توازن حسن پیدا کرتا ہے۔ توازن بگاڑ اور انتشار کا راستہ روکتا ہے۔ توازن سے ہی کائنات کا حسن ہے، انسانی معاشرے کا حُسن بھی توازن سے ہی قائم رہ سکتا ہے۔ جدید دور میں جمہوری ملکوں کا نظام درستگی کے ساتھ چلانے کے لیے ہر ملک کے آئین میں اداروں کے درمیان توازن کو یقینی بنایا گیا ہے۔ توازن، امورِ مملکت کی رکاوٹیں دور کرتا اور انھیں آسان بناتا ہے، توازن سیاسی استحکام کو یقینی بناتا ہے، ترقّی کا پہیّہ تیز کرتا ہے اور باشندوں کے لیے امن اور خوشحالی لاتا ہے۔ آج کے مروّجہ جمہوری نظام میں ریاست کے تین ستونوں یا بڑے قومی اداروں یعنی مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ کے درمیان اختیارات کی واضح تقسیم توازن کو یقینی بناتی ہے۔ پچھتّر سال عمر والے اداروں کی ایک دوسرے کی حدود میں دخل اندازی کوئی اچنبے کی بات نہیں، یورپ میں بھی سالہا سال کی آویزش کے بعد قومی ادارے اپنے دائرۂ کار تک محدود ہوئے تھے۔
وطنِ عزیز میں سول انتظامیہ پچھلی چار دھائیوں میں اپنی ناقص کارکردگی، نااہلی اور کرپشن کے باعث اپنی ساکھ اور اختیارات وطاقت کھوچکی، اور اس کی جگہ اسٹیبلشمنٹ اور نظام انصاف نے لے لی۔ مقننہ اور عدلیہ کے پاس آئینی اور قانونی اختیارات ہیں جب کہ فزیکل طاقت اسٹیبلشمنٹ کے پاس ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ان طاقتور اداروں میں باقی تمام اداروں کو اپنا فرمانبردار یا مددگار بنانے کی خواہش بھی جڑ پکڑ چکی ہے اور کسی حد تک اس کے نظرئیے کی صورت اختیار کرچکی ہے۔ اگر ادارے اپنے طے شدہ دائروں میں رہ کر کام کریں گے تو توازن قائم ہوگا جو سیاسی استحکام کا موجب بنے گا مگر کسی دوسرے ادارے کے قانونی اختیارات کو تسلیم کرنے سے انکار کیا جائے گا اور اسے subservient بنانے کی کوشش کی جائے گی تو توازن بگڑ جائے گا جس سے ملک انتشار، بدامنی اور انارکی کا شکار ہوگا۔
تلخ حقیقت یہ ہے کہ انتظامیہ اور مقنّنہ نظام عدل اور اسٹیبلشمنٹ کی اطاعت قبول کرچکی اور اب قلعۂ عدل اور اسٹیبلشمنٹ آمنے سامنے ہیں۔ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے لیڈر اسٹیبلشمنٹ کے اتحادی بن چکے اورعدلیہ کے ایک حصے پر مسلسل تیر برساتے رہتے ہیں۔ عدلیہ کا قلعہ اندرونی تقسیم کے باعث پہلے سے کمزور ہوچکا ہے، کچھ ججوں کی ایک پارٹی کے لیے ہمدردی اور حمایت نے بھی انھیں متنازعہ بنانے کا موقع فراہم کیا ہے۔
موجود چیف جسٹس جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف جب پی ٹی آئی حکومت نے ریفرنس تیار کیا تھا تب راقم نے ان کے حق میں اُس وقت چار پانچ آرٹیکل لکھے تھے، جب ان کے حق میں ایک جملہ بھی لکھنا یا بولنا بھی مشکل تھا۔ انھوں نے بلاشبہ اصول پسندی کا مظاہرہ کیا مگر کچھ فیصلوں نے مایوس بھی کیا ہے۔
