پاکستانی اردو شاعری اور جدید اردو شاعری کا نقطہ آغاز تقریباً ایک ہی ہے۔ جدید اردو شاعری کو جن شعراء نے بنیاد فراہم کی اُن میں حالی اور آزاد نمایاں ہیں اور دونوں کے ہاں ملی شاعری کے نمونے بھی مل جاتے ہیں، خصوصاً مسدسِ حالی کو اردو ملی شاعری اور مسلمان قوم کی شاعری میں بہت اہمیت حاصل ہے۔
بعد میں اردو شاعری تحریکِ آزادی کی آبیاری کرنے میں بہت مدد گار بن گئی۔ یہاں علامہ اقبال اور مولانا ظفر علی خان نمایاں حیثیت کے شاعر ہیں۔ قیامِ پاکستان کے بعد وہ شعراء جنھوں نے قومی شاعری کا منظر نامہ تشکیل دیا ان میں سے کافی پہلے ہی درخشاں ستارے بن چکے تھے۔ ان میں غزل گو شعراء بھی تھے اور نظم لکھنے والے بھی۔ غزل گو شعراء میں ناصر کاظمی، شہزاد احمد اور سلیم احمد کے نام بہت اہم ہیں جب کہ نظم گو شعراء میں ن م راشد، منیر نیازی، میرا جی، حفیظ جالندھری، فیض احمد فیض، مختار صدیقی اور احمد ندیم قاسمی کو بہت پذیرائی ملی۔
قیامِ پاکستان کے بعد اردو شعر و ادب میں تقسیمِ برصغیرِ کے نتیجے میں ہجرت اور اس کے دکھ کے آثار و اثرات نمایاں طور پر سامنے آئے۔ شاعری میں بچھڑے ہوئے عزیزوں اور چھوڑے ہوئے گھر بار کی یاد، اس کا کرب اور لُٹی پُٹی زندگی کے آثار دکھائی دئے اور اس کے ساتھ ہی استعارتیmetaphorical) (سطح پر خواب اور سفر کے استعارے تشکیل پائے۔ خواب کا استعارہ روشن زندگی کی تڑپ سے پیدا ہوا اور سفر اس کی عملی تعبیر کی جانب اشارہ کرتاہے۔ یہ دونوں استعارے اپنی صورت بدلتے ہوئے آج کی شاعری میں بھی کہیں نہ کہیں دیکھے جا سکتے ہیں۔
ان استعاروں کی معنویت وقت کے ساتھ بدلتی ضرور رہتی ہے لیکن اب نصف صدی سے زائد عرصہ میں انھیں مستقل استعاروں کی حیثیت حاصل ہو گئی ہے۔ پاکستان کی تہذیبی، ثقافتی، سیاسی، معاشی اور معاشرتی تمام صورتِ حال کو ان استعاروں کے تجزیاتی مطالعہ Analytical study) (سے سمجھا جا سکتاہے۔ اس لحاظ سے اردو شاعری نے اپنے معاشرے کی ایک متوازی تاریخ ان استعاروں میں مستور کر رکھی ہے۔
یہاں تک آتے آتے پاکستانی اردو شاعری اپنا ارتقائی سفر طے کرتی ہوئی اس مقام تک پہنچتی ہے جہاں علامہ اقبال کے بعد راشد، میرا جی اور مجید امجد جیسے بڑے شاعر بہت حد تک اپنا کام مکمل کر چکے تھے۔ ان کی شاعری کے پسِ منظر میں رومانوی تحریک، ترقی پسند تحریک اور حلقہ اربابِ ذوق نے فعال کردار انجام دیا خصوصاً حلقہ اربابِ ذوق نے جدید غزل کے اسلوب کی تشکیل میں اور جدید نظم کے ہیئتی formative) ) اور اسلوبی ((stylisticارتقا میں نمایاں خدمات انجام دیں۔ جدید نظم میں بلینک ورس Blank verse) ( وآزاد نظم کی ہیئتوں کے علاوہ پابند نظم کے متنوع تجربات ظہور پذیر ہوئے۔
