عید آئی اور چلی گئی۔ کورونا کے مہیب سائے میں موت کا رقص جاری رہا۔ اس وبا نے سماجی رابطے ختم کرکے رکھ دیے ہیں۔ ٹرانسپورٹ بند، کاروبار بند، ریسٹورنٹس بند، پارک اور سیاحتی مقامات بند۔ ایسے میں ملنے ملانے کے مواقعے نہ ہونے کے برابر ہیں بلکہ ملنا ملانا خطرات کو دعوت دینے کے مترادف ٹھہرتا ہے۔
انسان کو تو بنایا ہی ایسا گیا ہے کہ ملے ملائے بغیر وہ گھُٹن کا شکار ہو جاتا ہے۔ ہمارے پاکستانی معاشرے میں اس کی بہت اہمیت ہے لیکن خطرات ان گنت ہیں۔ ہمیں ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے کہ تمام احتیاطی تدابیر اختیار کر یں اور سماجی فاصلے کو یقینی بنا ئیں۔ احتیاط بھی کریں اور جس طرح بھی ممکن ہو رابطہ رکھیں رابطے میں رہنا بہت اہم ہے۔ اس سے زندگی کھِل اٹھے گی۔
دیکھنے میں آیا ہے کہ کچھ لوگ عموماً خوش نظر آتے ہیں اور کچھ افراد جبر بھی خود پر کریں تو مسکرا سکتے نہیں۔ ایسا کیوں ہے، کیوں کچھ خوش رہتے ہیں اور کیوں کچھ لوگوں کے چہرے پر یاسیت کا سایہ فگن رہتا ہے۔
اس کو سمجھنے کے لیے ایک اسٹڈی کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ ہارورڈ یونیورسٹی دنیا کی ایک بہترین یونیورسٹی ہے، اس یونیورسٹی کی ایک طویل تحقیق کے مطابق اطمینان اور خوشی کا آدھے سے کچھ زیادہ انحصار ہمارے Genes جینزپر ہوتاہے۔ مطمئن زندگی اور خوشی کے لیول کو بہر طور بڑھایا بھی جا سکتا ہے۔ تحقیق کرنے والوں کی رائے میں آپ کی اُمنگیں اور خاص کر آپ کے چوائس خوش رہنے یا نہ رہنے میں بڑا کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ1938 کی بات ہے کہ امریکا کی ہارورڈ یونیورسٹی میں ایک پروجیکٹ بنا کرHARWARD STUDY OF ADULT DEVELOPMENTشروع کی گئی۔
عام طور پر ایسی اسٹڈیز، ایسی تحقیقات جلدی ہی اپنا راستہ کھو دیتی ہیں۔ یہ اس لیے ہوتا ہے کہ یا تو اسٹڈی شروع کرنے والوں کی دلچسپی کم ہو جاتی ہے یا ان کی اکثریت ادھر ادھر ہو جاتی ہے یا ادارہ ہی دلچسپی لینا چھوڑ دیتا ہے یا فنڈنگ ختم ہو جاتی ہے یا پھر دوسری تیسری نسل اکتاہٹ کا شکار ہونے لگتی ہے۔ لیکن ہمیں اس تحقیق سے جڑے لوگوں کو شاباش دینی ہو گی کیونکہ 1938 میں شروع ہونے والی یہ تحقیق ابھی تک جاری ہے اس لیے اس کو دنیا کی ایک طویل المدتی اسٹڈی کہہ سکتے ہیں۔ اس تحقیق میں 728ایسے افراد کو شامل کیا گیا جن کی عمر 19سال سے زیادہ نہیں تھی۔ اسٹڈی میں شریک آدھے نوجوان ایسے تھے۔
