پچھلے ہفتے وفاقی و صوبائی ملازمین نے اپنی تنخواہوں میں اضافے کے لیے مسلسل دو دن شدید احتجاج کیا۔ سرکاری ملازمین کی طرف سے تنخواہوں میں اضافے کے معاملے پر حکومت سے 9فروری کو مذاکرات ناکام ہونے کے بعد اگلے دن ایک بھرپور مظاہرہ کیا گیا۔ مظاہرین کی پولیس کے ساتھ جھڑپیں ہوئیں۔
پاک سیکریٹریٹ سمیت ریڈ زون اسلام آباد کے متعدد علاقے میدانِ جنگ بنے رہے۔ پولیس نے مظاہرہ کرنے والے وفاقی ملازمین پر خوب لاٹھی چارج کیا اور آنسو گیس کے شیل اور ربڑگولیاں برسائیں ، بعد میں وفاقی وزیرِ داخلہ نے یہ کہہ دیا کہ یہ آنسو گیس اور ربڑگولیاں ٹیسٹ کی گئیں۔ کسی بھی مہذب معاشرے میں ایسا بیان ناقابلِ قبول ہوتا ہے کیونکہ اپنے عوام پر ایسے ہتھیار جو انسانی زندگی کے لیے مہلک بن چکے ہوں، ٹیسٹ نہیں کیے جاتے۔ اگلے دن پھر مذاکرات ہوئے تب جا کر ملازمین کی کچھ داد رسی ہوئی۔
سرکاری ملازمین اپنے مطالبے میں کوئی نرالی ڈیمانڈ نہیں کر رہے تھے۔ پچھلی ہر حکومت میں اشیاء کی قیمتیں بڑھتی رہی ہیں لیکن ہر بجٹ میں ان ملازمین کے اوپر مہنگائی کے اثرات کم کرنے کے لیے تنخواہوں اور ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں کچھ اضافہ ہو جاتا تھا جس سے وہ مہنگائی اور افراطِ زر کا کچھ نہ کچھ مقابلہ کرنے کے قابل ہو جاتے تھے۔ موجودہ حکومت کے دو ڈھائی سالوں میں جتنی مہنگائی ہوئی ہے اور جس تیزی سے ہوئی ہے اس کی کوئی بھی توقع نہیں کر رہا تھا۔ ابھی پچھلے تیس دنوں میں پٹرول کی قیمتیں تین بار اور بجلی گیس کی قیمتیں کوئی دو بار بڑھ چکی ہیں۔
ایسا لگتا ہے کہ حکومت یا تو بین الاقوامی مالیاتی اداروں اور پاکستانی مافیاز کے سامنے بالکل بے بس ہے یا پھر اس کو روز افزوں مہنگائی کا احساس ہی نہیں ہے۔ ایک عجیب سرد مہری کا تاثر دیا جا رہا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ حکومتی حلقے ان افراد اور خاندانوں پر مشتمل رہے ہیں جن کی آمدن اتنی وافر ہوتی ہے کہ انھیں مہنگائی سے کوئی سروکار نہیں ہوتا لیکن عوام کی ایک بڑی تعداد اور خاص کر فکسڈ انکم گروپ بہت متاثر ہو تا ہے اور کچھ کی تو چیخیں نکل رہی ہیں۔ فکسڈ انکم گروپ میں بھی سرکاری ملازمین اور پنشن پانے والے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ پرائیویٹ سیکٹر میں بھی فکسڈ انکم والوں کے لیے بہت مشکلات ہوتی ہیں۔
موجودہ حکومت کے ڈھائی سالہ دورِ حکومت میں مہنگائی کا عفریت ہر وقت اپنا منہ کھولے کھڑا ہے۔ پہلے کہا جا چکا ہے کہ فکسڈ انکم والے اور خاص کر سرکاری ملازمین اور پنشنرز اس مہنگائی کی لپیٹ میں زیادہ آئے ہیں۔ لیکن اگر غور کریں تو پنشن پانے والے افراد اس چکی میں سب سے زیادہ پسے ہیں۔ مہنگائی تو ہر آنے والے دن کے ساتھ بڑھ رہی ہے لیکن پنشن جوں کی توں ہے۔ سرکاری ملازمت میں ہوتے ہوئے کچھ سہولتیں ملی ہوتی ہیں جو ریٹائر ہونے کے ساتھ ہی واپس لے لی جاتی ہیں۔
اکثر ریٹائرڈ سرکاری ملازموں کو یہ کہتے سنا گیا ہے کہ زندگی کے وہ ایام جن میں سب سے زیادہ سپورٹ کی ضرورت محسوس ہوتی ہے، ان ایام میں بوڑھے پنشنرز کے پاؤں کے نیچے سے زمین غائب کر دی جاتی ہے۔ جناب وزیرِ اعظم نے کچھ عرصے سے سرکاری ریٹائرڈ افراد کی پنشن میں کوئی اضافہ نہیں کیا۔ اوپر سے ہمارا نظام بہت بے رحمانہ ہے۔ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ جسم کمزور ہوتا چلا جاتا ہے۔ مختلف النوع بیماریاں گلے کا ہار بنتی چلی جاتی ہیں اس پر مستزاد یہ کہ پچھلے اس دور میں دواؤں کی قیمتیں دو سو فی صد سے بھی زیادہ بڑھ چکی ہیں۔
