اگلے سال ہم نے حکومت سے پورے ملک کے پچاس ہزار اور اس سے اگلے سال ایک لاکھ نوجوانوں کو ھنر مندبنانے کی منظوری لے لی۔
صوبائی مقابلے جیتنے والوں کے درمیان اسلام آباد میں قومی سطح کے مقابلے کرائے گئے اور پلمبنگ، ویلڈنگ، الیکٹریشن، ڈرائیونگ، ککنگ، سٹچنگ وغیرہ کے مقابلے جیتنے والوں کے لیے ایوانِ صدر میں انتہائی شاندار تقریب منعقد ہوئی جس میں اوّل، دوم اور سوم آنے والوں نے بالترتیب ایک لاکھ، پچھتّر ہزار اور پچّاس ہزار کے انعامات صدرِ مملکت کے ہاتھوں وصول کیے۔ اسطرح غریب گھرانوں کے نوجوان تین سال تک وزرائے اعلیٰ، گورنر صاحبان اور صدرِ مملکت کے ہاتھوں انعامات وصول کرتے رہے، اُن کے انٹرویو ٹی وی چینلز اور اخبارات میں آتے رہے، ان کے انسٹرکٹرزکو بھی ان تقریبات میں مدعو کیا جاتا تھا۔
ان مسلسل اور مربوط کوششوں سے فنّی تعلیم و تربیّت کے پورے شعبے کو بڑی عزّت وتکریم ملی اور نوجوان جوق درجوق اس شعبے کی طرف آنے لگے۔ 2018 میں ہم نے اسلام آباد میں TVETکی انتہائی کامیاب عالمی کانفرنس منعقّد کی، جس کے تمام شرکاء ایوانِ صدر کے مہمان بنے اور پاکستان کا انتہائی مثبت اور خوشنما امیج لے کر گئے۔ ان تمام کامیابیوں میں ایک بڑا حصّہ مرحوم صدر ممنون حسین کا بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائیں۔