جنھوں نے ہارورڈ کالج جوائن کیا تھا اور آدھے شرکا بوسٹن کی انتہائی غریب پسماندہ ایسی آبادی سے لیے گئے تھے جہاں نہ تو نلکے کا پانی تھا اور نہ ہی بجلی میسر تھی۔ اسٹڈی میں شامل پہلے گروپ میں جان ایف کینیڈی بھی تھے جو بعد میں امریکا کے انتہائی ہر دلعزیز صدر بنے۔ اسی طرح اسٹڈی میں شریک افراد میں سے کچھ تو بہت دولتمند ہوئے، کچھ نے سب کچھ گنوا کر آخری لمحات سڑک پر گزارے۔ کچھ بہت مشہور ہوئے اور کئی ایک کامیاب سفارت کار اور بزنس مین بنے۔ کچھ کرائم کی دنیا کے بادشاہ ہوئے۔
اسٹڈی کرنے والے ہر دو سال بعد شرکاء سے رابطہ کرتے ہیں۔ ان کے روز و شب کے مشاغل سے آگاہ ہوتے ہیں۔ ان کی خواہشات، محسوسات اور ضروریات جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کی کامیابیوں اور ناکامیوں کو زیرِ بحث لاتے ہیں۔ ان کے دوستوں، عزیزوں اور خون کے رشتوں سے آگاہی لی جاتی ہے۔ اس طرح دیکھا جاتا ہے کہ وہ کون لوگ ہیں جو اپنی زندگی سے مطمئن ہیں۔ اگر مطمئن ہیں تو وہ کیا چیزہے جو اطمینان فراہم کرتی ہے۔ یہ ساری معلومات اسٹڈی گروپ اپنے اجلاسوں میں زیرِ بحث لاکر دیکھنے کی کوشش کرتا ہے کہ اطمینان اور خوشی کا منبع کیا ہے۔
ہارورڈ کی مذکورہ تحقیق ابھی مکمل نہیں ہوئی لیکن اس کے کرنٹ ڈائریکٹر Dr.Waldingerنے ایک TED TALK میں اس بات کا انکشاف کیا کہ خوشی سے بھرپور مطمئن زندگی کا راز جینز کے ساتھ گہرے تعلقات قائم کرنے میں ہے۔ جن لوگوں کا اپنے رشتہ داروں، اپنے دوستوں اور بہی خواہوں کے ساتھ مسلسل رابطہ رہتا ہے، جو ان کے دکھ درد میں شریک ہوتے ہیں، جو بغیر کسی طمع و لالچ اپنی ریلیشن شپ کو پروان چڑھاتے ہیں وہی خوش اور مطمئن بھی رہتے ہیں۔ خالقِ کائنات نے والدین کے لیے وصیت فرمائی ہے۔ والدین کا بچوں سے پیار اتنا بے لوث ہوتا ہے کہ اس کی کوئی اور مثال نہیں دی جا سکتی۔
عام طور پر اردو میں وصیت سے مراد قریب المرگ بیان لیا جاتا ہے لیکن عربی میں وصیت سے مراد سب سے اہم، ضروری اور لازمی بات ہے۔ والدین کے بعد رحم کے رشتے سب سے قریبی اور اہم رشتے ہوتے ہیں، اس لیے قرآن صلہ رحمی پر بہت جزا کی نوید سناتا ہے۔ اسی طرح درجہ بدرجہ دوسرے رشتے دار، پڑوسی اور دوست یار آ جاتے ہیں۔ غرضیکہ تمام رشتے داروں اور تعلق داروں سے جتنا گہرا تعلق قائم ہو سکے اتنا ہی مفید ہے۔
رشتے اور تعلق کو گہرا کرنے کے لیے کچھ قربان کرنا پڑتا ہے اور وقت دینا ایک اہم قربانی ہے۔ پچھلی چند دہائیوں ہم اس قربانی سے کوسوں دور ہو گئے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ فلاں آدمی میلے میں بھی تنہا ہے یا یہ کہ فلاں فلاں بھیڑ میں بھی اکیلا ہے۔ یہ سب اب ہمارا روزمرہ کا معمول ہے۔ ساری فیملی ایک کمرے میں ہو گی لیکن کوئی کسی سے بات نہیں کر رہا ہوگا، ہر ایک اپنے لیپ ٹاپ یا موبائل پر مصروف ہوگا۔ اگر یہ میلے میں اکیلا پن اور بھِیڑ میں تنہائی نہیں تو اور کیا ہے۔ لڑکپن اور جوانی میں خواہشات اور امنگوں کا ایک سمندر موجزن ہوتا ہے۔
