ہندو جوگیوں، سادھوؤں، اور پنڈتوں میں سکندرِ اعظم کے برِ صغیر پر حملے کے حوالے سے ایک کہانی بہت مشہور ہے۔
تقریباً تمام مہا رشی اور بڑے گُرو اپنے شاگردوں کو یہ کہانی ہندوستانی علم و حکمت کی برتری کے طور پر ضرور سناتے ہیں کہ سکندرِ اعظم اپنی ریاست سے نکل کر ملکوں کے ملک فتح کرتا ہوا کیوں برِ صغیر آیا اور پھر پورا برِ صغیر فتح کیے بغیر کیوں واپس لوٹ گیا؟ یوں تو یہ ایک بہت ہی عام سی کہانی ہے لیکن ہر کہانی کی طرح حقیقت سے دور اس کہانی میں بھی ایک کارآمد بات پوشیدہ ہے جس سے عقل و خرد والوں کو واضح اور روشن راستہ مل سکتا ہے۔
یہ 356قبل مسیح کی بات ہے کہ ریاست مقدونیہ کے حکمران فلپ دوم کے ہاں ایک بچے کی پیدائش ہوئی۔ فلپ نے اس کا نام الیگزانڈر)سکندر (رکھا۔ یہ بچہ 13سال کی عمر میں عظیم استاد ارسطو کی زیرِ نگرانی تعلیم حاصل کرنے لگا۔ 16سال کی عمر تک یہ لڑکا ارسطو کا شاگرد رہا۔ سکندر جب 20سال کا ہوا تو اس کے والد کو قتل کر دیا گیا۔ یوں سکندر نے تخت سنبھال لیا اور اپنی سلطنت کو وسعت دینے لگا۔ جلد ہی اس نے سارے یونان پر اپنی حکمرانی قائم کر لی۔ پھر سکندر نے اس وقت مشرقی دنیا کی سب بڑی سلطنت ایران کی طرف توجہ مبذول کی۔ جلد ہی اس نے پوری ایرانی سلطنت پر اقتدار حاصل کر لیا۔
پھر وہ مصر کی طرف چل نکلا۔ مصر میں کامیابی نے اس کے قدم چومے۔ یہاں اس نے بحرِ اوقیانوس کے کنارے ایک جدید شہر کی بنیاد رکھی جو اس کے نام سے سکندریہ کہلایا۔ مصر کے بعد سکندر نے بابل و نینوا کو تاراج کیا۔ بابل سے سکندر نے سمرقند کا رُخ کیا۔ سمرقند کے بعد اس نے افغانستان کے راستے برِ صغیر کا ارادہ کیا تو افغان علاقوں اور ٹیکسلا کے راجہ امبی کو پیغام بھیجا کہ وہ سمرقند میں اس کے حضور حاضر ہوں۔ ٹیکسلا کا راجہ امبی بیش قیمت تحائف کے ساتھ سکندر کے دربار میں پیش ہو گیا۔ امبی نے سکندر کو ٹیکسلا سے آگے جہلم کے راجہ پورو)پورس(کی سلطنت اور سپاہ کے بارے میں معلومات دیں اور اپنے پانچ ہزار جنگجو دینے کا وعدہ کیا۔ راجہ امبی نے سکندر کی دریائے سندھ عبور کرانے میں مدد دی۔ ٹیکسلا میں مختصر قیام کے بعد سکندر اعظم نے راجہ پورس کو شکست دی۔
سکندر اعظم بیس سال کی عمر میں اپنے وطن سے نکلا تھا۔ اب اس کی عمر تیس سال سے اوپر ہو رہی تھی۔ وہ کسی بھی ملک میں لمبا عرصہ نہیں ٹھہرا تھا۔ ہر منزل پر اسے آگے بڑھنے کی جلدی ہوتی تھی۔ برِ صغیر کی سرحد میں داخل ہونے پر سکندرِ اعظم کو معلوم ہوا کہ اس سرزمین پر ایسے رشی اور جوگی ہیں جنھوں نے لا فانی زندگی کا راز ڈھونڈ لیا ہے۔
وہ اس راز کو جاننے کے لیے بے چین ہوگیا تاکہ لمبی عمر پا کر وہ ساری دنیا فتح کر سکے۔ سکندرِ اعظم نے اپنے سپاہیوں کی ڈیوٹی لگائی کہ ایک ایسے سادھو کا پتہ کرو جو لافانی زندگی کا راز جانتا ہو۔ سپاہی ایسے جوگی کی تلاش میں لگ گئے۔ ایک جگہ پر سپاہیوں کی بر آئی جب انھیں پتہ چلا کہ ایک ویرانے میں درخت کے نیچے ایسا ہی ایک کامل جوگی موجود ہے۔
سکندر کے سپاہی وہاں پہنچے تو دیکھاکہ ایک آدمی لنگوٹ باندھے درخت کے نیچے آنکھیں بند کیے بیٹھا ہے۔ سپاہیوں نے جوگی کو بمشکل اپنی طرف متوجہ کیا اور بتایا کہ اسے بادشاہوں کے بادشاہ سکندرِ اعظم کے پاس چلنا ہو گا۔ جوگی نے ان کے ساتھ چلنے سے انکار کر دیا۔ سپاہیوں نے اپنی تلواریں سونت لیں اور کہا کہ سیدھے طریقے سے ہمارے ساتھ چلو ورنہ گردن اڑا دی جائے گی۔
وہ پچھلے کئی سالوں سے یہی کچھ کرتے آئے تھے اور ان کے لیے گردن اڑانا عام سی بات تھی لیکن وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ جوگی ٹس سے مس نہیں ہوا اور کہا تم جو چاہے کرو لیکن وہ اپنی جگہ ہرگز نہیں چھوڑے گا۔ سپاہیوں کی حیرت بڑھ رہی تھی کیونکہ انھوں نے لوگوں کو پاؤں پر گر کر زندگی کی بھیک مانگتے دیکھا تھا۔