اسپتالوں کی کمی کی وجہ سے ایک تو وہاں تل دھرنے کی جگہ نہیں ہوتی اور دوسرا ماہر سرکاری ڈاکٹر پرائیویٹ اسپتالوں اور کلینکوں میں بھاری معاوضوں کے عوض اپنی بنیادی ذمے داری سے پہلو تہی کرتے ہوئے مصروف رہتے ہیں۔ پنشنرز جو پہلے ہی ساٹھ سال سے اوپر کی عمر کے ہو چکے ہوتے ہیں، بیماریوں میں گھرتے چلے جاتے ہیں، انھیں اپنی صحت برقرار رکھنے کے لیے اپنی جیب سے خرچ کرنا پڑتا ہے جب کہ ریٹائرڈ پنشنرز کو صحت کی سہولتیں مہیا کرنا حکومت کی اولین ذمے داری ہوتی ہے۔
ریٹائرمنٹ پر پنشن کی ادائیگی پنشنرزکے اوپر کوئی مہربانی نہیں ہے۔ کسی بھی ملازم کو دورانِ ملازمت تنخواہ اور بعد از ریٹائرمنٹ پنشن کی ادائیگی اس کے بنیادی حقوق ہوتے ہیں۔ سرکاری سیکٹر میں کسی بھی فرد کو جب ملازمت ملتی ہے تو اس کی تعلیم اور صلاحیت کے مقابلے میں اس کی تنخواہ بہت کم ہوتی ہے۔ اسی تعلیم اور صلاحیت والے افراد کی تنخواہ مارکیٹ میں چندے زیادہ ہوتی ہے۔ سرکاری ملازمین کو مارکیٹ کی تنخواہ کے مقابلے میں یہ تفاوت، ان کو ریٹائرمنٹ کے بعد پنشن کی مد میں ملتا ہے۔
آپ کہہ سکتے ہیں کہ سرکاری ملازمت سے ریٹائر ہونے والے افراد کو جو پنشن ملتی ہے وہ اصل میں سال ہا سال مارکیٹ میں پائی جانے والی تنخواہ سے بہت کم تنخواہ پر حکومت کے ایک اہلکار کے طور پر کام کرنے کے بدلے میں ملتی ہے۔ بارہا یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ یہی افراد اگر پرائیویٹ سیکٹر میں جائیں توبہت کامیاب ٹھہرتے ہیں اور کئی گنا زیادہ معاوضہ پاتے ہیں۔ تو بات یہ ہے کہ پنشن ریٹائرڈ افراد کی اپنی کمائی ہے جو Deferedحالت میں ملتی ہے۔ یہ کسی صورت بھی حکومت کی مہربانی نہیں۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہ اور ریٹائرڈ حضرات کی پنشن میں مہنگائی اور افراطِ زر کے حساب سے بتدریج اضافہ بھی کوئی انہونی بات نہیں۔ دنیا جہان میں ہر جگہ INDEXATION کا اصول کارفرما ہے۔ جناب محبوب الحق نے وزیرِ خزانہ کی حیثیت سے بہت صحیح قدم اُٹھاتے ہوئے Indexation کو متعارف کروایا تاکہ سرکاری ملازمین اور پنشنرز مہنگائی اور افراطِ زر کے عفریت کے منہ میں نہ چلے جائیں۔
حکومت کا سربراہ سرکاری ملازمین اور پنشنرز کا Employerہونے کی وجہ سے بمنزلہ گارڈین ہوتا ہے۔ Senior Citizenکی دیکھ بھال تمام دنیا میں حکومتوں کے پیشِ نظر ایک ترجیح رہتی ہے۔ ایسے اقدامات اٹھائے جاتے ہیں جن سے سینئر شہریوں کی زندگی کو سہولت میسر آئے۔ ریٹائرڈ پنشنرز کی پنشن میں مناسب اضافہ بھی ایسا ہی ایک احسن قدم ہے۔ یہ حکومت کی بنیادی ذمے داری کے ساتھ ایک اچھا Welfare Measureہے۔ افسوس کہ حکومت نے ملازمین کے مظاہروں کے دباؤ میں آکر ان کی تنخواہیں تو کسی قدر بڑھا دیں لیکن ریٹائرڈ حضرات کو ان کا بنیادی حق دینا اور ایک اچھا welfare measureبھول گئی۔ سرکاری ملازمین سے بھی ایک چُوک ہو گئی، وہ اس بات کو بھول گئے کہ انھیں بھی ریٹائر ہو کر پنشنرز کی صف میں شامل ہونا ہے۔
گری ہے جس پہ کل بجلی وہ میرا آشیاں کیوں ہو والی سوچ فائدہ مند نہیں۔ سرکاری ملازمین کو ہر معاملے میں پنشنرز کو ساتھ رکھنا ہو گا ورنہ ان کو ملنے والا ہر Reliefادھورا ہو گا اور وہ اپنے ہی بڑھاپے کے خلاف کام کر رہے ہوں گے۔ حکومت کے پیشِ نظر یہ بھی رہنا چاہیے کہ پنشنرز میں فیملی پنشن پانے والی بیواؤں اور ان کی کفالت میں پلنے والے یتیموں کی ایک بڑی تعداد بھی ہے۔ حکومت کو اپنی سرد مہری توڑ کر اس بات کا احساس کرنا ہوگا کہ پنشن میں اضافہ نہ کر کے وہ ان افراد کو غربت و افلاس کے منہ میں دھکیل رہی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ پنشنرز کو ان کا بنیادی حق دینے کے لیے اور سینئر شہریوں کے لیے ایک بہترین welfare measureاٹھاتے ہوئے پنشن میں فی الفور مناسب ا ضافہ کرے۔