امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جناب عمران خان کی معیت میں پریس کانفرنس کے دوران جب کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کی تو ایک بھارتی کہنہ مشق صحافی نے اسی وقت کہا کہ یہ ٹھیک نہیں ہوا کیونکہ پہلے اگر مودی سے کوئی توقع ہو سکتی تھی کہ وہ پاکستان سے جامع مذاکرات کرے گا اور کشمیر پر کوئی پیشرفت ہوگی تو اب یہ ممکن نہیں ہوگا کیونکہ مودی کا رویہ مزید جارحانہ ہو جائے گا۔
بھارت کبھی یہ نہیں چاہتا تھا کہ کشمیر کا ذکر کسی بین الاقوامی فورم پر ہو۔ بھارت بہت آسان پوزیشن میں ہے۔ اس نے کشمیر پر قبضہ کیا ہوا ہے۔ وہ کیوں مذاکرات کے ذریعے اپنا قبضہ چھوڑے۔ بھارت نے 1971 سے پہلے تو بظاہر یہ پوزیشن لیے رکھی کہ کشمیر نہ تو بھارت کا ہے اور نہ ہی پاکستان کا۔ اس مسئلے پر استصوابِ رائے کے ذریعے کشمیری اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کریں گے، اس دوران 1962 کی انڈو چائنا جنگ میں بھارت کی بہت بری طرح شکست نے ہندوستان کو کمزور کر دیا۔ وہ چین کے ساتھ ساتھ پاکستان کے ساتھ ممکنہ جنگ کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا۔
ان حالات میں وہ کشمیر کے مسئلہ پر پاکستان کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہو گیا۔ اس وقت بھارت کے وزیرِخارجہ سردار سورن سنگھ اور پاکستانی وزیرِخارجہ کے درمیان مذاکرات کے کوئی سات دور ہوئے لیکن انڈیا صرف یہاں تک آیا کہ لائن آف کنٹرول کو تھوڑا سا پاکستان کے حق میں کرلیا جائے بشرطیکہ پاکستان اقوام متحدہ میں بیان د ے کہ کشمیر کا مسئلہ حل کر لیا گیا ہے۔ پاکستان نے یہ آفر قبول نہ کی لیکن بھارت وقت ٹالنے میں کامیاب رہا۔ اسی وقت بھارت نے یہ طے کر لیا کہ ایک ایسے وقت میں جب چین کی طرف سے کوئی خطرہ نہ ہو وہ مشرقی پاکستان میں مداخلت کر کے اپنی مشرقی سر حد کو محفوظ بنا لے گا۔ اس نے اپنے منصوبے پر عمل کرنے میں کامیاب رہا، ہم اپنے آپ کو محلاتی سازشوں اور نا اہل حکمرانوں کی وجہ سے برباد کرتے رہے لیکن بھارتی قیادت نے یکسو ہو کراپنا مشن حاصل کیا اور بنگلہ دیش کا قیام عمل میں آگیا۔
بنگلہ دیش کے قیام کے بعد شملہ معاہدہ ہوا، بھارت نے کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ کہنا شروع کردیا اور کبھی پھنس گیا تو کہا کہ یہ مسئلہ باہمی دو طرفہ مذاکرات سے طے کر لیں گے۔ پاکستان بھی بوجوہ تقریباً خاموش رہا۔ ہمار ی ناکامی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ یہ 1954تھا جب آخری بار یہ مسئلہ اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل میں زیرِبحث لایا گیا۔ یہاں تک کہ کشمیری قوم نے انگڑائی لی اور وہاں پر بھارت کے غاصبانہ قبضے کے خلاف تحریک کی بنیاد ڈالی۔
صدر ایوب خان اپنے پہلے دورے پر الجزائر گئے تو انھوں نے الجزائر کے صدر بن بیلا سے وہاں کی تحریکِ آزادی کی کامیابی کے پیچھے عوامل کا پوچھا تو بن بیلا نے ایوب خان کو حدِنگاہ تک پھیلے ایک قبرستان کا نظارہ کروایا اور کہا کہ ہمارے ہر شہید کی قبر جہاں ان بیشمار قبروں میں اضافے کا موجب بنتی تھی وہیں پورا ایک خاندان یعنی اس شہید کا خاندان ہماری آزادی کے متوالوں میں شامل ہو جاتا تھا، بھارت نے بھی جب پکڑ دھکڑ شروع کی تو اس وقت بہت کم کشمیری بھارت سے آزادی کے حق میں پرجوش تھے لیکن ہر شہید تحریک کو متوالے فراہم کرتا چلا گیا تحریک مضبوط ہوتی چلی گئی۔
شملہ معاہدہ کے بعد ہم اس تگ و دو میں لگ گئے کہ کشمیر کا ذکر ہر مذاکرات کے اعلامیہ میں شامل ہو، شملہ کے بعد اعلانِ لاہور اور پھر اعلانِ اسلام آباد میںکشمیر کا ذکر تو ہوا لیکن بھارت کی بر بریت اور ظالمانہ قبضے کے خلاف کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا گیا البتہ بھارت اپنی اس کاوش میں سو فیصد کامیاب رہا کہ دنیا کو یہ باور کروا سکے کہ پاکستان دراندازی کے ذریعے دہشتگردی کرتا ہے یوں بھارت نے کشمیریوں کی بھارت سے آزادی کی جدوجہد کو دہشتگردی بنا دیا کیونکہ ہم نے کشمیر کے مسئلے کو کبھی دنیا کے سامنے صحیح انداز میں پیش ہی نہیں کیا۔
