زندہ قومیں اور توانامعاشرے ہر طبقے کے حقوق کی پاسبانی کرتے ہیں، وہ اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ معاشرے کے ہر طبقے خصوصاً کمزور طبقوں کے حقوق پامال نہ ہوں۔
بدقسمتی سے ہمارے ہاں اساتذہ اور طبیبوں کو بھی اپنے جائز حقوق کے حصول کے لیے سڑکوں پر آکر لاٹھیاں اور گولیاں کھانی پڑتی ہیں اور جب تک وہ اپنے کچھ ساتھیوں کو قربان نہ کردیں، حکومت کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ سڑکوں پر انسانی لاشیں دیکھ کر حکومت ان کے مطالبات کی طرف متوجّہ ہوتی ہے۔ اس سے زیادہ شرمناک بات کیا ہوگی کہ ہمارے ملک کے اکثر شہروں کی سڑکیں قوم کے معماروں کے خون سے کئی بار سرخ ہوچکی ہیں، انھیں سڑکوں پر کیوں آنا پڑتا ہے؟
صرف اس لیے کہ وہ حکمرانوں کو یہ باور کراسکیں کہ مہنگائی نے ان کی قوت خرید کو پچھاڑ دیا ہے اور انھیں جو معاوضہ دیا جاتا ہے اس میں کنبے کی کفالت کرنا ممکن نہیں رہا۔ بڑے بڑے ایوانوں میں بیٹھے ہوئے حکمران اور فیصلہ ساز انھی اساتذہ کی مدد اور رہنمائی سے تعلیم اور ترقی کے زینے طے کرتے ہوئے آج اس مقام تک پہنچے ہیں کہ خود اساتذہ کی قسمت ان کی مُٹھی میں ہے۔
استاد اس لیے یاد آگئے کہ وہ خود ہزاروں نوجوانوں کی تقدیر بناتے اور سنوارتے ہیں مگر ان کی اپنی تقدیر آج بھی تنگ دستی اور سماجی کمتری کے اندھیروں میں بھٹک رہی ہے۔ سروس کے دوران کیے گئے ایک فیصلے پر ہر روز اطمینان اور مسرت محسوس ہوتی ہے کہ برسوں پہلے جب میں ایس پی سٹی لاہور تھا تو اساتذہ کا ایک جلوس مال روڈ پر آگیاجو سیکریٹریٹ جانا چاہتا تھا۔ متعلقہ اے سی اور ڈی ایس پی کو صوبائی افسران کی طرف سے احکام ملے کہ فورس استعمال کرکے جلوس کو آگے آنے سے روکا جائے۔
جلوس کی خبر یں وائرلیس پر میں خود سن رہا تھا، فورس استعمال کرنے کا حکم سنتے ہی میں خود مال روڈ کی جانب دوڑ پڑا، جیپ دوڑاتے ہوئے وائرلیس پر پولیس کو طاقت استعمال کرنے سے منع کیااور خود جاکر اساتذہ سے مذاکرات کیے جو کامیاب رہے اور پھر ہمیشہ کے لیے پولیس پر پابندی لگادی کہ قوم کے معماروں کے خلاف کبھی فورس استعمال نہیں کی جائے گی۔ ہدایات بڑی واضح تھیں کہ اساتذہ کے خلاف معمولی سی چھڑی بھی جس نے استعمال کی یا اُن سے بدکلامی کی اسے ڈسمس کرکے گھر بھیج دیا جائے گا۔
لیکن میرا آج کا موضوع تنخواہ اور پنشن ہے جس کے لیے کبھی معماروں کو اور کبھی قوم کی بیٹیوں (نرسز) کو سڑکوں پر آنا پڑتا ہے۔ حیرت ہے کہ تنخواہ اور پنشن کا ذکر سنتے ہی قبلہ وزیرِاعظم صاحب تیوری چڑھا لیتے ہیں اور ان کے چہرے پر ویسے ہی تاثرات ابھرتے ہیں جس طرح کے اپوزیشن لیڈروں کا نام سن کر پیدا ہوتے ہیں۔
انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ کسی بھی مہذب معاشرے میں جب آپ کچھ ماہرین کا وقت اور ان کی ذہنی اور جسمانی صلاحیتیں hireکرتے ہیں تو اس کا معاوضہ بھی دیتے ہیں اور جب آپ تیس پینتیس سال تک ان کی صلاحیتیں استعمال کریں گے، ان کی جوانی آپ کے دفتروں اور فائلوں کی نذر ہوجائے گی توبڑھاپے میں انھیں سہارا مہیا کرنا آپ کا فرض بن جائے گا۔
