پچھلے کم و بیش 20برسوں سے جاری افغانستان کی حالیہ جنگ بظاہر اپنے منطقی انجام کی طرف بڑھ رہی ہے۔ امریکا اور افغان طالبان کے مابین دوحہ معاہدے میں یہ طے پایا تھا کہ امریکا اور اس کے اتحادی اس سال مئی کے شروع تک افغانستان سے نکل جائیں گے۔
بائیڈن انتظامیہ اس معاہدے پر عمل درآمد سے ہچکچا رہی تھی لیکن پھر کافی غورو خوض کے بعد اعلان کیا کہ مئی تک نکلنا تو ممکن نہیں البتہ اسی سال ستمبر کے شروع تک امریکی اور اتحادی افواج افغانستان خالی کر دیں گی۔
اب ایک اور ڈویلپمنٹ ہوئی ہے۔ پچھلے چند دنوں میں پینٹاگون نے اشارہ دیاہے کہ امریکا جولائی کا مہینہ ختم ہونے سے پہلے پہلے اپنی افواج بھی نکال لے گا اور ساتھ ہی اتحادی افواج بھی انخلا کا عمل مکمل کر لیں گی۔ یہ ایک بہت اہم ڈویلپمنٹ ہے جس نے افغانستان کے اندر اور باہر ہلچل مچا دی ہے۔ افغانستان کے اندر اشرف غنی کی حکومت بہت دباؤ میں آچکی ہے۔
اس کو اپنی حکومت کی ناؤ ڈوبتی نظر آتی ہے۔ میں اس سے پہلے کئی مرتبہ اس رائے کا اظہار کر چکا ہوں کہ اشرف غنی کی اپنی کوئی سیاسی حیثیت نہیں۔ وہ مغربی بیساکھیوں کے سہارے اقتدار میں ہیں امریکیوں کے نکلتے ہی اگلے دن کابل حکومت گِر نہیں جائے گی لیکن آخر کارہونی تو ہو کر رہے گی۔
دیکھنے میں آ رہا ہے کہ افغان سیکیورٹی اہلکاروں نے افغان طالبان کے سامنے ہتھیار ڈالنے شروع کر دیے ہیں۔ مغربی افواج کی مدد کرنے والے بہت سے افراد مغربی ویزوں کے متلاشی نظر آتے ہیں تاکہ اپنے آپ کو اور اپنے خاندانوں کوطالبان حکومت سے بچا کر یورپ اور امریکا میں آباد کر سکیں۔
اشرف غنی کے مقابلے میں عبداﷲ عبداﷲ کی پوزیشن مضبوط ہے۔ ان کو شمالی اتحاد کی بھی حمایت حاصل ہے اور اب کئی پشتون گھرانے بھی انھیں پسند کرتے ہیں۔ اشرف غنی مشکل کی ہر گھڑی میں پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی شروع کر دیتے ہیں۔
پاکستان اور سعودی عرب کے مابین دیرینہ مثالی تعلقات پچھلے دیڑھ سال سے اتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں۔ ہمارے آرمی چیف ریاض دورے پر گئے تھے اور معاملات میں بہتری آئی ہے۔ مشرق وسطیٰ میں ایک ڈویلپمنٹ یہ ہوئی ہے کہ بھارتی آرمی چیف نے سعودی عرب کا دورہ کیا ہے۔
بھارتی میڈیا نے یوں تاثر دیا کہ پاکستان سعودی عرت کی ترجیحات میں کہیں نیچے چلا گیا ہے۔ لیکن حال ہی میں وزیراعظم عمران خان اور ہمارے آرمی چیف ریاض پہنچے اور سعودی ولی عہد نے بڑھ کر استقبال کیا۔ یوں بھارتی میڈیا جو تاثر قائم کرنا چاہتا تھا، سعودی عرب نے خود ہی اسے زائل کر دیا۔
صدر بائیڈن اور محمد بن سلمان کے تعلقات گرم جوشی والے نہیں۔ سعودی ولی عہد کی کوشش ہے کہ امریکی صدر کے ساتھ ویسے ہی تعلقات قائم ہوں، جیسے ٹرمپ کے ساتھ تھے۔ اسی خواہش کو عملی جامہ پہنانے کے لیے سعودی ولی عہد نے جناب عمران خان کو دورے کی دعوت دی۔
امریکا افغانستان سے نکل تو رہا ہے لیکن وہ چند چیزوں کی گارنٹی چاہتا ہے۔ سب سے پہلے تو وہ ویت نام والی صورتحال سے بچنا چاہتا ہے۔ امریکی چاہتے ہیں کہ آخری دنوں میں ان کو پرامن طریقے سے نکلنے دیا جائے۔ امریکی مکمل انخلا سے پہلے علاقے میں اپنی موجودگی بھی یقینی بنانا چاہتے ہیں۔ امریکا کی خواہش ہے کہ پاکستان میں ہی قدم جمانے کا موقع مل جائے۔
چین کی تیزی سے ابھرتی قوت کے راستے میں بند باندھنے کے لیے امریکا QUAD اور اپنے اسٹرٹیجک پارٹنر بھارت کو بہت اہمیت دیتا ہے۔ امریکا فریقین پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ افغانستان کے کسی بھی حتمی حل میں بھارت کو بھی شریک کیا جائے۔ امریکیوں کی آخری خواہش یہ ہے کہ کچھ بھی ہو لیکن افغان طالبان کی حکومت نہ بنے۔ اس خواہش میں ساری عالمی قوتیں امریکا کی ہمنوا ہیں۔ روسی صدر پیوٹن اور امریکی صدر بائیڈن 26جون کو جنیوا سوئٹزرلینڈ میں ملاقات کرنے جا رہے ہیں۔
اس سربراہی ملاقات میں دونوں جس مسئلے پر متفق ہوں گے وہ افغانستان میں ایک نمایندہ طالبان حکومت کے قیام کے آگے بند باندھنا ہے۔ افغانستان میں آیندہ حکومت کس کی ہو گی، اصولاً تو اس کا فیصلہ افغان عوام کے ہاتھ میں ہونا چاہیے لیکن امریکا، روس، چین اور دیگر ممالک افغان طالبان حکومت کے حامی نہیں۔
موجودہ صورتحال میں پاکستانی قیادت کو بہت سوچ سمجھ اور غیر معمولی مہارت سے قدم اٹھانے ہوں گے۔ دور اندیش قیادت ایسے ہی موقعوں پر بہترین فیصلے کرکے قومی قیادت کی اہل کہلا سکتی ہے۔ چیلنجز بہت ہیں۔ خطرات منہ کھولے کھڑے ہیں، خدا کرے پاکستان سُر خرو ہو۔