یہ فراخ دل نہیں، تنگ نظر ہیں۔ اﷲ اور رسول ﷺ کے نظریہّء حیات سے تعصّب کی حد تک عناد رکھتے ہیں۔ ان کی فکر اور سوچ کو تعصّب اور عناد نے اس حد تک پراکندہ کر دیا ہے کہ کسی دیانتدار اور روشن ضمیر سول سرونٹ کی اچھی کارکردگی کو سراہنے سے اس لیے گریز کرتے ہیں کہ وہ اﷲ اور رسول ؐ سے راہنمائی لینے کی بات کرتا ہے۔
اسلامی فکر کے حامل اِن سے کہیں زیادہ کشادہ دل اور magnanimous ہیں۔ جو ان کی اچھی کارکردگی کی دل کھول کر تحسین کرتے ہیں مگر انھیں جب اور جہاں موقع ملے اسلامی نظریّہء حیات کے علمبردار تخلیق کاروں اور دانشوروں سے تعصّب برتتے ہیں اور اپنی مجالس اور محافل میں انھیں مدعو تک نہیں کرتے، جس کامظاہرہ ان کے کتب میلوں اورLiterary Festivals میں دیکھنے کو ملتا ہے۔
جہاں اسلامی سوچ رکھنے والے ادیبوں اور شاعروں کا داخلہ ممنوع ہوتا ہے۔ ایسے عناصر ہر اسلامی ملک میں موجود ہیں مگر ایسے مقتدر اور با اختیار نہیں جیسے ہمارے ملک میں ہیں۔ ان کے سرپرستوں اور فنانسرز نے جو بڑے ٹاسک ان کے ذمے لگا رکھے ہیں ان میں پاکستان کے نوجوانوں کو کنفیوژن اور احساس کمتری میں مبتلا رکھنا اور پاکستان کے قیام اور اس کی اساس پر حملے کرتے رہنا سب سے اہم ہیں۔
یہ پہلے سوشلسٹ کہلواتے تھے، اب کچھ اپنے آپ کو سیکولر اور کچھ لبرل کہتے ہیں، ان کی اکثریت کو ہر اُس چیز سے خوف آتا ہے جس سے اﷲ کی بڑائی ظاہر ہوتی ہو اور اﷲ کے دین کی قوت، شوکت اور عظمت اجاگر ہوتی ہو۔ یہ بانی پاکستان کی ان تقریروں سے خار کھاتے ہیں جس میں انھوں نے اسلام سے اپنی وابستگی اور عقیدت کا اظہار کیا ہے، انھیں کریدا جائے تو ان کی اصلیّت کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ یہ پاکستان بننے کے ہی مخالف ہیں۔
نام ان کے مسلمانوں والے ہیں۔ انھی ناموں کے نقاب چڑھا کر یہ اخبارات میں لکھتے، ٹی وی پر تجزئیے کرتے ہیں اور انھی ناموں کی آڑمیں وہ اسلامی شعائر کو طنز و تضحیک کا نشانہ بناتے ہیں۔ ان میں سے کچھ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ تو صرف انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلا ف ہیں، غلط بالکل غلط۔ جس نے بھی اسلام کا مطالعہ کیا ہے وہ جانتا ہے کہ دہشت گردی، violance اور extremism کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں۔ اسلام تو قرآن کے الفاظ میں دینِ وسط ہے یعنی توازن کا داعی اور علمبردار۔ ایک سچا مسلمان نہ انتہا پسند ہو سکتا ہے نہ ہی وہ کسی بے گناہ کو ایذاء پہنچانے کا سوچ سکتا ہے۔
یہ درست ہے کہ دوسرے مذاہب کی طرح مسلمانوں میں بھی جاہل، فرقہ باز، بد زبان اور کچھ تشدد پسند ہیں مگر پڑھے لکھے مسلمانوں کی واضح اکثریت ایسے عناصر کو نا پسند کرتی ہے۔ اگر یہ لوگ انتہا پسندی سے نفرت کرتے ہیں تو مغرب کی انتہا پسندی پر کیوں خاموش رہتے ہیں اور بھارتی حکومت کی دہشت گردی پر کیوں تنقید نہیں کرتے۔ دراصل یہ دینِ مصطفیٰ ﷺ سے عناد رکھتے ہیں مگر اس کا اظہار کرنے کی ہمت نہیں رکھتے۔
