26 ویں آئینی ترامیم سے ریاستی اداروں کے درمیان توازن بگڑا ہے اور پلڑا ایک جانب جھک گیا ہے۔ مگر کچھ عرصہ پنڈولم اسی طرح کبھی ایک طرف جھکے گا اور کبھی دوسری طرف۔ یورپ میں بھی صدیوں تک اداروں کی باہمی آویزش جاری رہی اور پھر کہیں جا کر سب نے اپنی اپنی حدود طے کیں جس سے ریاستی اداروں میں توازن قائم ہوا اور ملکوں کو سیاسی استحکام نصیب ہوا۔
صرف توازن ہی سیاسی استحکام کی ضمانت دے سکتا ہے۔ آئینی ترامیم کے مخالف ایک سینیئر وکیل صاحب کا فون آیا۔ پارلیمنٹیرنز کو ملنے والے اختیارات کے بارے میں طنزیہ لہجے میں کہنے لگے"اللہ کی شان ہے کہ جن کے کہنے پر ضلع کا ڈی پی او، ایس ایچ او نہیں لگاتا، وہ اب ججز لگایا کریں گے۔
کیا یہ ہیں وہ اصلاحات جن کے لیے پچھلے کئی ماہ سے پوری قوم سولی پر ٹنگی رہی؟" سپریم کورٹ کے ایک ریٹائر جج صاحب سے بات ہوئی تو موصوف کہنے لگے، کچھ عرصے بعد ان ترامیم کو پاس کرانے والے خود ان کے خاتمے کی کوشش کررہے ہوں گے۔ " میں نے کہا، "سر! اس میں کوئی شک نہیں کہ تمام مہذّب قومیں عدلیہ کی بالادستی تسلیم کرتی ہیں، جہاں عدلیہ کمزور ہوجائے وہاں انصاف کا حصول مشکل ہوجاتا ہے۔ مگر یہ جو کچھ ہوا ہے، اس کی سب سے زیادہ ذمے داری خود عدلیہ پر عائد ہوتی ہے۔
اعلیٰ عدلیہ کئی دھائیوں تک اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ رہی۔ منتخب وزرائے اعظم کو انتہائی کمزور اور مضحکہ خیز وجوہات پر گھر بھیجتے اور ملک کو عدمِ استحکام کا شکار کرتے رہے۔ اس طرح عدلیہ کے بعض فیصلوں نے ملک کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔ " جج صاحب نے میری باتوں سے اتفاق کیا۔ میں نے کہا سر! تمام باخبر حضرات آگاہ ہیں کہ ہمارے کلاس فیلو ثاقب نثار کے دور سے چند جج صاحبان سیاست میں باقاعدہ پارٹی بن گئے، انھوں نے غیر جانبداری چھوڑدی، اور ایک سیاسی لیڈر کے معاون ومددگار بن گئے تھے۔
ایک پارٹی کی مدد کے جنون میں انھوں نے آئین کی کی پرواہ نہ کی اور آئین کے واضح احکامات سے انخراف کیا۔ ان وجوہات کی بناء پر عدلیہ نہ صرف عوامی اعتماد سے محروم ہوئی بلکہ اس کے خلاف غم وغصّے کے جذبات میں شدّت پیدا ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ افتخار چوہدری کو ہٹانے پر وکلاء عوام اور میڈیا کی طرف سے جتنا شدید ردِّعمل سامنے آیا تھا، وہ جسٹس منصور علی شاہ کو چیف جسٹس نہ بنانے پر دیکھنے میں نہیں آیا۔ اس کا واضح مطلب ہے کہ عوام کا فہمیدہ طبقہ عدالتی ایکٹوزم سے تنگ آچکے تھے اور اس سے چھٹکارا چاہتے تھے۔
جج صاحب نے اس نقطۂ نظر سے اختلاف نہیں کیا مگر پر زور انداز میں یہ کہا کہ "عدالتِ عظمٰی کو کمزور کرنا ملک اور جمہوریت کے لیے نیک شکون نہیں ہے"۔ ایک اور نامور قانون دان سے شادی کی ایک محفل میں ملاقات ہوگئی اور پھر ان سے آئینی ترامیم پر ہی تبادلۂ خیال ہوتا رہا۔ وہ کہنے لگے، آئین مختلف اکائیوں اور قومیّتوں والے ملکوں کو متحد رکھنے کا ضامن ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ آمرانہ مزاج رکھنے کے باوجود ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے 1973کا آئین متفقہ طور پر منظور کرانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا تھا۔ وہ رات کے گیارہ بجے بلوچ لیڈروں سے مل کر آتے تو بارہ بجے مفتی محمود صاحب کے پاس پہنچ جاتے۔
انھیں منا کر نکلتے تو رات کے ایک بجے عبدالولی خان کے پاس پہنچ جاتے اور پھر تین بجے پروفیسر غفور احمد سے ملنے چلے جاتے۔ بھٹو صاحب نے اپوزیشن کے بہت سے مطالبات تسلیم کیے اور انھیں آئین کا حصہ بنایا اور تب جا کر ایک متفقہ آئین منظور کرانے میں کامیاب ہوئے تھے لہٰذا اس متفقہ آئین میں اگر کبھی ترمیم کی ضرورت پڑے تو وہ متفقہ طور پر پاس ہونی چاہیے۔ مگر حالیہ ترمیم کو پاس کرانے کا طریقہ انتہائی نامناسب تھا، اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ آئین میں تبدیلی صرف اور صرف عوام کے مفاد میں کی جانی چاہیے۔
