ہماری حکومت کے ناتواں کندھوں پر یک دم کئی بوجھ پڑ گئے ہیں جن کی وجہ سے نہ حکومت کو سمجھ آرہی ہے کہ کندھوں پر یکایک پڑنے والے اس وزن کو ہلکا کیسے کیا جائے اور نہ ہی عوام کو سمجھ آرہی ہے کہ حکومت ان سے کیسے آزاد ہو گی۔
کورونا کی وبا نے حکومت کی پریشانیوں میں اضافہ تو ضرور کیا ہے لیکن اگر کورونا کی وبا نہ ہوتی تو حکومت کو اس کے علاوہ کئی آزار اورلگ جاتے جس کی وجہ سے اس کی پریشانیوں میں کئی گنا اضافہ ہو جانا تھا، ابھی تو صرف ایک کورونا کا مرض لاحق ہوا ہے اور اس میں بھی کسی حد تک عوام کی ہمدردی حکومت کے ساتھ ہے کہ وبا کے دنوں میں بڑی بڑی حکومتیں بے بس ہو جاتی ہیں۔ اس لیے عوام ان کی خطائوں کو درگزر کر دیتے ہیں لیکن یہ صورتحال زیادہ دیر نہیں چلے گی۔
حکومت کو واپس عوام کے پاس ہی آنا ہے اور ان کو حساب دینا ہے۔ حکومت نے کئی ایسے معاملوں میں بھی ہاتھ ڈال دیا ہے جن پر ماضی میں کسی نے ہاتھ ڈالنے کی جرات نہیں کی تھی جس کی وجہ سے اس کی پریشانیوں میں اضافہ ہونا ہی تھا لیکن ا ن جرات مندانہ اقدامات کو سراہا جا رہا ہے اور اگر ان اقدامات کو منطقی انجام تک پہنچا دیا گیا تو پھر حکومت کی مقبولیت میں جو کمی آئی ہے وہ مقبولیت کے اضافے میں تبدیل ہو جائے گی۔
حکومت نے اپنے احتسابی عمل میں یہ نہیں دیکھا کہ احتساب کے شکنجے میں کون آرہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ حکومت نے اپنے قریبی لوگ بھی احتساب کی بھٹی میں جھونک دیے ہیں۔ ہم پاکستانیوں کی یاداشت بہت محدود ہے اگر ہم اس حکومت کے شروع دنوں کو یاد کریں تو پنجاب کے دو وزیر وں کو احتساب کے عمل سے گزرنا پڑا تھا اور وہ اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے بعد ہی دوبارہ پنجاب کابینہ میں شامل ہوئے تھے، اسی طرح خیبر پختونخواہ میں پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دینے والے ممبر ان اسمبلی کی گوشمالی بھی کی گئی تھی۔
یعنی یہ کہا جاسکتا ہے کہ عمران خان کی پارٹی میں احتساب کا عمل جاری ہے اور وہ بطور ایک نیک نیت حکمران کے اس عمل کو جاری رکھنے کی بھر پور کوشش کر رہے ہیں لیکن پاکستان کے معروضی حالات میں وہ شاید زیادہ دیرتک خود احتسابی کے اس عمل کو جاری نہ رکھ سکیں حالانکہ وہ بار بار اس بات کو دہراتے ہیں کہ یہ احتسابی عمل نیب خود کررہا ہے جو ایک مکمل خود مختار ادارہ ہے اور اس میں حکومت کا کوئی عمل دخل نہیں ہے لیکن سب جانتے ہیں کہ حکومت یہ چاہتی ہے کہ احتساب جاری رہے اور سب کا احتساب ہو۔
ایک طرف تو یہ احتسابی عمل جاری ہے اور دوسری طرف حکومت کے بلوچستان سے ایک اہم اتحادی جناب اختر مینگل نے حکومت سے گلے شکوے کرتے ہوئے حکومتی اتحاد سے علیحدگی کے بعدحکومت کے سب سے بڑے نقاد مولانا فضل الرحمن سے ملاقات بھی کر لی ہے جس میں انھوں نے اپوزیشن سے قربتیں بڑھانے کے اشارے دئے ہیں۔