ان سے دلیر تو بھارت میں رہنے والا فلمی شاعر جاوید اختر نکلا جس نے میڈیا کے سامنے آکر اعلان کر دیا ہے کہ میرا کوئی مذہب نہیں اور میں خدا پر ایمان نہیں رکھتا۔ یہ لوگ پاکستان اور اس کے نظریئے اور قیام کے مخالف ہونے کی بناء پر بھارتی حکومت اور راء کے سرمائے سے چلنے والے تھِنک ٹینکس کے منظورِ نظر ہیں اور انھیں اکثر سرحد پاربلایا جاتا ہے، ان میں سے اکثروہاں جا کر پاکستان کے قیام کے خلاف نفرت انگیز تقرریں سنتے ہیں اور ان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں یا بھیگی بلی بن کر بیٹھے رہتے ہیں۔
کئی تو وہاں جا کر الطاف حسین کی طرح وطنِ عزیز کے بارے میں ہرزہ سرائی پر بھی اُتر آتے ہیں مگر چند روز پہلے بھارت میں منعقد ہ ایک سیمینار میں پاکستان کے معروف دانشورا ور سابق وفاقی وزیر جناب جاوید جبار کی گفتگو اور بھارتی دانشوروں کی پاکستان مخالف تقریروں کے بعد ان کا Rebuttal سنا تو دل باغ باغ ہو گیا۔
بھارتی سر زمین پر بھارتی دانشوروں کی موجودگی میں انھوں نے جذبات میں آئے بغیر انتہائی مؤثر دلائل کے ساتھ دونوں بھارتی نمائندوں (جاوید اختر اور جنرل بخشی) کے اعتراضات کے پر خچے اڑا دیے اور پاکستان کے خلاف بھارتی دانشوروں کے مقدمے کو چکنا چور کر کے رکھ دیا، ان کی تقریر کے دوران ہمارے دل سے واہ واہ اور زبان سے ویلڈن ویلڈن کے الفاظ نکلتے رہے۔
جاوید صاحب نے بھارتی مقررین کے بعد جواب کا حق استعمال کرتے ہوئے آغاز اس طرح کیا "میں اپنے جذبات پر قابو رکھوں گا اور ٹھنڈ ے لہجے میں بات کروں گا مگر میرے ملک پاکستان کے وجود اور اس کی بنیاد پر جس طرح کچھ لوگوں نے سوال اٹھا دیے ہیں، اس سے مجھے سخت مایوسی ہوئی ہے۔
ہم تو ہندوستان کی بنیاد پر سوال نہیں اٹھاتے اور یہ جو آپ بار بار کہتے ہیں کہ آپ کے ہندوستان کو تقسیم کر کے پاکستان بنایا گیا، یہ سراسر غلط ہے، پاکستان اور ہندوستان دونوں اکٹھے وجود میں آئے تھے۔ 1947 سے پہلے ہندوستان ریاستوں کامجموعہ تھا۔
اگست 1947 سے پہلے ہندوستان نام کے کسی ملک کا کوئی وجود نہیں تھا جس کا اپنا سیاسی ڈھانچہ ہو اور جسے مرکزی سطح پر کوئی سیاسی نظام کنٹرول کر رہا ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ دونوں ملک اکھٹے آزاد ہوئے اور ایک ہی دن وجود میں آئے، جب ہم پاکستانی آپ کے وجود پر سوال نہیں اٹھاتے تو آپ کا ہمارے وجود پر سوال اٹھانا انتہائی نا مناسب ہے۔ جہاں تک تقسیم کا تعلق ہے تو کسی ملک کی تقسیم نہیں ہوئی، دو ملک آزاد ہوئے اورصرف دو صوبوں (پنجاب اور بنگال) کی تقسیم ہوئی تھی۔"
پھر انھوں نے جاوید اختر ( جو بیچارہ بھارت میں اپنی قبولیت یقینی بنانے کے لیے اسلام اور پاکستان کے بارے میں ہرزہ سرائی کرتا رہتا ہے) کو پاکستان کے مذہب کی بنیاد پر قائم ہونے کا جواب دیا۔ انھوں نے احساسِ کمتری کے مارے ہوئے لوگوں کی طرح معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرنے کے بجائے انتہائی پر اعتماد لہجے میں حاضرین کو بتایا کہ" مذہب کے نام سے بدکنے کی ضرورت نہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے جس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ آج بھی مذہب ایک اہم فیکٹر ہے جس کی بنیاد پر قومیں تشکیل پاتی ہیں، آج بھی جرمنی کی حکمران جماعت کا نام کرسچئین ڈیمو کریٹک پارٹی ہے، آج بھی امریکا میں کئی ریاستوں کا گورنر بننے کے لیے آپ پر لازم ہے کہ آپ اچھے عیسائی ہوں۔ (غالبََا وقت کی قلت کے باعث جاوید جبار صاحب چند سال پہلے صرف مذہب کی بنیاد پر قائم کیے گئے ایسٹ تیمور اور مذہب کی بنیاد پر ہی سوڈان کی تقسیم کا ذکر نہ کر سکے)
