ہماری یہ اربوں، کھربوں نوری سال کے فاصلوں پر پھیلی اور مزید پھیلتی کائنات 13.77 بلین سال پرانی ہے۔ ہمارے نظامِ شمسی کو وجود میں آئے تقریباً 4.6 بلین سال ہو گئے ہیں۔ ہمارا کرہ ارض جو اس نظامِ شمسی کا ایک حصہ ہے اس کو ایک سائنسی اندازے کے مطابق خالقِ کائنات نے4.543 بلین سال پہلے تخلیق کیا۔
کرہ ارض کو البتہ ایک خصوصی اہمیت اور مقام حاصل ہے کہ اس پر زندگی کو پھلنے پھولنے اور نشو و نما پانے میں مدد دینے والے تمام عناصر موجود ہیں۔ چند سال پہلے یوکرائن کے ایک قصبے میں کھدائی کے دوران پانچ انسانی کھوپڑیاں دریافت ہوئیں۔ ماہرین کا دعویٰ ہے کہ یہ انسانی کھوپڑیاں کم و بیش چودہ لاکھ سال پرانی ہیں۔ ان میں سے ایک کھوپڑی ایک ایسے لڑکے کی ہے جس کی عمر کا اندازہ دس سے بارہ سال لگایا گیا ہے۔ باقی چاروں کھوپڑیاں بالغ افراد کی ہیں۔ اس دریافت سے ایک بات تو طے ہو جاتی ہے کہ زمین پر انسانی زندگی کئی لاکھ سال پر محیط ہے۔ یہ بات البتہ ماننی پڑے گی کہ ہماری معلومات زیادہ سے زیادہ دس ہزار سالہ انسانی تاریخ کا ہی پتہ دیتی ہیں۔
نسلِ انسانی کی معلوم تاریخ پر نگاہ ڈالیں تو روئے زمین پر بڑی بڑی نامور قوموں نے تاریخ میں کسی نہ کسی وقت اپنے آپ کو سنبھالا، انگڑائی لی۔ قوت کا مظاہرہ کیا اور اپنی سرحدوں سے باہر سیلاب کی مانند پھیل گئیں۔ آپ سورج طلوع ہونے والی سرزمیں جاپان کو دیکھیں۔ بظاہر ایک چھوٹا ساملک جو اہم معدنیات اور وسیع میدانی علاقوں سے محروم ہے، اس ملک نے اپنے سے کئی گنا بڑے ممالک چین اور روس کو شکست سے دوچار کیا۔
دوسری عالمی جنگ میں تمام اتحادی ممالک سے ٹکر لی۔ پرل ہاربر پر حملہ کرکے امریکی بحری اڈے کو تحس نحس کر دیا۔ جاپانی افواج کئی ممالک کو روندتی ہوئیں برما تک پہنچ گئیں اور برِصغیر کی سلامتی کو شدید خطرات سے دوچار کر دیا۔ برما نے تھائی لینڈ پر حملہ کر کے ان کے دارالحکومت ایودیا کو تباہ بھی کیا اور جلا کر راکھ کا ڈھیر بھی بنا دیا۔ بعد میں اسی وجہ سے تھائی لینڈ کو ایک نئے دارالحکومت کی ضرورت پیش آئی اور پرانے دارالحکومت ایودیا سے کوئی ساٹھ میل دور بنکاک کے شہر کو اس کے لیے منتخب کیا گیا۔
معلوم تاریخ کے ابتدائی دور میں مصر کی عظیم سلطنت کو دیکھا جا سکتا ہے۔ فراعنہ مصر کے دور میں مصر نے بہت ترقی کر لی تھی۔ مصر کے اہرام دیکھ کر سلطنت کے وسائل اور شان و شوکت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ اسی طرح لکسور کے تاریخی شہر کو دیکھ کر آدمی ورطہ حیرت میں ڈوب جاتا ہے۔ مصر نے اپنے ارد گرد کے تمام علاقے اور ممالک فتح کر کے اپنی سلطنت میں شامل کر لیے تھے۔ مصر کی اس سلطنت نے لمبے عرصے تک اپنے جبر و قہر سے کسی کو سر نہیں اُٹھانے دیا۔ سوڈان نے بھی کُش تہذیب کے دور میں اپنی سرحدوں کو خوب وسعت دی۔
منگولیا ایک دور افتادہ اور بظاہر غیر مہذب قبیلوں کا ملک تھا لیکن تاریخ کے ایک مقام پر وہاں سے فتح و نصرت کی وہ لہر اُٹھی جس کا موازنہ کسی اور تحریک سے کرنا مشکل ہے۔ منگولوں نے نہ صرف اپنے ارد گرد کے تمام علاقے فتح کیے بلکہ وہ ایک طرف مسلم خلافت کے گڑھ بغداد پہنچ گئے۔ تو دوسری طرف یورپ ان کے گھوڑوں کے ٹاپوں کی زد میں تھا۔
جزیرۃالعرب سے اٹھنے والی تحریک جو اسلام کا ابدی پیغام لے کر اٹھی تو ایک صدی کے اندر اندر مدینہ کی ریاست نے تمام شمالی افریقہ، مشرقی یورپ، حتیٰ کہ اسپین تک اپنا تسلط قائم کر لیا۔ بازنطینی علاقے سرنگوں ہوئے، اور ایشیا کا ایک بہت بڑا حصہ اسلامی پرچم کے سائے تلے آ گیا۔ عرب کے بادیہ نشین، نام نہاد مہذب دنیا کی اشرافیہ کے غرور کو خاک میں ملانے والے بن گئے۔