1960کی دہائی میں جدیدیت کی تحریک کے زیرِ اثر موضوعاتی(Thematic)حوالے سے وجودیت کے فلسفے اور فنی حوالے سے علامت نگاری کے اثرات اردو شاعری پر مرتب ہوئے جس کی وجہ سے ایک تخلیقی ابہام (creative vagueness) پیدا ہوا۔ جس نے نئی شاعری کی معنوی وسعت میں اضافہ کیا۔ جیلانی کامران جیسے شعرا کی لسانی تشکیلات ) linguistic construction (اور نئی شاعری کی تحریکوں نے اردو شاعری میں گراں قدر اضافے کیے اور اس کا لسانی دائرہ وسیع کیا۔ نئی لفظیات، نئے استعارے اور نئی علامات نے جدید صنعتی معاشرت اور شہری زندگی کے اظہار کو ممکن بنایا۔ اسی دور میں نثری نظم کے لیے کوششیں شروع ہوئیں جنھیں ابتدا میں پذیرائی نہیں ملی بلکہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ شدو مد سے رد کیاگیا۔ ایسا پہلی بار نہیں ہوا بلکہ ہمیشہ ہی نئے تجربات کے خلاف شور برپا ہوتا رہا ہے۔ بلینک ورس اور نثری نظم کے خلاف طوفان کم و بیش دو دہائیوں تک برپا رہا لیکن آخرِ کار مخالفت دم توڑ گئی۔
اگرچہ جدیدیت کے متوازی خالص ترقی پسند شاعری کا دھارا بھی مسلسل رواں دواں دکھائی دیتا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ نئی شاعری کی تحریک سے منسلک بیشتر شعراء فکری طور پر ترقی پسند نقطہ نظر رکھتے تھے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو اس دور کی پاکستانی شاعری ایک خالص انسانی معاشرے کے خواب پر مشتمل نظر آتی ہے۔
اس دور کے اکثر شعراء فارم یعنی ہیئتی حوالے سے وسیع سوچ رکھتے تھے۔ بہت کم شاعر ایسے ہیں جنھوں نے محض غزل یا محض نظم پر اکتفا کیا ہو ورنہ بیشتر شاعروں کے ہاں نئی پابند ہیئتیں، بلینک ورس نظمیں، آزاد نظمیں اور کہیں کہیں نثری نظمیں بھی مل جاتی ہیں۔ مجید امجد، منیر نیازی، احمد ندیم قاسمی، مصطفیٰ زیدی، حبیب جالب اور سرمد صہبائی سمیت اور بہت سے شعراء نے فارم میں تنوع کو پیشِ نظر رکھا۔ صرف ظفر اقبال ہی ایک ایسا شاعر ہے جس نے غزل کے علاوہ کسی اور صنفِ ادب کو اختیار نہیں کیا۔ نظم کے شعراء میں پروفیسر جیلانی کامران، انیس ناگی عباس اطہر اور اختر حُسین جعفری کے نام اہمیت رکھتے ہیں۔
اردو شاعری کا اگلا دور فارم کی نسبت اسلوب کے تنوع کا دور ہے۔ اس دور میں ایک طرف کلاسیکی اسلوب کی جھلکیاں صاف دکھائی دیتی ہیں تو دوسری طرف داستانوی اسلوب کو اختیار کرنے والے شاعروں کا بھی ایک پورا قبیلہ نظر آتا ہے۔ فکری طور پر وجودیت کے اثرات اس دور کی شاعری پر زیادہ گہرے ہیں لیکن سیاسی و سماجی شعور کا اظہار بھی زیادہ تخلیقی انداز میں ہوا ہے۔ اس دور میں مسلمانوں کے گم گشتہ تہذیبی ورثے کی بازیافت کا عمل استعاروں کی صورت میں نظر آتا ہے جو اس عہد کے سیاسی منظر نامے کو بہترین شکل میں پیش کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