اس کے بعد انھوں نے بھارتی دانشوروں کے اس گھسے پٹے بیانئیے کا بڑا مؤثر جواب دیا کہ دو قومی نظرئیے کو بنگالیوں نے مسترد کر دیا لہٰذاء 1971 میں یہ نظریہ ختم ہوگیا تھا۔ جاوید جبار صاحب نے درست کہا کہ 1971 میں دو قوموں والا نظریہ ختم نہیں ہوا، دو ملکوں والا نظریہ ختم ہواتھا، برصغیر کے اب دو کے بجائے تین ملک بن گئے ہیں۔
بنگلہ دیش ایک اسلامی ملک کے طور پر قائم و دائم ہے۔ اگر بنگلہ دیش کے عوام اپنی آزادی اورعلیحدہ حیثیت قائم رکھنے کے بجائے دوبارہ ہندوستان میں ضم ہو جاتے تو پھر ہم آپ کی بات مان لیتے کہ دو قومی نظریہ نہیں چل سکا۔ اب ہم آپ سے توقع کرتے ہیں کہ آپ پاکستان کے وجود کی نفی کرنے یا اسے چیلنج کرنے کے بجائے اسے تسلیم کریں اور اس خطے کو پر امن بنانے کے لیے دونوں ملک مشترکہ حکمتِ عملی بنائیں۔
جاوید جبارصاحب کی تقریر نے سامعین پر سحر طاری کر دیا تھا اور ہال میں مکمل سکوت تھا، ان کی انگریزی زبان پر مکمل گرفت تھی، الفاظ کا چناؤ شُستہ اور شاندار تھا، ادائیگی قابلِ رشک اور دلائل ناقابلِ تردید تھے۔ نتیجہ سب کے سامنے تھا، جاوید صاحب نے بھارتی دانشوروں کے کھوکھلے بیانئیے کو جڑ سے اُکھاڑ کر پھینک دیا۔
اسی طرح چند مہینے پہلے کراچی میں ایک ادبی میلہ منعقد ہوا جس میں منتظمین نے اپنی روایت کے مطابق زیادہ تر وہ مقررین بلائے جو پاکستان کے نظرئیے اوربنیاد کو چیلنج کرکے نئی نسل کو کنفیوژ کرنے کی کوشش کر تے ہیں۔ وہاں بھارتی بیانئیے کی نمائیندگی فزکس کے ایک پروفیسر صاحب نے کی جنھوں نے پاکستان پر تنقید کرتے کرتے بابائے قوم کو بھی نہ بخشا اور ان کے خلاف بھی ہرزہ سرائی کی۔ یہ دیکھ کر بڑا افسوس ہوا کہ پروفیسر صاحب ( جو پاکستان کے خلاف تقریریں کرنے میں خاصے بدنام ہیں ) کے اعتراضات انتہائی بودے اورکھوکھلے تھے، ایسے لگتا تھا کہ کوئی پروفیسر نہیں بلکہ کوئی جیالا اپنی مخالف پارٹی پر تنقید کر رہا ہے۔
ہمیں ہندؤوں کی غلامی سے بچانے اور آزادی جیسی نعمت سے سرفراز کرنے والے عظیم قائدؒ پر ایک اعتراض یہ کیا گیا کہ ان کا کوئی آرٹیکل یا ریسرچ پیپر کسی رسالے میں کبھی نہیں چھپا۔ ان کے اعتراضات کا بھی جاوید جبار صاحب نے انتہائی مدلل اورمؤثر جواب دیا۔ انھوں نے درست کہا کہ قائدِاعظم ؒ کوئی پروفیسر نہیں تھے کہ ریسرچ پیپر چھپواتے پھرتے، وہ عملی آدمی اور ایک لیڈر تھے جنھوں نے برِصغیر کے مسلمانوں کو انتہائی اعلیٰ درجے کی قیادت فراہم کی اور اپنی فراست، قابلیت اور مصمم ارادے کے زور پر مسلمانوں کو آزادی سے ہمکنار کیا۔ ویلڈن! جاوید جبار صاحب، ویلڈن!
آخر میں لبرل کہلانے والے خواتین و حضرات سے بصد احترام گزارش کروں گا کہ ایک اعلیٰ پائے کے دانشور نے بخوبی سمجھا دیا ہے کہ لبرل کہلانے کے لیے مذہب کی نفی کرنا اور قیام ِپاکستان اور بانیانِ پاکستان پر تنقید کرنا قطعََا ضروری نہیں۔ آپ بصد شوق لبرل بنیں، مگر جاوید جبار صاحب کی طرح وطنِ عزیز سے محبت بھی کریں۔