الباحہ سعودی عرب کا ایک ریجن یا صوبہ ہے، غامدی اور زہرانی قبائل کا تعلق اسی ریجن سے ہے، سعودی عرب میں پوسٹنگ کے دوران پاکستانیوں کے مسائل کے حل کے سلسلے میں کئی بار وہاں جانے کا موقع ملااور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس سے راہ و رسم بن گئی۔ ایک دفعہ جدہ واپسی پر میری اور ان کی نشست ساتھ ساتھ تھی۔ دورانِ پرواز انھوں نے اپنے گھر ایک بڑی تقریب میں مدعو کیا اور بہت زور دیا کہ میں ضرور اس میں شرکت کروں۔
وقت مقررہ پران کے ہاں پہنچا تو انھوں نے اپنے مہمانوں کا تعارف کروایا۔ تھوڑی سی گپ شپ کے بعد ایک مہمان جو کہ غالباً سعودی اسٹیٹ بینک کے اعلی عہدیدار تھے انھوں نے مجھے مسئلہ فلسطین کے بارے میں بتانا شروع کیا۔ کچھ دیر بعد میںنے کہا کہ اس مسئلے پر میری معلومات اور رائے سن لیں اور کوئی بات رہ جائے تو وہ پوری کر لیں۔ میری باتیں سن کر وہ ہکا بکاہ رہ گئے شاید وہ سمجھتے تھے کہ ہم پاکستانیوں کو فلسطین پر چنداں آگاہی نہیں ہے۔ ان کی رائے میں امتِ مسلمہ کا فلسطین ہی صرف ایک مسئلہ ہے۔
میں نے کشمیر کا ذکر کیا تو پتہ چلا کہ تقریباً تمام مہمانوں جن میں سعودی عرب کے علاو ہ د وسرے ممالک سے بھی لوگ تھے سبھی کی کشمیر کے بارے میںمعلومات نہ ہونے کے برابر تھیں۔ اسی طرح ایک دفعہ ایک تربیتی کورس کے دوران انڈونیشیا جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں جکارتہ سے تھوڑے فاصلے پر ایک زرعی ٹریننگ انسٹیٹیوٹ میںادارے کے سربراہ سے بات چیت سے پتہ چلا کہ وہ کشمیر کو پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک زمینی تنازعہ سمجھتے ہیں۔ انھیں نہیں پتہ تھا کہ کشمیریوں کی اکثریت مسلمان ہے اور وہ بھارت کے غاصبانہ قبضے کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ جب ان کو تمام تفصیلات سے آگاہ کیا تو وہ کہنے لگے کہ اس مسئلے کا یہ رخ تو کبھی ان کے سامنے آیا ہی نہیں۔ اگر اسلامی ممالک کے عوام کو ہم کشمیر پر Educate نہیں کر سکے تو مغربی دنیاکا کیا حال ہوگا۔
یہ طے ہے کہ ہم نے کوتاہی اور غفلت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اسی کی وجہ سے بھارت نے یکطرفہ کارروائی کرتے ہوئے کشمیر پر اپنا قبضہ مستحکم کر لیا ہے۔ دنیا اس کے ساتھ ہے، امریکا نے 5اگست کے بھارتی اقدام کو اس کا اندرونی معاملہ کہا ہے۔ روس نے بھارتی اقدام کو آئین کے مطابق جانا ہے، سارے یورپ سے کوئی ایک ایسی توانا آواز نہیں نکلی جس پر بھارت کان دھرے اور مظلوم کشمیریوں کی مدد ہو۔ متحدہ عرب امارات نے بھارت کے اقدام کو جائز ٹھہرایا ہے، بحرین نے کشمیریوں کے حق میں ریلی نکالنے والوں کو گرفتار کر لیا ہے۔
کشمیر جل رہا ہے اور سعودی عرب نے بھارت میں 75 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔ او آئی سی کا کشمیر رابطہ گروپ ہمدردی کا پیغام تک دینے سے قاصر ہے، ہم معاشی طور پر اتنے تباہ حال اور کمزور ہیںکہ کشکول اٹھا کر ایک دارالحکومت سے دوسرے دارالحکومت جانا پڑ رہا ہے۔ حالات یہاں آ گئے ہیں کہ بھارت کا رویہ مزید سخت ہوتا نظرآ رہا ہے۔ اس نے کشمیر کو اسی طرح ہڑپ کر لیا ہے جس طرح حیدرآباد اور جونا گڑھ کو ہڑپ کر لیا تھا۔
اب بھارت نے کشمیر پر بات نہیں کرنی اور اگر کشمیر پر بات نہیں ہونی تو پھرپاکستان نے بھارت کے ساتھ کیا بات کرنی ہے۔ کشمیر کے بغیر جامع مذاکرات کا کیا مطلب رہ جاتا ہے۔ اقوامِ متحدہ سیکیورٹی کونسل کا اجلاس بلا لیا گیا ہے۔ ہمیں تمام ذرایع برو ئے کار لا کر اس موقع کو ضایع ہونے سے بچانااور شاندار کارکردگی سے بہترین نتائج حاصل کرنے ہوں گے۔ خدا کرے کشمیریوں کی قربانیاں رنگ لائیںاور وہ آزادی کی نعمت سے مالامال ہوں، (آمین)۔