کنیزیں، لشکر، گھوڑا، تلوار اور قرطبہ جیسے استعارے صرف ایک نئی شعری روایت ہی نہیں تشکیل دے رہے تھے بلکہ اپنے عہد کے معاملات و مسائل کی پیش کش کے لیے مناسب ترین تھے۔ اس دور کے شاعروں میں شبیر شاہد، ثروت حسین، اظہارالحق اور افضال احمد سید کے نام اہم ہیں۔ ان شاعروں نے اپنی تخلیقی کاوشوں سے خالص پاکستانی ادب کی فضا دریافت کی۔ ایسے شعراء کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ یہ سارے ہی قیامِ پاکستان کے بعد آزاد فضا میں پیدا ہوئے یوں دیکھا جائے تو خالص پاکستانی شعراء کی یہ پہلی نسل تھی جس نے اپنی کوششوں سے وہ فضا بنائی جو موجودہ دور پر منتج ہوئی۔
موجودہ اردو شاعری کا دور 1977سے شروع ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ یہ دور جنرل ضیاالحق کے استبدادی اور مارشل لائی دور سے شروع ہوتا ہے۔ یہ دور مذہبی حوالے سے بنیاد پرستی، سیاسی حوالے سے جبر اور معاشی حوالے سے اس سرمایہ داری کا حامل ہے جس نے صارفیت Consumerismکو پیدا کیا اور جس کے نتائج نیو ورلڈ آرڈر اور گلوبلا ئیزیشن کی صورت میں برآمد ہوئے۔ اس دور میں اردو شاعری فطری طور پر احتجاجی رنگ میں ظہور پذیر ہوئی۔
ایک اچھی بات اس دور کی یہ ہے کہ بلا تخصیص دائیں اور بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے سبھی شاعر اس میں شریک تھے۔ یہ ترقی پسند شاعری کسی تحریک کے نتیجے میں ترقی پسند نہیں تھی بلکہ اس دور میں حالات ہی ایسے تھے جن کی عکاسی اپنے اندر تمام ترقی پسند خصائص رکھتی تھی۔ جدید اردو شاعری کے سو سالہ سفر کے دوران ہیئت، اسلوب اور موضوع کے جو جو تجربات ہوئے اور جتنے اضافے ہوئے، اس دور تک آتے آتے وہ سارے ایک نامیاتی کُل میں ڈھل گئے، غیر ضروری عناصر جھڑ گئے اور طاقت ور عناصر سے پاکستانی شاعری کی نئی روایت پیدا ہوئی۔
اس دور کے شاعروں نے تجربات کے بجائے شعریت کو اہمیت دی۔ لمبے ارتقائی سفر نے انھیں جو کچھ سکھایا وہ اپنی بہترین شکل میں شعری قالب اختیار کر گیا۔ اس دور سے تعلق رکھنے والے بیشتر شاعر اب تک اپنے تخلیقی امکانات کی دریافت میں مصروفِ عمل ہیں اگرچہ اس دور میں کوئی شاعر ایسا نظر نہیں آتا جسے اقبال، فیض اور ن م راشد کے بعد عظیم شعری روایت و تجربے کا امین کہا جا سکے لیکن مجموعی طور پر شاعری کا ایک بڑا ذخیرہ غزل اور نظم کی تمام اصناف میں جمع ہو گیا ہے۔
ان دنوں وبا کی لپیٹ میں پاکستان سمیت ساری دنیا آئی ہوئی ہے۔ یہ ایک ایسا تجربہ ہے جس سے ہماری کئی نسلیں پہلی دفعہ متاثر ہوئی ہیں۔ ہمارے شعراء بھی اس سے متاثر ہوئے ہیں۔ توقع کی جا سکتی ہے کہ یہ تجربہ ایک نئی شعری روایت کو جنم دے گا۔ نئے استعارے وجود پذیر ہوں گے اور شعری اسلوب کے نئے دھارے پھوٹیں گے۔