Thursday, 21 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Seerat Khatim Un Nabiyeen (2)

Seerat Khatim Un Nabiyeen (2)

چند ہفتے پہلے سیرتِ خاتم الانبیا محمد رسول اﷲﷺ کے سلسلے میں یہ عرض کیا تھا کہ انسان جب بھی آپ ﷺ کی ذاتِ گرامی کے بارے میں لب کشائی کی جرا، ت کرتا ہے تو اس کو اپنے نطق کے عجز اور درماندگی کا شدید ترین احساس ہوتا ہے۔

اس سلسلے میں وہ شعراء جو زبان و بیان پر انتہائی قدرت رکھنے اور قادرالکلامی کی پہچان شمار ہوتے ہیں، وہ سرکارِ دو عالم کی حمد و ثنا کے بارے میں دست کش ہونے کا اعلان کرتے ہیں۔

کیوں نہ ہو چشمِ فلک نے ایسا کوئی اور دیکھا ہی نہیں۔ پچھلے کالم میں جگہ کی تنگی کی وجہ سے دورِ حاضر کے سُرخیل شاعر اور فلسفی علامہ ڈاکٹر محمد اقبال کے اشعار کالم کا حصہ نہ بن سکے۔ چند قارئین نے اس کا تذکرہ بھی کیا۔ آج علامہ کے چند نعتیہ اشعار پیش کرکے ابتدا کرتے ہیں۔

علامہ فرماتے ہیں۔ در دلِ مسلم مقامِ مصطفیٰ است آبروئے ماز نامِ مصطفیٰ است۔ لوح بھی تو، قلم بھی تو، تیرا وجود الکتاب، گنبدِ آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب۔ مصطفیٰ برساں خویش را کہ دیں ہمہ او ست، اگر بہ او نہ رسیدی تمام بولہبی است۔ شعلہ ہائے او صد ابراہیم سوخت، تا چراغِ یک محمدﷺ بر فروخت۔

اب ہم آگے بڑھ کر آپ کی ذاتِ اقدس کے چند اوصاف و کمال کی طرف نگاہ دوڑاتے ہیں۔ اﷲ اور اس کے رسول کی محبت کا احساس وہ چیز ہے جو عبادت میں خشوع اور سوز و گداز پیدا کرتی ہے۔ حضور علیہ الصلواۃ و السلام کی محبت اور آپ کی تعریف و توصیف تجزیاتی نکتہ نظر سے پانچ اہم پہلوو، ں کی حامل ہے۔

ذاتی عظمت کا منتہائے کمال

حضور نے ایک بھرپورزندگی گزاری۔ اتنی بھرپور کہ بعض اوقات عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ آپ اتنا کچھ ایک دن میں کیسے کر لیتے تھے۔ جن چیزوں کے بارے میں تلقین فرمائی ان کے بارے میں خود درجہ کمال کو پہنچے۔ اس سے مراد وہ درجہ کمال ہے، وہ انتہائی مقام ہے جس کے بعد کوئی مقام نہیں۔ مثال کے طور پر نماز جو پانچ وقت فرض ہے۔ حضور نے ساری عمر بہت پابندی سے روزانہ آ ٹھ وقت کی نماز پڑھی۔ قیام الیل اتنا طویل فرماتے کہ پائے مبارک پر ورم آ جاتا۔ قرآنِ کریم کی سورۃ مزمل میں اس کا نقشہ کھینچتے ہوئے رب العزت فرماتا ہے کہ اے نبی ساری ساری رات نہ کھڑے رہا کرو۔