ان کے سامنے اس وقت کی ایران اور روم، دونوں سپر پاورز طاقتیں خاک و خون میں لتھڑی نظر آئیں، بنو امیہ، بنو عباس اور عثمانی حکمران صدیوں تک وسیع علاقوں پر قابض رہے۔ ایک وقت ایران کا بھی تھا۔ سائرسِ اعظم کے دور میں ایرانی سلطنت کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ ایرانی سلطنت نے ایک عالم کو زیر کر لیا تھا اور ایک موقعے پر تو ایرانی دستے رومن فوجوں سے دو دو ہاتھ کرنے کے لیے Aegean Seaمیں پہنچ گئے تھے۔ قیصرِ روم صرف ساسانی ایرانی حکمرانوں کو اپنے برابر کا درجہ دیتے تھے۔
ایرانی دیوتا متھرا کی روم میں پوجا شروع ہو گئی اور دو سو سال تک متھرا رومن اور یورپی اشرافیہ کا دیوتا رہا۔ یونان کے بعد رومن سلطنت نے چاروں طرف اپنے جھنڈے گاڑے۔ یہ سلطنت 27قبل مسیح میں قائم ہوئی، اپنے انتہائی عروج کے زمانے میں یہ اتنی پھیل گئی کہ اس پر حکمرانی محال ہو گئی۔ 300عیسوی کے ارد گرد قیصرِ روم نے اس وسیع سلطنت کو تقسیم کر کے دو سلطنتیں قائم کیں۔ مغربی رومی سلطنت کا پایہ تخت روم ہی رہا جب کہ مشرقی رومی سلطنت کا پایہ تخت استنبول بن گیا۔
ایک وقت میں یہ سلطنت 50لاکھ مربع کلومیٹر پر پھیلی ہوئی تھی۔ مغربی رومن سلطنت 476عیسوی تک قائم رہنے کے بعد ختم ہو گئی۔ مشرقی رومن سلطنت 1453 عیسوی تک قائم رہی جب مسلمانوں نے استنبول فتح کر لیا۔ رومی سلطنت نے تمام مغربی تہذیب و تمدن کو آراستہ کیا اور آج تک مغربی دنیا اسی تہذیب اور قانون کی پیروی کر رہی ہے جو رومیوں نے اپنے قبضے کے دوران انھیں عطا کیا۔
چین کو ایک تہذیبی ریاست ہونے پر بڑا فخر ہے لیکن اس تہذیبی ریاست نے کوئی چار مرتبہ ویت نام پر قبضہ کیا۔ برما پر تسلط جمایا تبت پر قبضہ کیا اور اپنے مغرب میں وسط ایشیائی مسلمان علاقوں کو اپنے اندر سمو لیا۔ چین ایک دفعہ پھر بہت بڑی قوت کا حامل ہو رہا ہے۔ روس نے جب قوت پکڑی تو مشرقی یورپ اور وسط ایشیائی ریاستوں کو روند ڈالا۔ روس کا 1979میں افغانستان پر حملہ تو سب قارئین کو یاد ہی ہو گا۔
پرتگال۔ اسپین، فرانس، ہالینڈ اور دوسرے مغربی یورپی ممالک نے 17ویں صدی سے 20ویں صدی تک دنیا کے ہر خطے میں پاؤں پسارے۔ نوآبادیاں قائم کیں اور اپنی نوآبادیوں کے قدرتی وسائل و دولت اپنے ممالک میں لاکر امیر اور مہذب ملک بن گئے۔ جرمنی اتنا طاقتور بنا کہ دونوں عالمی جنگیں اسی طاقت کی بدولت ہوئیں۔
آج کی سائنسی ترقی میں جرمن علم و آگہی کا بہت ہاتھ ہے۔ ہمارے اپنے نوآبادی حکمران کو دیکھیں۔ 15ویں صدی تک برطانیہ اتنی بھی اہمیت نہیں رکھتا تھا کہ اسے عالمی نقشے میں دکھایا جا سکے۔ پھراسی انتہائی غیر اہم جزیرے نے کروٹ لی۔ دنیا کی بہترین بحری قوت حاصل کی۔ اپنی قوت اور سائنسی تحقیق کی بدولت چار سو ایسی حکمرانی قائم کی کہ ایک وقت ایسا بھی تھا کہ برطانوی سلطنت پر سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔ یورپ کے بعد امریکا کی باری آئی جس کی ساری تاریخ ہی چند سو سال کی ہے۔ پچھلی پون صدی سے امریکا اتنا طاقتور ملک ہے کہ جس طاقت کا تصور کر کے ہی دل دہل جاتے ہیں۔
آپ دیکھ سکتے ہیں کہ دنیا کے مختلف خطوں میں تقریباً تمام بڑی قوموں نے تاریخ میں کسی نہ کسی وقت اپنی طاقت کا لوہا منوایا۔ کسی بھی دنیاوی اور مادی قوت کو دوام حاصل نہیں۔ ہر قوت و طاقت ابھر کر اپنے اثرات ثبت کرتے ہوئے ماضی کا قصہ بن جاتی ہے۔ ان تمام فاتح قوموں کے ساتھ بھی یہی ہوالیکن دنیا کے نقشے پر ایک خطہ ایسا ہے جس نے کبھی ابال نہیں دیکھا۔ جس نے کبھی قوت نہیں پکڑی۔ جہاں پوری تاریخ میں کبھی انقلاب نہیں آیا۔
یہ خطہ ہمارا خطہ ہے۔ جس کی تاریخ ہزاروں سالوں پر محیط ہے۔ جس کو قدرت نے بے تحاشا نوازا ہے لیکن جہاں کبھی دوسروں پر حاوی ہونے کا جذبہ نہیں پیدا ہوا۔ کیا اس خطے کے ساتھ کوئی مسئلہ ہے۔ کیا ہمارا یہ پیارا خطہ اپنی ترکیب میں خاص ہے۔ آخر مسئلہ کیا ہے۔