حکومتوں کے علاوہ دنیا بھر کے معتبر ادارے اپنے employees کے ساتھ اسی طرح کا معاہدہ کرتے ہیں اور پھر اس کی پاسداری بھی کرتے ہیں۔ بعض ادارے تو صرف پانچ سال تک خدمات سرانجام دینے والوں کو باقی عمر کے لیے پنشن دیتے رہتے ہیں۔ پنشن کا نام سن کر کبھی کسی کا موڈ خراب نہیں ہوا کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ وہ پنشنرز کا حق ہے جس سے انھیں کسی صورت محروم نہیں کیا جاسکتا۔
باخبر حضرات بتاتے ہیں کہ پنشن کا نام سن کر موجودہ حکمرانوں کے چہروں پر مُردنی چھا جاتی ہے اور طبعیت یوں مقدر ہوجاتی ہے جس طرح کسی گداگر کو دیکھ کر کنجوس سیٹھ کی ہوتی ہے۔ موجودہ حکمرانوں کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ نہ تو پنشن کوئی خیرات ہے جو ادا کرکے آپ احسان کررہے ہیں اور نہ ہی پنشنرز کوئی بھکاری ہیں۔
کئی دھائیاں قبل ان کی ذہنی اور جسمانی صلاحیتیں خریدتے وقت حکومت نے ان سے معاہدہ کیا تھا، جس میں واضح طور پر ایک خاص مدت کے بعد پنشن ادا کرنے کی تحریری شِق موجود تھی لہٰذا اسی معاہدے کے تحت ایک نوجوان شخص اپنی جوانی اور اپنی تمام تر صلاحیتیں اور توانائیاں اس ادارے کی تعمیر و ترقی کے لیے صرف کردیتا ہے اور جب اس کے قویٰ مضمحل ہونے لگتے ہیں تو اسے پنشن کی صورت میں کچھ مالی سپورٹ فراہم کرکے عزت و احترام کے ساتھ رخصت کیا جاتا ہے اور کوئی جواں سال اہلکار ان کی جگہ سنبھال لیتا ہے۔
تمام مہذب ملکوں میں یہی چلن ہے، معاہدے کے مطابق ہر سال پنشنرز کو پنشن بھی ادا کی جاتی ہے اور سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشنز میں ایک خاص شرح سے اضافہ بھی کیا جاتا ہے۔ ویسے دنیا کے کئی معروف دانشوروں کا یہ قول دھرانے میں حرج نہیں کہ "بڑی بدقسمت ہے وہ قوم جس پر کنجوس حکمران مسلط ہوجائیں "۔
تنخواہ اور پنشن کے سالانہ اضافے پر تیوریاں چڑھانے کے بجائے ملازمین کی تنخواہوں کو بہتر کرنے ان میں تضادات دور کرنے اور انھیں اور منصفانہ بنانے کی ضرورت ہے۔ معاہدے کے مطابق جو نہی کوئی سرکاری ملازم عمر کی ساٹھ بہاریں دیکھ لیتاہے تو اکسٹھویں زینے پر پاؤں رکھنے سے پہلے ہی رخصت کردیا جاتا ہے اگر ریٹائرمنٹ کے قریب اس سے پوچھا جائے کہ وہ ساٹھ سال مکمل ہونے پرگھرجاکر آرام کرنا پسند کریگا یا اسی گریڈ (21 یا 22 کی) تنخواہ کے ساتھ دو تین سال مزید خدمات سرانجام دینا چاہے گاتو نوے فیصد سے زیادہ افسران دوسرے آپشن پر جمپ لگا دیں گے، کیونکہ اگر آپ کی صحت اچھی ہے توjobless ہوجانے سے تنخواہ اور مراعات والی نوکری بہت بہتر سمجھی جاتی ہے، لہٰذا بہت بڑی اکثریت اپنی آخری تنخواہ پر کوئی بھی نوکری بصد خوشی قبول کرنے کے لیے تیار ہوتی ہے۔
میرے ذاتی علم میں ہے کہ بہت سے سینئر افسروں نے ریٹائرمنٹ کے بعد اپنی آخری تنخواہ سے کم تنخواہ پربھی پرائیویٹ سیکٹر میں نوکریاں قبول کی ہیں۔ لہٰذا سوال یہ ہے کہ ریٹائرڈ افسروں کو آخری تنخواہ سے کئی گنا زیادہ تنخواہ پر ملازمت دینے کا کیا جواز ہے؟ کیا ریٹائرمنٹ کے بعد ان میں دگنی تگنی محنت کرنے کا جذبہ عود کرآتا ہے یا کچھ ایسی خوابیدہ صلاحیتیں پیدا ہوجاتی ہیں جو ساٹھ سال تک توسوئی ر ہیں اور ساٹھ سال کے بعد اچانک جاگ اُٹھیں۔