ان کے کئی اقدامات اور فیصلوں پر تنقید ہوسکتی ہے مگران کی کردار کشی کی مہم کی بات کروں تو یہ بدتہذیبی اور گھٹیاپن کا شرمناک مظاہرہ ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے، ایسی حرکتوں کی تعریف کرنے والے بھی قابلِ مذمّت ہیں۔ عمران خان کے بہت سے حامی بھی جو ویسے تو ان کی ہر بات کا دفاع کرتے ہیں یہ تسلیم کرتے ہیں کہ اس نے نئی نسل کو بدتہذیب اور بد اخلاق بنا دیا ہے۔ ایسی حرکتیں اسی کے پیروکار کرتے ہیں اور وہ ان کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ نہ جانے اس کے اثرات ختم کرنے میں کتنا عرصہ لگے گا۔
پچھلے کالموں میں بھی ذکر کرچکا ہوں کہ مہذّب معاشروں میں اگر کسی ادارے کی بالادستی تسلیم کی جاتی ہے تو وہ عدلیہ یا سپریم کورٹ ہے۔ دوسرے تمام اداروں کے کام Subject to judical scrutiny ہوتے ہیں۔ کسی آئینی معاملے پر دو فریقوں کے درمیان تنازعہ کھڑا ہوجائے تو اس کا حتمی فیصلہ سپریم کورٹ ہی کرے گی اور یہ توہر پڑھا لکھا شخص جانتا ہے کہ سپریم کورٹ کے اکثریتی ججوں کا خود عدالتِ عظمیٰ کا فیصلہ ہوتا ہے اور اس پر عمل درآمد کرنا تمام متعلقہ اداروں کا فرض بن جاتا ہے۔
اگر سپریم کورٹ کسی ایشو پر کوئی فیصلہ کرے اور وہ کسی کو پسند نہ بھی آئے تو بھی اس پر عمل درآمد ہونا چاہیے، اگر سپریم کورٹ کوئی فیصلہ کرے اور حکومت اس فیصلے کی نفی کرنے یا اسے ناقابلِ عمل بنانے کے لیے نیا قانون بنادے۔ اس کے بعد عدالتِ عظمیٰ کوئی اور فیصلہ کرے اور حکومت نئی قانون سازی کے ذریعے اسے negate کردے تو یہ بھی مناسب نہیں، اس کا نتیجہ انارکی کے سوا کچھ نہیں ہے۔
اچھا لگے یا برا، فل کورٹ کے اکثریتی ججوں کے فیصلے پر عملدرآمد ہونا چاہیے۔ اس کے علاوہ سجّاد علی شاہ کیس کی روشنی میں سنیارٹی کے اصول کو ہی تسلیم کرنا چاہیے۔ اسے روکنے کے لیے قانون سازی کرنا بھی ایک غلط روایت ہے۔
اقتدار سے مستفیض ہونے والی دونوں پارٹیوں کے لیڈر اکثر بیان دیتے ہیں کہ22کروڑ عوام کے منتخب لیڈر کو پانچ جج کس طرح گھر بھیج سکتے ہیں؟ کاش ان پارٹیوں میں موجود قانون دان انھیں اچھی طرح بریف کریں کہ جمہوری نظام میں چیک اینڈ بیلنس رکھا گیا ہے، کسی ادارے کے پاس لامحدود اختیار نہیں ہوتے۔ سیاستدان منتخب ہو کر سیاہ وسفید کے مالک یا شہنشاہ نہیں بن جاتے کہ وہ جو چاہیں کرتے پھریں۔ ان کے کسی بھی اقدام کو عدالت میں چیلنج کیا جاسکتا ہے جسے عدالت منسوح کرسکتی ہے، اگر وزیراعظم یا وزیراعلیٰ کی نااہلی کا کیس عدالتِ عظمیٰ کے پاس زیرِ سماعت ہے تو اس کے پانچ ججوں کے بجائے دو جج یا ایک جج بھی انھیں گھر بھیج سکتا ہے۔
پارلیمنٹ کے پاس آئین سازی کے اختیار ہیں مگر وہ قانون بنا سکتی ہے، ترمیم کرسکتی ہے اور قانون ختم بھی کرسکتی ہے لیکن یہ اختیار لامحدود نہیں۔ سیاستدانوں کا کون سا قانون آئین اور عوامی مفاد کے منافی ہے، اس کا فیصلہ صرف سپریم کرٹ ہی کرسکتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ حکمران جو کچھ آج کررہے ہیں اور جو کہہ رہے ہیں، وہ کل ان کے خلاف استعمال ہوگا، ان کے سیاسی مخالفین اقتدار میں آکر بعینہہ یہی کام کریں گے اور اس وقت جب موجودہ حکمران (جو اس وقت اپوزیشن میں ہوں گے) ان پر تنقید کریں گے تو وہ انھی کے ریکارڈ شدہ بیانات اور تقریریں سنوادیں گے جس طرح آج نوازشریف صاحب کی ایک پرانی تقریر کا اقتباس چل رہا ہے جس میں وہ کہہ رہے ہیں کہ "سپریم کورٹ کا فیصلہ آچکا ہے تو سب اسے ماننے کے پابند ہیں۔
یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ آجائے اور اس پر عمل نہ کیا جائے" اسی طرح عمران خان کی پرانی تقریریں اور بیانات سنوائے جاتے جن میں وہ جنرل باجوہ کی تعریفیں کررہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ ایجنسیوں کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ سیاستدانوں کے فون ٹیپ کریں۔ جو لیڈر کرپشن میں ملوث نہیں ہے، اسے اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا۔ کل وہ فوج کے قصیدے پڑھتے تھے، آج اُس پر حملے کرارہے ہیں۔ ہمارے سیاستدان اپنی ضرورت اور مفاد کے مطابق جب اپنے بیان اور موقف بدلتے ہیں تو اور ان کے سیاسی حریف اور صحافی ان کے پرانے بیان اور تقریریں چلوا کر انھیں embarrass کرتے رہتے ہیں اور یہ سلسلہ یونہی چل رہا ہے۔
جس آئین نے وزیراعظم کو یہ اختیارات دیے ہیں کہ وہ وزیر، گورنر اور صوبوں کے چیف سیکریٹری اور آئی جی مقرر کرسکتے ہیں اور اربوں کھربوں کے فنڈز استعمال کرتے ہیں، وہی آئین عدالتِ عظمیٰ کے ایک جج کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ کسی قانون کو آئین کے منافی قرار دے سکتا ہے اور وزیراعظم کو نااہل قرار دے سکتا ہے۔ یہ ضرور ہے کہ وہ فیصلہ انصاف، آئین اور ضمیر کے مطابق ہونا چاہیے، کسی کی ہدایات پر کسی کے بُغض میں یا کسی کے مخالف کو فائدہ پہنچانے کی غرض سے نہیں ہونا چاہیے۔
پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ آئینی اور سیاسی تنازعات نمٹانے کے لیے علیحدہ آئینی عدالت قائم ہونی چاہیے کیونکہ موجودہ سپریم کورٹ کا اسّی فیصد سے زیادہ وقت ہائی پروفائل سیاسی کیس سننے میں صرف ہوجاتا ہے، عام کیسوں میں تشویشناک حد تک تاخیر ہوتی ہے اور شہری انتظار کی سولی پر لٹکے رہتے ہیں۔ فیڈرل گورنمٹ کے ریٹائرڈ ملازمین کا کیس بہت بڑی مثال ہے، بہت سے ملازمین ایک پلاٹ کے انتظار میں اللہ کو پیارے ہوچکے ہیں، بڑی مشکل اور بڑی تاخیر سے سپریم کورٹ کا بنچ بنا۔ کئی مہینے تک کیس کی سماعت ہوئی۔ ہر فریق کو سنا گیا۔
جب تمام لوگ اپنا اپنا موقف بتا چکے تو اسی روز فیصلہ سنایا جاسکتا تھا مگر فیصلہ محفوظ کرلیا گیا جو کئی مہینوں سے محفوظ ہے اور سنایا ہی نہیں جارہا اور ہزاروں ریٹائرڈ ملازمین اور ان کے کنبے انتظار کے عذاب میں مبتلا ہیں۔
اس لیے آئینی عدالت ضرور بنے مگر ایک تو قاضی فائز عیسیٰ کو اس عدالت کا سربراہ مقرر نہ کیا جائے کیونکہ وہ انصاف کے تقاضوں کے منافی ہوگا اور دوسرا آئینی عدالت میں ججوں کی تقرّری ممبرانِ اسمبلی یعنی سیاستدان نہیں بلکہ نیک نام ریٹائرڈ ججوں پر مشتمل سرچ کمیٹی کرے یا پھر یہ اختیار سپریم جوڈیشنل کونسل کو دے دیا جائے تاکہ ججوں کا انتخاب منصفانہ اور شفاف طریقے سے ہو۔ اداروں میں تصادم نہیں توازن پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ ملک اور معاشرے دھونس اور جبر سے نہیں توازن اور انصاف سے قائم رہتے اور پھلتے پھولتے ہیں۔