سوال یہ ہے کہ کیا یہ ترامیم عوام کی خواہش پر کی گئی ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ عوام یا عوامی مفاد کا ان ترامیم سے کوئی تعلّق نہیں ہے۔ سپریم کورٹ کے ایک سینئر وکیل کا کہنا تھا کہ حکومتی پارٹیاں دعوے کررہی ہیں کہ ان ترامیم سے مقنّنہ اور جمہوریّت مضبوط ہوئی ہے۔ نہیں جناب نہ پارلیمنٹ مضبوط ہوئی ہے اور نہ جمہوریت مضبوط ہوئی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جنھوں نے یہ ترامیم منظور کرائی ہیں صرف وہ مزید مضبوط ہوئے ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ صاحب کے پروگریسو نظریات کے پیشِ نظر پیپلز پارٹی ان کے حق میں تھی اور بلاول صاحب کئی بار بیان دے چکے تھے کہ آیندہ چیف جسٹس وہی ہوں گے مگر پیپلزپارٹی کے نمایندوں نے جسٹس یحییٰ آفریدی صاحب کے حق میں ووٹ دیا۔ پچھلے پچھتّر سالوں میں ریاست کے تین اداروں میں سے دو ایک طرف رہے، ایک مارشل لاء لگادیتا، دوسرا اسے جائز قرار دے دیتا۔ منتخب وزرائے اعظم کو بغیر کسی جرم کے فارغ کیا گیا۔ بہت سے جج صاحبان سیاست بازی کرتے اور ملک کو غیر مستحکم کرتے رہے اور اب اسٹیبلشمنٹ نے پارلیمنٹیرنز کو ساتھ ملانے کے لیے آواز دی تو وہ بھاگے چلے آئے۔
حالیہ ترمیم کے بعد دو فریق کمزور ہوئے ہیں، عوام بھی کمزور اور irrelevant ہوگئے ہیں۔ عدلیہ سے متعلق سب سے بڑا اور بنیادی اشو ہے ہائی کورٹ کے ججوں کا معیار اور ان کی تعیّناتی کا طریقۂ کار۔ معیار اور طریقۂ کار کی بہتری کسی فریق کی ترجیحات میں ہی نہیں۔ 1996سے پہلے جج صاحبان کی تعیناتی حکومت کیا کرتی تھی حبیب وہاب الخیری کی پٹیشن پر جسٹس سجاد علی شاہ کے تاریخی فیصلے کے بعد یہ اختیار عدلیہ نے خود سنبھال لیا۔ حکومت اپنے سیاسی ساتھیوں کو بھی جج بنواتی تھی جب کہ بھتیجوں اور دامادوں کو بھی جج بنایا گیا۔
عدلیہ میں اگر کبھی اعلیٰ معیار کے جج مقرر ہوئے جو آمروں اور فسطائیت کے سامنے کھڑے ہوئے اور جنھوں نے تاریخی فیصلے دیے تو وہ جسٹس کارنیلیس، جسٹس کیانی، جسٹس صمدانی اور جسٹس شفیع الرحمن جیسے جج تھے۔ ان میں سے ایک بھی وکیل نہیں تھا، یہ تمام سروس سے آئے تھے، یعنی یہ پہلے سی ایس پی کا امتحان پاس کرکے سول سروس میں شامل ہوئے اور اس کے بعد (اُس وقت کے قوانین کے مطابق) انھوں نے سول سروس چھوڑ کر عدلیہ میں شمولیت اختیار کی وہ پہلے سیشن جج بنے اور کچھ سالوں کے بعد elevate ہوکر ہائیکورٹ کے جج بن گئے۔
چند روز پہلے بلاول بھٹو تقریر فرمارہے تھے کہ 1996 میں وزیراعظم سے ججوں کی تعیّناتی کا اختیار اس لیے چھین لیا گیا کیونکہ وہ ایک خاتون تھیں۔ نہیں جناب! ایسا نہیں تھا، خاتون وزیراعظم نے جیالے کارکنوں کو جج بنادیا تھا اور ان میں ایسے جیالے بھی تھے جن کے خلاف سنگین کیس چل رہے تھے، انھیں نکالنا انصاف کا تقاضا تھا، انھیں بالآخر ایک سندھی چیف جسٹس نے نکال کر عدلیہ کی صفائی کردی۔ ملک میں سیاسی استحکام کے لیے اداروں کے درمیان توازن قائم کرنے کی ضرورت ہے اور جوڈیشنل ریفارمز کے سلسلے میں ہائی کورٹس میں ججوں کی تعیّناتی کا طریقۂ کار تبدیل کرنے کی ضرورت تھی، دونوں کی طرف کسی کی توجہ نہیں ہے۔
حکومت کے حامی برطانیہ اور امریکا کی مثالیں دے کر ممبرانِ اسمبلی کو ججوں کی تعیّناتی کا اختیار دینے کو درست قرار دیتے ہیں۔ کوئی ان سے پوچھے کہ کیا وہاں پارلیمنٹ کے ممبر تھانوں کے ایس ایچ او لگوانے کے لیے سفارشیں کرتے ہیں؟ کیا وہ تفتیشوں میں دخل دیتے ہیں؟ ہمارا اور ان کا کوئی موازنہ نہیں بنتا۔ پہلے بھی بارہا لکھ چکا ہوں کہ وکیل کبھی غیر جانبدار نہیں ہوسکتے۔ مقابلے کے امتحان کے ذریعے لاء گریجوایٹس میں سے ایڈیشنل سیشن جج مقرر کیے جائیں۔ جب ان کی سروس بیس سال ہوجائے تو ان میں سے دیانتدار اور نیک نام سیشن ججوں کو elevate کرکے ہائی کورٹس کا جج مقرر کیا جائے۔
پسِ تحریر: ابھی 26 ویں ترمیم کی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی کہ اب ایک اور ترمیم کا دھماکا کردیا گیا ہے، اس کے اثرات و مضمرات پر آیندہ بات ہوگی۔