کون نہیں جانتا کہ اپوزیشن کی جانب سے حکومت پر اگر کوئی حملہ کیاگیا ہے تو وہ مولانا فضل الرحمن نے کیا تھا، جب وہ اسلام آباد میں دھرنا دے کر بیٹھ گئے تھے اور پھر حکومت کے دوستوں کے وعدوں پر انھوں نے اپنا بوریا بستر لپیٹا تھا، بعد میں وہ اپنے ان دوستوں سے گلہ شکوہ بھی کرتے نظر آئے، اب ایک بار پھر ان کے ہاتھ میں بٹیرہ آگیا ہے اور انھوں نے موقع سے فوری فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے، دیکھنا یہ ہے کہ وہ حکومت کے ناراض اتحادیوں کو اپنے ڈھب پر لانے میں کتنے کامیاب ہوتے ہیں۔
جیسا کہ پہلے عرض کیا ہے کہ حکومت پہلے ہی بوجھ تلے دبی ہوئی تھی اب اچانک کورونا کی آزمائش میں سیاسی آزمائش کا سامنا بھی کرنا پڑ گیا ہے لیکن اس سب کے باوجود حکومت کے بلارے مطمئن ہیں کہ وہ جناب اختر مینگل کو منانے میں کامیاب ہو جائیں گے اور کسی تنگ آمد بجنگ آمد کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
انھی مشکل حالات میں گھری حکومت کو بجٹ بھی پیش کرنے پڑ گئے ہیں۔ وفاقی اور صوبائی بجٹ ہم سب سن اور پڑھ چکے ہیں جن میں ظاہری طور پر عوام پر کوئی ٹیکس عائد نہیں گیا لیکن یقین کے ساتھ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ بجٹ عوام دوست ہیں، سرکاری ملازمین کی ایک بڑی تعداد جو لگی بندھی آمدن کے مطابق اپنی زندگی گزارنے پر مجبور ہے، اس کے لیے تو مہنگائی میں کئی گنا اضافہ ہو گیا ہے لیکن ان کی تنخواہوں میں کوئی اضافہ نہیں کیاگیا، بجلی کے بلوں میں بھی کسی رعایت کا اعلان نہیں کیا گیا، بجٹ سے پہلے صرف پٹرول کی قیمتوں میں خاطر خواہ کمی کی گئی تھی لیکن اس کے ثمرات عوام تک پہنچنے کے بجائے روائتی مافیا نے اس کی قلت کر دی اور اب یہ عالم ہے کہ پٹرول نایاب ہو چکا ہے اور حکومت اپنا پورا زور لگانے کے باوجود اس کی قلت دور کرنے میں ناکام ہو چکی ہے۔
بجٹ میں عوام پر کوئی نیا ٹیکس نہ لگانے کی نوید سنائی گئی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ہر بجٹ میں عوام کو چند سبز باغوں کی جھلکیاں دکھائی جاتی ہیں لیکن ان گلشنوں میں عوام کو سیر سپاٹے کی اجاز ت نہیں ہوتی۔ بات بڑی صاف ہے کہ بجٹ بنانے والے کون لوگ ہیں، یہ سب خاص ہیں اور ان خواص کے بنیادی مفادات کا تحفظ ان کا اپنا تحفظ ہے، ان اونچے لوگوں کی شاہانہ زندگی میں کوئی چاندنی چمکتی رہے گی اور ملک کے غیرسرکاری طبقات میں سے جو طبقات ان اونچے سرکاری لوگوں کے آبدار ہیں، خوشحالی، منافع خوری اور زراندوزی کاآب حیات پیتے رہیں گے۔
ہمارے ہاں سرمایہ دارانہ نظام کی ایک بدترین کرپٹ شکل موجود ہے، کوئی گھوڑا گھاس سے دوستی کیسے کر سکتا ہے۔ یہ عوام تو گھاس ہیں جو صرف کھانے کے کام آتی ہے۔ اسی ذہنیت والے لوگوں نے بجٹ بنانے ہوتے ہیں، ایک ہاتھ سے اگر کچھ دینا بھی ہے تو دوسرے ہاتھ سے ضرور کچھ لے بھی لینا ہے۔ تو جناب اس طرح نیب سے لے کر بجٹ تک اور عدالتوں سے لے کر اپوزیشن تک حکومت کو اتنے آزار لاحق ہو گئے ہیں کہ وہ ان سے نکلنے کی ہمت شاید ہی رکھتی ہو۔