زندگی بھر جی بھر کر سیاسی تماشے اور جلسے دیکھے لیکن ان سیاسی تماشوں سے الگ ہو کراگر دیکھا جائے تو جو ان سیاسی تماشوں سے الگ ہو گیا اور اس نے سیاست سے ہٹ کرایک علیحدہ شناخت بنائی یعنی وہ ان تماش بینوں سے نکھر کرایک ایسے گروہ کی شکل میں سامنے آیا جس نے اعلیٰ اور ارفع مقاصد کے لیے اپنے آپ کو وقف کر دیا جن کو دیکھ کر اس زمانے میں بھی لوگ حیرت زدہ رہ جاتے ہیں کہ یہ کون لوگ ہیں جو جدید زندگی کے تقاضوں سے ہٹ کر ایک ایسے مقصد کے لیے اپنا تن من دھن لگائے رکھتے ہیں جس میں سے انسانیت کی فلاح کا پہلو نکلتا ہے۔
ایسے ہی لوگوں کے دم قدم سے دنیا آباد ہے، ان کی عاجزی اور انکساری کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ ان کی منزلیں دنیاوی نہیں ابدی ہیں، یہ ابدی منزلوں کے مسافر ہیں جو اﷲ کی رضا کی خاطر سجدہ ریز بھی رہتے ہیں اور انسانیت کی خدمات کے لیے ہمہ وقت تیار بھی۔ کسی بھی قدرتی آفت میں آپ ان کو اگلی صفوں میں پائیں گے، یہ پہلی صفوں کے مقتدی ہیں۔ قربانیاں ان کے لیے نئی نہیں ہیں۔ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ دنیا میں وہ اس گروہ میں شامل ہیں جو انسانیت کی خدمت کے لیے اپنے آپ کو پیش پیش رکھتا ہے ان کے لیے کسی دنیاوی فائدے کی نسبت انسانیت کی خدمت زیادہ مقدم ہے اور یہی اس گروہ کی پہچان ہے۔
جماعت اسلامی کی خدمات پاکستانیوں کے لیے نئی نہیں ہیں جب بھی قوم پر کوئی مشکل وقت آیا جماعت کے فقیر اس مشکل میدان میں کود پڑے اوراس میدان سے تب نکلے جب وہ اپنے مشن میں کامیاب ہو گئے۔ کامیابی ایسے لوگوں کے ہی قدم چومتی ہے اور ان کی راہ تکتی ہے۔
انسانیت کی خدمت کے عظیم مقصد سے لگن ان کا شیوہ رہی ہے۔ جماعت ہر کڑے وقت میں قوم کو اپنی یاد دلاتی رہتی ہے، قوم کو اس کی یاد تو وہ شہید بھی دلاتے رہتے ہیں جو پاکستان کی محبت میں بنگلہ دیش میں ابدی زندگی پا گئے ہیں، شہیدوں کی فہرست اگر مرتب کی جائے تو غیر فوجی شہدا میں جماعت کے شہدا سر فہرست ہیں۔ جماعت اسلامی ہمارے ملک کی قومی سیاست میں فصلی بٹیرا جماعت نہیں ہے بلکہ یہ یہ واحد جماعت ہے جو پاکستان کے وجود سے ہی قائم و دائم ہے اور اس کے نظریات میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آئی۔ جماعت اسلامی پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ کی علمبردار بھی ہے اور اس کے پیروکاروں کی منزل کا تعین اگر دنیاوی پیمانوں سے کیا جائے تو ان جیسے نظریات اور اپنے نظریے کے لیے جان دینا شاذو نادر لوگوں کے حصے میں آتا ہے۔ ایسے لوگ اعلیٰ نظریے کی تخلیق ہوا کرتے ہیں، اس لیے یہ جماعت ہمیشہ سے زندہ و پائندہ رہنے والی جماعت ہے۔
میں ذاتی طور پر اسے پاکستانی قوم کی بدقسمتی سمجھتا ہوں کہ قوم نے سیاسی میدان میں اس جماعت کو وہ پذیرائی نہیں دی جو اس کا حق تھی، ایک دفعہ کراچی میں مرحوم نعمت اللہ خان کو ناظم منتخب کیا گیا تو ان کی خدمت کی مثالیں آج بھی دی جاتی ہیں اور اہل کراچی ان کو دل سے یاد کرتے ہیں، یہ صرف ایک جھلک تھی، اس انتظامی صلاحیت کی جو جماعت کے کارکنوں میں بدرجہ اتم موجود ہے۔
آج بھی جب ملک میں وبائی مرض نے اپنے پنجے گاڑے ہیں، جماعت کے رضاکار اپنے امیر کی قیادت میں قوم کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں اور اپنی خدمات کی تاریخ کو تازہ کر رہے ہیں۔ الخدمت فاؤنڈیشن کی خدمات کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ ملک میں کہیں بھی جب قوم کو خدمت کی ضرورت ہوئی الخدمت کے کارکنان وہاں پہنچ گئے۔ کورونا وباء میں بھی الخدمت کے کارکنان ملک کے طو ل وعرض میں پھیل گئے ہیں اور اپنے پاکستانی بھائیوں کی خدمت کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے ہیں۔ پاکستان کے ہر صوبے میں، ہر ضلع میں اور تحصیل سے لے کر یونین کی سطح تک کارکنان غریب اور نادار لوگوں میں کہیں راشن بانٹ رہے ہیں تو کہیں ادویات تقسیم کی جارہی ہیں، بلاتفریق خدمت ہو رہی ہے، کسی عربی عجمی کا فرق نہیں یعنی مسلمان غیر مسلم انسان یا حیوان ان کی نظر میں سب کی خدمت فرض ہے۔ اشرافیہ کے زمانے میں یہ فقیر لوگ کسی تشہیر کے بغیر اپنے کام میں جتے ہوئے ہیں جس کا اعتراف ان کے مخالفین بھی کر رہے ہیں۔
جماعت اسلامی جہاں پر خدمت کے جذبے سے بھر پور کارکنان کی حامل جماعت ہے وہیں پر اس کے سیاسی کارکن بھی کسی سے کم نہیں ہیں، ایک بڑی قوت جس کو قدرت نے بڑی سیاسی اور منظم طاقت دی ہے، قربانی کا فرواں جذبہ عطا کیا ہے۔ تعداد کے لحاظ سے اور نظم و ضبط تو خیر اس جماعت کا ایک روشن پہلو ہے جس کو ہم کسی بھی صورت میں دیکھتے رہتے ہیں، الخدمت فاؤنڈیشن کے لوگ نہایت منظم طریقے سے اپنے امیر کی قیادت میں خدمات انجام دیتے ہیں اور بے لوث انجام دیتے ہیں، وہ اپنی خدمات کے لیے کسی سے کوئی صلہ نہیں مانگتے، وہ باوضو ہو کر اپنے رب کی رضا کے لیے خدمت کرتے ہیں، ایسے فقیر لوگوں کی دعائیں خدا سنتا ہے، میں الخدمت کے کارکنان سے درخواست کروں گا کہ وہ قوم کے لیے دعا بھی کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس مشکل سے نجات دلائے۔ میں اگر جسمانی طور پر صحت مند ہوتا تو ان کارکنان کے پاس ضرور حاضری دیتا، ان سے دعا کے لیے درخواست کرتااور جماعت کے ساتھ اپنی یادوں کو تازہ کرتا لیکن میں بوجہ مجبوری حاضری سے قاصر ہوں اور ان ابدی منزلوں کے درویشوں کے لیے دعا گو ہوں۔