سخاوت کا درجہ کمال یہ تھا کہ اگر صبح کا آیا ہوا مال کہیں شام تک تقسیم نہ ہو سکتا تو جب تک اس کے تقسیم کی کوئی صورت نہ نکل آتی، آپ کو بے چینی گھیرے رہتی۔ آپ کے لیے بستر پر سونا محال ہو جاتا۔ ساری عمر کبھی زکوۃ ادا نہ کی کیونکہ کبھی اتنا مال جمع ہی نہیں ہوا کہ جس پر زکوۃ لاگو ہوتی۔ ہمیشہ قرض لے کر دوسروں کی داد رسی کی، حاجت روائی کی۔ مانگنے والے بدو بعض اوقات تہذیب سے عاری، گستاخی سے مانگتے لیکن آپ نے نہ کبھی برا منایا اور نہ ہی خالی ہاتھ لوٹایا۔

ذاتی شجاعت کا یہ عالم تھا کہ صحابہ کہتے کہ جب گھمسان کا رن پڑے تو سب سے محفوظ جگہ حضورﷺ کے قرب میں ہوتی تھی۔ معرکہ حنین میں آپ ایک سفید خچر پر سوار تھے جس نے آپ کو بہت نمایاں کر دیا اور جب انتہائی مشکل وقت میں بے شمار لوگ مقابلہ سے منہ موڑ گئے تو آپ نے اپنے چچا سیدنا عباسؓ کے ذریعے اپنی موجودگی کا ان الفاظ میں اعلان کروایا۔

انا النبی لا کذب، انا ابنِ عبدالمطلب۔ یعنی فرمایا کہ میں اﷲ کا نبی ہوں، اس میں کوئی جھوٹ نہیں اور میں عبدالمطلب کی اولاد ہوں۔ حضور کا فقر اختیاری تھا، شجاعت، سخاوت اور دیگر انسانی صفات کا اوجِ کمال آپ کی ذاتِ والا صفات تھی۔ عفو و درگزر کا یہ عالم تھا کہ فتحِ مکہ کے عظیم موقعے پر اپنے خون کے پیاسوں۔ اپنے اصحاب کو ہر طرح کی اذیتوں میں مبتلا کرنے والوں اور جنگیں مسلط کرنے والوں کو لا تثریبَ علیم الیوم کہہ کر معاف ہی نہیں کر دیا بلکہ سب کوگلے لگا لیا۔

دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ حضور صرف عظمتوں کی انتہا کو پہنچ کر اس پر قانع نہیں ہوئے بلکہ اپنا پیغام انسانیت کے لیے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محفوظ بنا دیا۔ چنانچہ اس طرح انسان کا اﷲ تک پہنچنے کا راستہ ہمیشہ کے لیے کھول دیا۔ یہی انسانیت کی معراج کی راہ ہے۔ یہ بھی پیشِ نظر رہنا چاہیے کہ صرف حضور کا پیغام انسانیت کے لیے مکمل پیغام ہے۔ جب کہ آپ سے پہلے مبعوث ہونے والے انبیاء کا پیغام ایک دوسرے کا تتمہ، وقتی اور عام طور پر ایک بستی کے لیے ہوتا تھا۔

تیسرا اہم پہلو یہ ہے کہ حضور نے زندگی کا صرف فلسفہ پیش نہیں کیا کیونکہ فلسفہ تو بہت لوگوں نے دیا۔ سرکار نے ایک نظریہ اور عملی نظام دیا۔ زندگی کا جو بھی اصول پیش کیا وہ قابلِ عمل ہے۔ اور پھر ہر اصول اور نظریہ اور نظریہ پر عمل کرنے والوں کی ایک جماعت بھی تیار کر دی، بقولِ شاعر مسِ خام کو کندن بنا دیا۔