کچھ باخبر حضرات نے اس کا پسِ منظر یہ بتایا ہے کہ ہمارے کچھ دوست جب فنانس سیکریٹری یا کیبنٹ سیکریٹری تھے تو ریٹائرمنٹ کے بعد ان کی کسی خاص ملازمت پر نظر تھی لہٰذا انھوں نے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرکے اُس خاص منصب کی تنخواہ اور مراعات بڑھانے کی سمری تیار کی اور فائل کور پر عنوان لکھا Good Governance اور سادہ لوح وزرائے اعظم کا خوشگوارموڈ دیکھ کر ان سے منظوری لے لی۔
فنانس منسٹری میں تعینات ہمارا ایک کولیگ ایک کمیشن کا ممبر بننا چاہتا تھا لہٰذا اس نے ممبران کی تنخواہ تین گنابڑھوالی۔ ایک اور فیڈرل سیکریٹری ڈیڑھ لاکھ تنخواہ پر ریٹائر ہوکر اسٹاف کالج کا سربراہ بننا چاہتا تھا لہٰذا اس نے نئی نوکری جوائن کرنے سے پہلے ہی وزیرِاعظم سے اس کی تنخواہ دس لاکھ روپے ماہانہ مقرر کروالی۔ مجھے یقین ہے کہ اگر تین لاکھ تنخوا ہ دینے کا اشتہار دیا جاتا تو اس ادارے کی سربراہی کے لیے ہمارے اس کولیگ سے کہیں زیادہ قابل اور محنتی افراد مل جاتے۔
اتنی بھاری تنخواہیں لینے والوں کو خود بھی ٹھنڈے دل سے سوچنا چاہیے کہ ایک غریب ملک میں جہاں کروڑوں افراد مہینے کا دس ہزار بھی نہیں کماسکتے، جہاں ہر روز بھوک سے تنگ آکر مائیں بچوں سمیت خودکشی پر مجبور ہوتی ہوں۔ کیا وہاں دس لاکھ روپے ماہوار وصول کرنے کا کوئی جواز بنتا ہے؟ اور کیا اتنی تنخواہ لینے والا اتنے بھاری معاوضے سے انصاف کرپاتا ہے، کیا اس کا ضمیر ملامت نہیں کرتا؟
ذاتی باتوں کے ذکر سے اکثر گریز کرتا ہوں مگر کبھی تحدیثِ نعمت کے طور پر یا سِول سروس کی کریز پر کھیلنے والے موجودہ پلیئرز کی رہنمائی کے لیے کچھ چیزیں شیئر کرنی پڑتی ہیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد جب مجھے NAVTTC کی سربراہی کی پیشکش ہوئی تو اس عہدے کو دلکش بنانے کے لیے کہا گیا کہ "آپ کو ایم پی ون اسکیل (جو میری آخری تنخواہ سے تین گناہ زیادہ تھا) کے مطابق تنخواہ دی جائے گی"۔
میں نے ذمّے داری قبول کرلی مگر اسپیشل اسکیل کے بجائے سابقہ تنخواہ لینے پر ہی مُصررہا۔ کوئی چھ ماہ بعد پرائم منسٹر آفس جانا ہوا، وہاں پرنسپل سیکریٹری فواد حسن فواد نے پوچھا کہ "سر آپ ایم پی ون والی تنخواہ ہی لے رہے ہیں ناں "؟ راقم خاموش رہا، انھوں نے سوال دھرایا تو راقم نے کہا "جو کچھ یہ غریب قوم ہمیں دے رہی ہے، ہم اس سے ہی انصاف کرسکیں تو بڑی بات ہے۔ ایک غریب ملک میں اتنی زیادہ تنخواہ لینے کا نہ مجھے حق ہے اور نہ ضمیر اس کی اجازت دیتا ہے"۔
ریٹائرڈ ملازمین کو سات سات اور دس دس لاکھ ماہانہ تنخواہ دینے کے شہنشاہی احکامات منسوح کرکے انھیں آخری تنخواہ پر رکھا جائے اور پچھلے سال کی کوتاہی کا ازالہ کرتے ہوئے اس سال تنخواہوں اور پنشنز میں 20% اضافہ کیا جائے۔
تیس سال تک ذہنی اور جسمانی ریاضت کرنے اور اپنی زندگی کا بہترین حصہ ادارے کی تعمیرو ترقی کی نذر کرنے کے بعد پنشن ریٹائرڈ ملازمین کا استحقاق بن جاتا ہے، یہ کسی حکومت کا اُن پر احسان نہیں ہے۔ حکمرانوں کو اُن کا یہ حق تسلیم کرنا چاہیے، اگر نہیں کریں گے تو ذہین اور قابل نوجوان پرائیویٹ سیکٹر کو ترجیح دیں گے اور پبلک سیکٹر کا معیار اور کارکردگی مزید پستیوں میں جاگِر ے گی۔