مسائل اور مصائب سے پریشان حکومت ہر روز اطلاع دے رہی ہے اور تخمینے لگائے جارہے ہیں کہ کورونا وباء کی وجہ سے ملک کو کتنا نقصان ہو رہا ہے اور کتنے لوگ بے روز گار ہوں گے۔ فی الحال تو جو حکومتی اقدامات نظر آرہے ہیں وہ حکومتی وسائل سے بڑھ کر ہیں، لاہور میں ایک ہزار بستروں پر مشتمل ایک عارضی اسپتال کے علاوہ مختلف شہروں میں اسی طرح کی سہولتیں بنائی جارہی ہیں جن میں وباء کے متاثرین کو ایک مخصوص مدت تک رکھنے کے اقدامات کیے گئے ہیں۔
وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے عوام کے لیے ایک ریلیف پیکیج کا بھی اعلان کیا گیا ہے اس امدادی پیکیج سے کتنے لوگ مستفید ہوں گے اورکتنے لوگ حکومت سے ناراض اور شکوہ کناں ہوں گے اس کا علم بعد میں ہو گا۔ بجلی گیس کے بلوں میں وقتی چھوٹ دی گئی ہے، کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہ صارفین جن کے بل پانچ ہزار روپے کی حد تک ہوں وہ بل معاف ہی کر دیے جائیں جیسے دوسرے شعبوں میں سبسڈی دی جا رہی ہے ایک سبسڈی براہ راست عوام کو بھی دی جانی چاہیے۔
اس کے علاوہ اگر ملک بھر کی بات کی جائے تو حکومت کی جانب سے تمام صوبوں میں بندش جاری ہے لوگوں کو گھروں میں رہنے کے لیے مجبور کیا جارہا ہے تا کہ ان کو وبائی مرض سے محفوظ رکھا جا سکے لیکن اس مجبوری کی وجہ سے عام آدمی کی مشکلات میں بتدریج اضافہ ہورہا ہے اور وزیر اعظم عمران خان کے یہ خدشات درست ثابت ہورہے ہیں کہ اگر ملک کو مکمل طور پر بند کر دیا گیا تو غریب آدمی کی حالت بدتر ہوجائے گی لیکن موجودہ حالات میں بھی غریب آدمی کی حالت بگڑتی جارہی ہے اور یہ خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ یہ تو ہو سکتا ہے کہ کورونا وباء کا اثر تو کم ہو لیکن ایک عام آدمی بھوک کی وجہ سے مر جائے۔
انھیں معلومات کی بنیاد پرگزشتہ روز حکومت نے تعمیراتی کاموں کو ان بندشوں سے آزاد کرنے کا فیصلہ کیا ہے تا کہ ایک مزدور جو روزانہ کی اجرت سے اپنے گھر کی دال روٹی چلاتا ہے اس کا چولہا جلتا رہے۔ ڈیڑھ کروڑآبادی والا لاہور بھی ان بندشوں کے نرغے میں ہے اور کوئی فرد جب انتہائی مجبوری کے عالم میں گھر سے باہر جاتا ہے تو واپسی پر لاہور کی بندش کا حال معلوم ہوتا ہے۔ لاہور کو اس بندش نے ویران کر دیا ہے، میں گھر بیٹھ کر چشم تصور سے دیکھ رہا ہوں کہ اس پربہار شہر کو چپ چاپ خاموش بند شہر دیکھنا بڑی جرات اور حوصلے کا کام ہے اور اس شہر سے وابستہ یادیں تازہ کر کے رونے رلانے کو جی نہیں چاہ رہا۔
لاہور شہر ایک طویل تاریخ رکھتا ہے اور اس شہر کے عام آدمیوں اور حکمرانوں نے اس کے ساتھ عشق کیا ہے، ملکہ عالم نورجہاں تو اس شہر کو جان کے برابر بھی خریدنے پر تیار تھی۔ موجودہ بندش بھی اس شہر کی طویل تاریخ میں ایک ایسے باب کا اضافہ ہے جس کا ذکر تو بہت سے لوگ درد کے مارے پڑھیں گے ہی نہیں۔ لیکن مجبوری یہ ہے کہ لاہور اس مرتبہ کسی سیاسی غم میں بند نہیں ہورہا اور کوئی سیاسی لیڈر اسے سیاسی مفادات کے لیے بند نہیں کر رہا بلکہ قومی پریشانی میں شہر کو بند کیا گیا ہے، ایسی قومی پریشانی جس کی وجہ سے ملک کے بیشتر شہر بند ہیں قدرتی وباء نے لوگوں کو گھروں میں رہنے پر مجبور کر دیا ہے جس کی وجہ سے شہر کے شہر ویران نظر آتے ہیں۔ دن دیہاڑے لاکھوں کروڑوں کی آبادی والے شہر جیتے جاگتے سنسان ہو گئے ہیں۔ یہ اس قدر مشکل بلکہ محال لگتا ہے کہ کسی کا مذاق معلوم ہوتا ہے۔
عمران خان تقریباً ہر روز عوام کو باخبر رکھنے کے لیے ان سے مخاطب ہوتے ہیں جس میں وہ یہ اپیل کرتے ہیں کہ عوام گھروں میں رہیں گے تو اس وبائی مرض سے چھٹکارا ممکن ہو سکے گا یہ بات ان کے علم میں بھی نہیں کہ یہ وباء خدا جانے کب اپنے انجام کو پہنچے گی اس کے بارے میں اندازے ہی لگائے جا سکتے ہیں اور ڈاکٹروں کی پیشنگوئیوں سے ہی کام چلایا جا سکتا ہے۔ دوسری طرف حکومت اس اہم ترین مسئلے پر اپوزیشن سے مشاورت کے معاملے میں تذبذب کا شکار نظر آتی ہے اور ابھی تک مشاورتی عمل کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی جس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ اپوزیشن کی توپوں سے تنقیدکے گولے حکومت کی جانب داغے جارہے ہیں۔
اس اہم قومی مسئلے پر اگر حکومت اپوزیشن سے مشاورت کو ترجیح دے تو اس کے سیاسی مخالفین کی توپیں خاموش ہو جائیں گی لیکن اقتدار کے ایوانوں میں قید حکمرانوں کے مسائل اس قدر زیادہ اور متنوع ہوتے ہیں کہ بھلا چنگا آدمی بھی بوکھلا جاتا ہے اور حکمرانی کے امور سے ناتجربہ کار حکمران کے لیے انسانی مسائل کو سمجھ کر انھیں حل کرنا اور بھی مشکل ہو جاتاہے۔ مراکش کے ایک دورے میں ایک قدیم مدرسے کے مختلف حصوں کی زیارت کر رہا تھا تو ایک استاد نے بتایا کہ اس مدرسے نے ابن خلدون اور ادریسی جیسے عالم پیدا کیے تھے۔
جنہوں نے انسانی مزاج کے علوم پر دنیا میں پہلی بار علمی کام کیا تھا اور انسانوں پر حکمرانی کے راز بیان کیے تھے۔ زمانہ بدل گیا اور انسان کی ضروریات بھی بدل گئیں لیکن انسان کا مزاج نہیں بدلا۔ آج بھی حکمرانی کے لیے وہی کچھ کرنا پڑتا ہے جو صدیوں پہلے کیا جاتا تھا۔ انسانوں کو قابو کرنا مشکل ترین عمل ہے لیکن جب قدرتی وباؤں کا زمانہ آتا ہے تو حکومتیں انسانوں کے سامنے بے بس ہو جاتی ہیں اور انسان ازخود اپنی زندگی کے تحفظ کے لیے اپنے آپ کو بندشوں میں جکڑ لیتا ہے۔
یہ دعا کا وقت ہے کہ ان بندشوں سے ہم جلد از جلد آزاد ہو جائیں اور دوبارہ اپنی معمول کی زندگی کی جانب لوٹ سکیں۔ میری دعا ہے کہ حکومت اس مسئلے سے احسن طریقے سے عہدہ برآء ہو کیونکہ ملک کے اندر غربت کی صورتحال انتہائی بھیانک ہو چکی ہے اور ہم کسی ایڈوینچر کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ میں عمران خان کا دل سے مداح ہوں وہ اپنے قرب و جوار میں جمع ارب پتی مصاحبوں سے بچتے ہوئے عوام دوست فیصلے کریں اور میرے جیسے مداحوں اور امید والے لوگوں کو مایوس نہ کریں۔ باقی اللہ مالک ہے۔