چوتھا اہم پہلو یہ ہے کہ سرکار ختم المرسلین نے جو عملی انقلاب برپا کیا اور جو ریاست قائم کی وہ ایک معجزہ سے کم نہیں۔ کسی ریاست کو کامیاب کرنے کے جو آٹھ اسباب کتبِ سیاسیات میں لکھے گئے ہیں۔ وہ یہ ہیں۔ 1 قوم کی تعداد بہت زیادہ ہو۔ 2۔ تعلیمی طور پر اعلیٰ مقام رکھتی ہو۔ 3۔ باہمی اتحاد کا نمونہ ہو۔ 4۔ اچھے اخلاق ہوں۔ 5۔ صنعت و حرفت میں ترقی یافتہ ہو ..6معیشت صحت مند ہو اور GROWکر رہی ہو۔ 7۔ ملک زرعی طور پر خوش حال ہو۔ 8۔ معدنیات سے مالا مال ہو۔ حضور کی جس معاشرے میں بعثت ہوئی، وہ دَور، وہ معاشرہ ان میں سے کسی ایک شرط پر بھی پورا نہیں اترتا تھا۔ بلاذری کے مطابق پورے بلاد ِعرب میں 17آدمی لکھنا پڑھنا جانتے تھے۔ اتحاد کا نام و نشان نہ تھا۔

بلکہ باہمی جنگ و جدل ان کا طرزِ زندگیWAY OF LIFE تھا۔ معمولی معمولی باتوں پر برسوں پر محیط جنگیں چھڑ جاتی تھیں۔ ایسی ہی ایک جنگ 63 برس جاری رہی۔ ان کے اخلاقی انحطاط کی داستان زبان زدِ عام ہے۔ صنعت کا یہ حال تھا کہ تلواریں دمشق سے بن کر آتی تھیں اور لباس یمن سے بن کر آتا تھا۔ زرعی طور پر واحد فصل کھجور تھی۔ زرعی ایکٹو ویٹی صفر تھی۔ معدنیات کا نام و نشان بھی نہیں تھا۔ مختصر یہ کہ جزیرۃ العرب کے عوام میں قوم بننے کی کوئی خوبی موجود نہ تھی۔ لیکن اس گروہ کو، اس مسِ خام کو لے کر حضور نے اس طرح کا انقلاب برپا کر دیا کہ ان کی پوری زندگی اخلاق، تہذیب اور شائستگی کا نمونہ بن گئی۔ یہ ایک مکمل ترین تبدیلی تھی یا یہ کہہ سکتے ہیں کہ Total Transformation تھی۔

پانچواں اہم پہلو یہ ہے حضور کا برپا کردہ انقلاب ہر لحاظ سے ایک غیر خونی Bloodless انقلاب تھا۔ جہاں تک اس انقلاب کی توسیع کی رفتار کا تعلق ہے۔ وہ کم و بیش 274 مربع میل روزانہ بنتی ہے۔ اس عرصے میں جو 80 غزوات ہوئے ان میں سے صرف آٹھ بڑے ہیں۔ تمام غزوات اور جھڑپوں میں اکثر سیرت نگاروں کے مطابق کل 759کفار مارے گئے جب کہ 259 مسلمان شہید ہوئے۔

اس انتہائی جانگسل، صبر آزما اور طویل جدوجہد میں حضور کی اپنی ذاتِ گرامی کا کوئی مفاد نظر نہیں آتا۔ آپ خود آخری لمحے تک مقروض رہے اور بوریا نشینی پر قناعت کی۔ آخری دور میں ایک موقعے پر سیدنا ؑعمر ؓنے جسم اطہر پر چٹائی کے نشانات دیکھے تو رو پڑے۔ آپ کے گھر میں ایک مشکیزہ اور بہت ہی معمولی متاع رکھی ہوئی تھی۔ اس پر بھی قناعت اور صبر و شکر کا یہ عالم تھا کہ آپ نے فرمایا کہ جو مال کوئی چھوڑ کر مرے وہ مال اس کے وارثوں کا ہے لیکن اگر اگر وہ اس حال میں مرے کہ اس کے ذمے کوئی قرض واجب الادا ہو تو وہ قرض میں ادا کروں گا۔ یہ حقیقی معنوں میں ایک شاہکار خوبی ہے اور ایسا انقلاب آپ کے بعد کوئی برپا نہیں کر سکا۔ سچ ہے آپ ﷺ نے غبارِ راہ کو فروغِ وادی، سینا بخش دیا۔ )باقی آیندہ(