اس لیے لڑکپن اور جوانی میں ریلیشن شپ کو بنانے پر اتنا دھیان نہیں ہوتا۔ بڑھاپے میں افراد صرف بہت اہم چیزوں پر توجہ مرکوز کرتے ہیں کیونکہ ان کو زندگی کی بے ثباتی کا شدید احساس ہو چلا ہوتاہے، وہ غیر ضروری معاملات سے دور صرف اہم چیزوں کو نگاہ میں رکھتے ہیں۔
ان کو پتہ ہوتا ہے کہ سب سے اہم چیز مطمئن اور خوشی سے بھرپور زندگی ہے۔ ہارورڈ تحقیق یہ بتاتی ہے کہ چھوٹی چھوٹی باتوں سے درگذر کر تے رہو، صرف یہ دیکھو کہ وہ کون سی باتیں ہیں جو اطمینان اور خوشی لا سکتی ہیں۔ اگر کوئی چیز اس کے آڑے آرہی ہو تو اس سے منہ موڑ لو۔ دوستوں، رشتے داروں سے مسلسل رابطے میں رہو۔ اپنے سوشل سرکل کو وسیع کرو۔ کسی نہ کسی ایسے رضاکارانہ کام میں شرکت بہت مفید ثابت ہو گی جس کا مقصد دوسروں کی خدمت اور بھلائی ہو اور جس سے سکونِ قلب میسر آئے۔
ہاروڈ تحقیق سے ایک آگاہی یہ ملتی ہے کہ گہرا ریلیشن شپ کسی بھی فرد کی صحت اور خوش و مطمئن زندگی کے لیے بہت اہم ہے۔ اچھا دوست ایک بہت بڑا ٹانک ہے۔ اسی لیے کہا گیا ہے۔
اے ذوق کسی ہمدمِ دیرینہ کا ملنا
بہتر ہے ملاقاتِ مسیحا و خضر سے
اچھا مضبوط اور صحت مند تعلق جہاں حیران کن مثبت اثرات مرتب کرتا ہے وہیں اکیلا پن انسان کی صحت کو تباہ کر دیتا ہے اور اندر ہی اندر مار دیتا ہے۔ ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں جہاں ایک طرف تو ساری دنیا سمٹ کر با محاورہ گلوبل ولیج بن چکی ہے لیکن اسی دنیا میں موبائل، لیپ ٹاپ، ٹی وی اور دوسرے Gadgetsنے ہماری نجی اور سوشل زندگی تباہ کر کے رکھ دی ہے۔ تخلیقِ آدم سے لے کر اب تک کی تمام نسلوں میں ہماری موجودہ نسل سب سے زیادہ آرام دہ زندگی گذارنے والی نسل ہے۔
اتنی سہولتیں بہم ہو چکی ہیں کہ چند عشروں پہلے کے شاہان بھی ان سہولتوں کا تصور نہیں کر سکتے تھے۔ اتنی آرام دہ زندگی گذارنے والی نسل کو اپنے آپ سے یہ سوال ضرور کرنا چاہیے کہ کیا ہم زیادہ مطمئن اور خوش بھی ہیں۔
ان لوگوں کی خوش قسمتی کا کیا کہنا جن کا اپنے والدین اور والدین کا ان سے گہرا تعلق ہے۔ جن کی اہلیہ اُن کے ساتھ یک جان ہے۔ خوش قسمت ہیں وہ جن کا کوئی ایسا ہوتا ہے جس سے سب کچھ شیئر کیا جا سکتا ہے۔ جن کے ایسے دوست ہیں کہ ان کی صرف موجودگی انمول ہوتی ہے۔ جن کو کسی بڑی پریشانی میں کوئی کاندھے پر ہاتھ رکھ کر یہ کہنے والا ہوتا ہے کہ فکر کس بات کی۔ میں ہوں نا۔ یاد رکھیے رشتے نبھائیں اور دوست بنائیں۔ یہی خوشی کا راز ہے۔