جب ان کو اندازہ ہو گیا کہ یہ آدمی چلنے کو تیار نہیں ہے تو انھوں نے اسے بہت بڑے انعام کی پیش کش کی لیکن وہ پھر بھی چلنے پر راضی نہ ہوا۔ آخرکار سپاہیوں نے آپس میں مشورہ کرکے طے کیا کہ چل کر سکندرِ اعظم کو معاملے کی خبر دینی چاہیے۔ سکندر نے ساری کہانی سنی تو اس نے کہا کہ اسے اسی قسم کے بندے کی تلاش تھی۔ سکندر نے تازہ دم گھوڑا لیا۔ جنگجو ساتھ لیے اور سادھو کے پاس پہنچ گیا۔ گھوڑے پر بیٹھے بیٹھے سکندر نے سادھو کو اپنے بارے میں بتایا اور لافانی ہونے کے راز کے بارے میں پوچھا۔ سادھو نے کہا کہ پہلے تو اس جانور کی جان چھوڑو اور اتر کر میرے پاس آؤ۔ سکندر گھوڑے سے اترا اور سادھو کے پاس بیٹھ گیا۔
سادھو نے کہا کہ یہ بات صحیح ہے کہ میں تمھیں لافانی زندگی حاصل کرنے کا راستہ بتا سکتا ہوں لیکن یہ ایک بہت کٹھن راستہ ہے۔ اس نے سکندرِ اعظم کو ایک راستہ بتایا۔ راستے کی چند بڑی بڑی نشانیاں بتائیں اور کہا کہ اس راستے پر چلتے ہوئے تم ایک غار کے دہانے پر پہنچ جاؤ گے۔ غار میں داخل ہو کر تھوڑی دور تمھیں بہت صاف اور شفاف پانی کی ایک جھیل ملے گی۔ جو بھی اس جھیل سے سیراب ہو گیا وہ لا فانی ہو گیا۔ سکندر یہ سن کر بہتExitedہوا اور اس نے راستے کے نشانات سادھو کے ساتھ دہرائے تاکہ از بر ہو جائیں اور منزل پر پہنچنے میں کوئی غلطی نہ ہو۔
اس نے اپنے دستے کو ساتھ لیا اور منزل کی طرف چل پڑا۔ سادھو کے بتائے ہوئے ابتدائی نشانات جب ٹھیک نکلے اور منزل قریب آنے لگی تو یکا یک سکندر کے دل میں خیال آیا کہ میرے دستے کے سپاہیوں نے بھی آبِ حیات پی لیا تو وہ بھی لافانی ہو جائیں گے جب کہ وہ اکیلا لا فانی ہونا چاہتا ہے۔ یہ سوچ کر اس نے سپاہیوں کو وہاں رکنے کا کہا اور خود آگے بڑھ گیا۔ چلتے چلتے اسے اپنے سامنے ایک غار نظر آئی جو بالکل اسی طرح تھی جیسا سادھو نے نقشہ کھینچا تھا۔ یہ جان کر کہ وہ صحیح جگہ پر پہنچ گیا ہے سکندرِ اعظم کادل اچھلنے لگا۔ اس کو ایسے محسوس ہوا کہ وہ ہوا میں اُڑ رہا ہے اور چند لمحوں بعد آبِ حیات پی کر ہمیشہ کی زندگی پانے والا ہے اور پھر وہ بڑھاپے اور موت سے بے فکر ہو کر ساری دنیا کو فتح کرتا جائے گا۔
سکندرِ اعظم غار میں داخل ہو کر آگے بڑھا تو تھوڑے فاصلے پر اس کے سامنے صاف شفاف پانی کی جھیل تھی۔ سکندر بے تاب ہو کرجھیل کے کنارے جھک گیا اور چُلو بھر کر پانی لبوں کے قریب لے آیا۔ ابھی وہ پانی پینے کے قریب ہی تھا کہ اسے ایک آواز آئی کہ خبردار پانی پینے سے پہلے خوب سوچ بچار کر لو۔ میں نے یہ پانی نہ جانے کتنا عرصہ پہلے پیا تھا، مجھے کچھ یاد نہیں لیکن میں اس پانی کی بدولت، اس آبِ حیات کو پینے کی وجہ سے مر نہیں سکتا۔ سکندر حیران ہوا کہ یہ آواز کس کی ہے اور کہاں سے آ رہی ہے۔ اس نے سر اُٹھایا تو جھیل کے دوسرے کنارے پر ایک انتہائی لاغر آدمی بیٹھا تھا۔ سکندر جب اس کی طرف متوجہ ہوا تو پانی اس کے ہاتھوں سے بہہ گیا۔
آوازنے اسے پھر مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اپنے اوپر رحم کرو۔ زندگی کا خاتمہ ایک بہت بڑی نعمت ہے ورنہ ایک مقام پر پہنچ کر یہ زندگی بہت ناکارہ اور بوجھل ہو جاتی ہے۔ میں یہ پانی پی کر اس نعمت سے ہاتھ دھو بیٹھا ہوں کیونکہ میں اب مر نہیں سکتا۔ سکندر کو یہ بات سمجھ آ گئی اور وہ آبِ حیات پئے بغیر وہاں سے واپس لوٹ گیا اور اپنی افواج میں پہنچ کر برِ صغیر سے کُوچ کرنے کی تیاری میں مصروف ہو گیا۔